خاص مضمون :ملت ٹائمز
زین شمسی
مکتب الفاظ سے آشنا کرتا ہے ،اسکول الفاظ کو معنی پہناتا ہے، ،کالجمعنی میں بالیدگی پیدا کرتا ہے اور یونیورسٹی بالیدگی کے ساتھ پیچیدہ سوال اٹھانا سکھاتی ہے، اوریہی تعلیم برائے زندگی ہے اور زندگی برائے تعلیم ہے۔نظریات اور خیالات ایسے ہی چہاردیواریوں میں پنپتے ہیں ،بڑھتے اور پھیلتے ہیں۔گھٹن بھرے ماحول سے الگ ایک آزاد فضا بچوں اور طلبا کو کچھ الگ کرنیکا موقع دیتی ہے۔ اسی لیے یونیورسٹی کیمپس کی زندگی کو زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ یا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد کوئی بھی آدمی دوسروں کے لیے جینے لگتا ہے ،صرف یونیورسٹی ہی اسے یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے لیے جئے اور خوب جئے۔ یہ ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی سر زمین پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی جیسا بے مثال اور قیمتی سرمایہ موجود ہے۔ملٹی کلچر ، ملٹی ڈسپلن ،ملٹی پالیٹکس اور ملٹی انٹی لیکچولٹی کامرکب جے این یو اپنے طلبا کو سوال کرنا سکھاتا ہے اور غلط سوال کا جواب دینا بھی اسے خوب آتاہے، اس کی یہی خوبی شاید اب اس کے لیے مصیبت بن کر سامنے آنے لگیہے۔
آج کے منظرنامہ میں دیکھیں تو لڑائی حب الوطنی یا غداری وطن کی نہیں ہے ،لڑائی سوال کرنے اور سوال نہ کرنے کی ہے ،لڑائی خاموشی کی تہذیب کو فروغ دینے کی ہے۔لڑائی یہ ہے کہ ملک میں صرف ایک نظریہ ہی چلیگا ،باقی کسی بھی نظریات کو پہلے بات سے پھر لات سے رد کر دیا جائے گا خواہ اس کے لیے کوئی بھی قانون توڑنا پڑے ،خواہ عدالتیں مسمار کرنی پڑیں۔کیا ہو گیا ،جس کے لیے اتنا بڑا ہنگامہ ہوا۔ یونیورسٹی کے اندر ہزاروں طرح کی ثقافتی اور سیاسی اور سماجی تقریبیں منعقد ہوتی ہیں۔الگ الگ نظریات ،الگ الگ ثقافت ،الگ الگ زبان کے لوگ اپنی اپنی خواہشات اور توقعات اور امکانات کے ساتھ یونیورسٹی میں آتے ہیں اور خود کو بہتر بنانے کی جستجو کرتیہیں۔ایسے پروگرام میں کبھی کبھی لڑکے مشتعل بھی ہوجاتے ہیں ،لیکن اسے یونیورسٹی انتظامیہ اور یونیورسٹی کے دوسرے طلبا اپنے طور سے نمٹ لیتے ہیں۔کئی پارٹیوں کی ترجمان طلبا ونگ ہوتی ہے ،وہ اپنے اپنے نعرے گڑھتے ہیں۔ بات صرف جے این یو کی کریں تو بھی آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس کیمپس میں جہاں افضل گرو کی حمایت میں نعرے لگائے گئے ، وہیں اے بی وی پی طلبا ونگ یہ بھی نعرہ لگا چکا ہے کہ گجرات کے دنگائیوں کو ایک موقع اور دو تو کیا یہ نعرہ دیش سے پریم کو ظاہر کرتا ہے، کیا اس نعرہ پر کسی طرح کا کوئی ردعمل سامنے آیا ،نہیں آیا کیوں کہ وہاں کے طلبا نے ہی اس نعرہ کو مسترد کر دیا۔کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے بہانے کوئی بھی ملک کے خلاف اول فول بکنے لگے ،دیش کو توڑنے کی بات کرنے لگے ،مگر اس سچائی کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج کی قومی سیاست سچائی کو داغدار کرنے کے لیے جھوٹ کا پروپگنڈہ بے طرح استعمال کر رہی ہے اور اس کے لیے میڈیا کا ایک طبقہ بھرپور تعاون دے رہا ہے۔کنہیا کے معاملہ کو لیجئے ، تو کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ اس کے خلاف ایف آئی آر زی ٹی وی کے فوٹیج کو بنیاد بنا کر درج کی گئی ،جبکہ اس موقع پر تین پولیس اہلکار بھی موجود تھے، کیا پولیس اہلکاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور اب اس میڈیا کی قلعی بھی کھل رہی ہے کہ کس طرح اس نے اپنی ٹی آر پی کے لیے دیش کو اشتعال کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ تفتیش ہو رہی ہے ،اپنے اپنے پیمانہ پر کئی ادارے تفتیش کر رہے ہیں، لیکن جو عوام نے دیکھا وہ کیا کسی بڑے ملک کی شان میں اضافہ کرنے والا ہے۔ عدالتوں میں انارکی کا منظر ، پولیس کی خاموش حمایت ، پولیس کمشنر کا موقف ، سرکار کا ردعمل اور اپوزیشن کا احتجاج ،ان تمام افراتفری میں ملک کا بھاری نقصان ہوا ہے۔
حب الوطنی کی ایک عجیب سی تشریح کی جا رہی ہے۔ جھنڈا اونچا رکھنے کے لیے ڈنڈوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ جھنڈا خواہ کتنا بھی بلند کیوں نہ ہو اگر دل میں اس کی عزت نہیں ہوگی تو کیا ملک کا وقار اونچا ہوگا۔ رہنماؤں کی بیان بازیاں دیکھیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے کہ معاملہ کو ختم کرنے کے بجائے طول دینا ہی ان کی سیاست کا حصہ ہے۔ اس ملک میں کون ایسا آدمی ہوگا جو بھارت کو توڑنا چاہے گا۔ کون ایسا ہوگا جو اپنے مادر وطن سے نفرت کر رہا ہوگا۔ ہاں اسے نفرت ہوگی بھارت کی غریب مخالف پالیسی سے اسے نفرت ہوگی ،مذہبی سیاست سے ،اسے نفرت ہوگی تعصبانہ سیاست سے لیکن کسی کو بھی اپنے ملک سے نفرت کیوں ہونے لگی؟ہاں اگر سرکار کی پالیسی خواہ وہ بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی ہو، سے انکار کر رہا ہو تو اسے ملک مخالف کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اب سیاست اسی نظریہ پر منتقل ہونے لگی ہے۔جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ویسے اس معاملہ میں سرکار بیک فٹ پر جاتی نظر آرہی ہے اور یہ ہونا ہی تھا کیونکہ جے این یو کو طالعہ بھی لگا دیجے تب بھی اس نے ایسے ایسے لوگوں کی ذہن سازی کی ہے جو آپ کا پیچھا بہت دور تک اور بہت دیر تک کرتے رہیں گے۔
ہاں جے این یو کے معاملہ نے ایک اور سوال کھڑا کر دیا ہے۔کنہیا کمار کی گرفتاری کے بعد جس طرح اپوزیشن لیڈروں کی یکجہتی سامنے آئی ،یہ بھی دیکھا گیا کہ راہل گاندھی تک جے این یو پہنچ گئے۔لیفٹ ،عام آدمی پارٹی ،جنتا دل یو ،بی ایس پی اور دیگر جماعتوں نے کھل کر کنہیا کی گرفتاری کے خلاف آوازیں بلند کیں ،کیا انہیں مولانا عبدالسمیع سمیت ان بے شمار بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری پر شک نہیں ہوتا، کیا ان لوگوں کے مطابق کنہیا کی گرفتاری مشکوک ہوسکتی ہے اور عبدالسمیع کی گرفتاری میں چوک نہیں ہو سکتی۔سچ کہا جائے تو غداری وطن اور دہشت گردی کا الزام ایک جیسا ہے ،دونوں میں ضمانت نہیں ہوتی اور دونوں مقدمات تخریبی زمرے میں آتے ہیں ،تو آخر کنہیا اور عبدالسمیع میں فرق کیوں، سوچئے گا،کیونکہ جرم بڑا ہوتامجرم نہیں ہے۔ابھی تک تو نہیں دیکھا گیا کہ کسی مسلم کی گرفتاری پر اپوزیشن نے اتنا چخ چخ کیا ہے۔اسی کیس کو دیکھتے ہیں۔ کنہیا کی گرفتاری کو غلط کہنے والے راہل گاندھی اور کیجریوال عمر خالد کی گرفتاری پر کیا کہتے ہیں،کیونکہ اب یہ معاملہ خالد کی طرف ڈائیورٹ ہوتا نظر آرہا ہے۔ کنہیا کی گرفتاری کے لیے وکلا ، میڈیا اور بسی کا سہا را لیا گیا، خالد کے لیے تو صرف اس کا نام ہی کافی ہے۔ سوچئے گا کہ ملک میں بحران یکایک نہیں آتا، اس کے لیے برسوں سے زمین تیار کی جا تی ہے اور اب بویا ہوا پیڑ فصل دینے لگا ہے۔ شاید اسی لیے کنہیا معاملہ میں ارشد مدنی کا وہ بیان آیا تھا کہ اس معاملہ سے مسلمان دور رہیں، انہیں اس بات کا احساس رہا ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے لڑنے والا اس ملک میں اب کوئی نہیں بچا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا چلوں کہ ملک میں آنے والا بحران مسلمانوں کو ایک موقع دیتا ہے کہ وہ مین اسٹریم سیاست کا حصہ بنیں۔ وہ ملک کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھیں اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس احتجاج کا حصہ بنیں جس سے ملک کو خطرہ لاحق ہے۔ اخلاق معاملہ میں دیکھا گیا کہ جب اس کے قتل کے خلاف ایوارڈ واپسی کی مہم چلی تو مسلمان ایوارڈ یافتگان اپنا ایوارڈ چھپا کر گھومتے رہے ،اسی طرح جب کنہیا کا معاملہ آیا تو کوئی بھی مسلم تنظیم اس کے حق میں نہیں آئی ،کیا اے ایم یو اور جامعہ کی طرح جے این یو سینٹرل یونیورسٹی نہیں ہے ،کیا وہاں مسلمان نہیں پڑھتے ،ٹھیک اسی طرح اگر جامعہ اور علی گڑھ معاملہ میں مسلم تنظیمیں کھڑی ہوتی ہیں تو کیا وہ بھول جاتی ہیں کہ ان دونوں یونیورسٹیوں میں غیر مسلم طلبا کی کثیر تعداد فیضان علم میں مشغول ہے۔ اس لیے سوچئے کہ کہیں نہ کہیں ہم کوئی بھول تو نہیں کر بیٹھتے جہاں ہمیں ایک بڑا نقصان جھیلنا پڑتا ہے۔ جس طرح قومی لیڈران آپ کی سدھ نہیں لیتے ،اسی طرح آپ قومی تشویشات کی سدھ نہیں لیتے۔
خلاصہ بحث :انتہائی چالاکی کے ساتھ کنہیا کمار کی گرفتاری کے لبادے میں روہت ویمولا کی خودکشی کو چھپا دیا گیا۔ویمولا کا معاملہ سرکار کے لیے بڑا ڈنک ثابت ہوتا، مگر ان سارے معاملہ میں ایک سوال یہ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کو کنہیا کمار کی گرفتاری مشکوک نظر آتی ہے ، لیکن مولانا عبدالسمیع اور بیشمار بیقصور مسلمانوں کی گرفتاریوں میں کوئی چوک نظر نہیں آتی، جے این کا معاملہ عمر خالد کی طرف ڈائیورٹ ہوتا نظر آرہا ہے ،دیکھتے ہیں کہخالد کی گرفتاری پر کس کی زبان کھلتی ہے؟کاش خاموش قیادت میں زہرآلود سیاست کوسمجھنے والاکوئی تو ہو۔