جیسی اب ہے تری محفل…

خاص مضمون :ملت ٹائمز
ایم ودودساجد
زیر نظر سطور کو گزشتہ ہفتہ کے مضمون کی توسیع کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔مسلمانوں کے ایک خاص طبقہ نے ‘جس کی نظر میں باقی کوئی مسلمان ہی نہیں ہے‘دہشت گردی کو بہانہ بناکر مسلمانوں کے ہی ایک مخصوص طبقہ کو جس مکروہ اندازمیں نشانہ بنایاوہ نہ صرف قابل تشویش ہے بلکہ مسلمانوں کے تمام طبقات کی فوری توجہ کا طالب بھی ہے۔پچھلے ہفتہ کا مضمون پڑھ کر میرے ایک خانقاہی (سنی)دوست نے مجھے فون کرکے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور میرے نکات سے اتفاق کرتے ہوئے ان لوگوں سے اختلاف کیا جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی بجائے خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑنا شروع کردیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس طبقہ میں مذکورہ بالا خانقاہی دوست کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں نام نہاد صوفیوں کی یہ طرزپسند نہیں آئی ہوگی۔لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے معقولیت پسند لوگ آخراپنے گروہوں میں موجود ان شرپسندوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ دہشت گردی کی آڑمیں مسلمانوں کے دوسرے طبقات پر کھلا نشانہ لگایا گیا ہو۔اس سے پہلے اترپردیش کے شہر کانپور اور جونپوراور کیرالہ کے کالی کٹ میں بھی اسی طرح کی کانفرنسیں ہوچکی ہیں جن میں کم وبیش اسی طرح کی زبان استعمال کی گئی تھی۔لیکن زیر بحث کانفرنس کے مقررین نے اپنے لب ولہجہ میں جو شدت اختیار کی وہ معمول کی شدت سے ہٹ کر ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
اس موضوع پر دوسری قسط لکھنا اس لئے بھی ضروری ہوگیا تھا کہ نام نہاد ’’آل انڈیا تنظیم علما ء اسلام‘‘نے جو زہریلی پریس ریلیز جاری کی تھی اس کا کسی نے ابھی تک مدلل جائزہ نہیں لیا ہے۔ مثال کے طورپرحکومت سے ایک مطالبہ یہ کیا گیا کہ تمام اوقاف کی ذمہ داری صوفیوں یا ایک خاص مسلک کے لوگوں کو دی جائیں اور وقف بورڈز کے عہدوں سے دوسرے مسلک کے لوگوں کو فوراً ہٹایا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا مسلم اوقاف سرکاری ملکیت ہیں؟آخر حکومت کو ان اوقاف پر کیا اختیار حاصل ہے جو وہ دوسروں کو ہٹاکر ’’انہیں‘‘بٹھادے گی؟اکثر وقف بورڈزمیں ایک مقررہ میعاد کے بعد ممبروں کیلئے الیکشن ہوتا ہے۔جو ممبران جیت کر آتے ہیں وہی اپنے درمیان سے ایک چیرمین کا انتخاب کرتے ہیں۔اس عمل میں حکومت کا کام صرف نگرانی کا ہوتا ہے۔توآپ کو الیکشن لڑنے سے کس نے روکا ہے؟آپ کو اوقاف کی اتنی فکر ہے تو آئیے اور الیکشن لڑئے۔پھر ایک سوال یہ ہے کہ آخر اوقاف اور دہشت گردی کے درمیان کیا ربط ہے؟داعش کی دہشت گردی ہندوستان سے سینکڑوں اور ہزاروں میل دورجاری ہے لیکن آپ اس کی دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے یہاں کے اوقاف پر تسلط چاہتے ہیں۔اور جن مزاروں‘ خانقاہوں اور درگاہوں پر خود آپ کا تسلط ہے وہاں آخر کیا ہورہا ہے؟آپ اس کے حوالے سے کتنی دہشت گردی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟درگاہوں اور مزاروں پر زائرین کو کس حال سے گزرنا پڑتا ہے کیا کبھی آپ نے اس کو درست کرنے کی کوشش کی؟بھولے بھالے لوگ وہاں جس عقیدت کو لے کر جاتے ہیں اسے بے ہنگم مسٹنڈوں کے ٹولے مجروح کرکے بھیجتے ہیں۔جو غیر مسلم عقیدت مند جاتے ہیں وہ حیرت سے تکتے رہتے ہیں کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو بزرگوں کی آرام گاہوں پر شیطانی بھیس میں پڑے ہوئے ہیں اور زائرین کو پریشان کر رہے ہیں۔کیا آپ ملک بھر کے اوقاف کو ایسا ہی بنانا چاہتے ہیں؟پہلے ان درگاہوں اور مزارات کو ماحولیاتی‘سماجی اور اخلاقی دہشت گردی سے پاک کیجئے پھر اوقاف کی بات کیجئے۔
ان نام نہاد صوفیوں کی کانفرنس میں ایک مطالبہ اور کیا گیا کہ یونیورسٹیوں سے ’’وہابی‘‘نصاب تعلیم ختم کیا جائے۔مجھے اس مسلک سے وابستہ لوگوں کا دفاع کرنا مقصود نہیں ہے۔لیکن مشکل یہ ہے کہ مسلکی دہشت گردی کا چشمہ لگائے ہوئے یہ لوگ یہ سمجھے بغیر کہ وہابیت کیا ہے‘یکطرفہ تیرونشتر چلارہے ہیں اور اس کی زد میں وہ بھی آرہے ہیں جن کا وہابی تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 12ویں صدی ہجری میں حجاز مقدس کے لوگ بدعات وخرافات میں مبتلا ہوگئے تھے۔ایسے میں عبدالوہاب نجدی نامی ایک مصلح رونما ہوا اور اس نے عقیدہ توحید کے احیاء کی ایک تحریک چلائی۔اس تحریک کے نتیجے میں جن گروہوں کی دوکان بند ہوئی انہوں نے اس تحریک کو وہابی ازم یا وہابیت کا نام دیدیا۔اس تحریک کا ہندوستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہاں خدا کاشکر ہے کہ جدوجہد آزادی کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کو حصول علم ا ورعقیدہ کی درستگی کیلئے دیوبند میں ایک علمی ادارہ ملااور اس ادارہ کی بدولت ہی ہندوستان کو آزادی ملی۔اس ادارہ نے کیسے کیسے جانباز علماء پیدا کئے جنہوں نے خود کو ملک پر قربان کر دیا۔لہذا یہ بات صاف ہوجانی چاہئے کہ عبدالوہاب نجدی کی تحریک اور تحریک دیوبند کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہے لیکن یہ درست ہے کہ دیوبند عقائد کے اعتبار سے بریلی سے مختلف ہے۔لیکن اس کے باوجود علماء دیوبند نے کبھی علماء بریلی کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی ہے۔لہذا جب امام احمد رضا خان بریلوی کی وفات کی اطلاع پہنچی تو مولانا اشرف علی تھانوی نے بھری مجلس میں دعائے مغفرت کیلئے ہاتھ اٹھالئے۔لوگوں نے کہا کہ وہ تو زندگی بھر آپ کو گستاخ رسول کہتے رہے۔اس پر مولانا تھانوی نے جواب دیا کہ وہ ہمیں گستاخ رسول سمجھتے تھے اس لئے گستاخ رسول کہتے تھے۔اگر وہ ہمیں گستاخ رسول نہ کہتے تو خود گستاخ رسول ہوجاتے۔معلوم ہوا کہ عشق رسول میں دونوں سچے تھے۔اب غلو اور عدم غلو کی بحث میں اس لئے نہیں پڑنا چاہئے کہ اس سے بچنے کیلئے لکم دینکم ولی دین جیسا قرآنی سہارا موجود ہے۔یہ معاملہ بندوں اور خدا کے درمیان کا ہے۔اس پر بندوں کو آپس میں نہیں الجھنا چاہئے۔بقائے باہم اور یکجہتی کا اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں ہوسکتا۔لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ داعش کی دہشت گردی وہابی دہشت گردی ہے اور پھر اسی سانس میں حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں سے وہابی نصاب تعلیم کو ہٹائیے اور وقف بورڈوں کو صوفیوں کے قبضہ میں دیجئے تو اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ آپ اپنے سوا باقی تمام مسالک کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ذرا غور کیجئے کہ آپ اس بحث کو کہاں لے جارہے ہیں۔آپ خود مسلمانوں کے ہی درمیان رواداری کے دشمن ہیں تو پھر داعش کی دہشت گردی اور آپ کے نظریات میں کیا فرق رہ جائے گا؟داعش بھی تو یہی کر رہی ہے۔وہ اپنے سوا سب کو کافرومشرک اور واجب القتل سمجھ رہے ہیں۔انہوں نے ہاتھ آنے پرکسی بھی مسلک کے لوگوں کو بخشا نہیں ہے۔تو پھر آپ کے اور داعش کے نظریات میں فرق کیا ہے؟
آل انڈیا تنظیم علماء اسلام نے حکومت سے ایک مطالبہ اورکیا کہ:یہ پتہ لگایا جائے کہ مصر‘چیچنیا اور روس نے مسجدوں کے’’بہتراستعمال‘‘کے لئے کون سا فارمولہ اختیار کیا؟تو آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ان تین ملکوں میں کون سا فارمولہ اختیار کیا گیا۔حقوق انسانی کے بین الاقوامی ادارہ نے اپنی 2015کی ایک رپورٹ میں روس کوحقوق انسانی کو کچلنے والا قرار دیتے ہوئے بتایاہے کہ :’’ ایجنسیوں نے داغستان میں سلفیوں کی مسجدوں پر خاص نگاہ رکھی اور بہت سے معاملات میں فرضی الزمات عاید کرکے لوگوں کوجیلوں میں ڈال دیا۔یہی نہیں بلکہ بہت سے نمازیوں پر جرائم کے فرضی اور جھوٹے مقدمات قائم کردئے۔بہت سے لوگوں پر بڑا ظلم روا رکھا گیا اور ان کے حقوق انسانی کو بے دردی کے ساتھ کچلا گیا‘یہاں تک کہ حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والے اہل کاروں کو بھی زدوکوب کیا گیا۔‘‘چیچنیاکا حال کون نہیں جانتا۔وہاں ایک عرصہ تک مسلمانوں کو مارا کاٹا گیا۔اور اب جبکہ وہاں کا صدر ایک مسلمان قادروف ہے وہ بھی‘روسیوں کی آنکھوں کا تارہ بننے کیلئے باعمل مسلمانوں کے راستے تنگ کر رہا ہے۔اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ روس کا تانا شاہ صدر پتن‘شام کے قاتل بشارالاسد کے ساتھ مل کر بے گناہ شہریوں‘نہتے بوڑھے ‘جوانوں اورمعصوم بچوں تک پر بمباری کر رہا ہے۔مصر میں بھی وہاں کا فوجی صدر مسجدوں پر قدغن لگا رہا ہے اور اخوان کو چن چن کر قتل کر رہا ہے۔تو کیا ہندوستان کے نام نہاد صوفیوں کی یہ تنظیم بھی ہندوستان کے مسلمانوں کا یہی حال کرانا چاہتی ہے؟
اس پروگرام میں دوسرے کئی مقررین نے شام‘ایران اور قزاخستان کا بھی ذکر کیا کہ وہاں کس طرح’وہابی فکر‘کے مسلمانوں کوکچل دیا گیا۔ملک شام کا ذکر آیا ہے تو دیکھئے کہ وہاں کن طبقات پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں؟74فیصدسنی مسلمانوں پر12فیصد خوارج حکومت کر رہے ہیں۔اب تک ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد لوگ بے سروسامان ہوگئے ہیں اور تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ایران اپنے مسلکی نظریاتی اختلافات کے باوجودقاتل بشارالاسدکا ساتھ دے رہا ہے۔خود ایران پر بھی الزامات عاید ہوتے رہے ہیں کہ وہ اپنے سنی شہریوں کو مساجد بنانے اور پہلے سے قائم مساجد میں عبادت کرنے سے روکتا ہے۔بعض مساجد کی شہادت کی بھی خبریں آئی ہیں۔قزاخستان اور داغستان نے بھی ڈھائی سو سے زیادہ مسجدوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔لیکن ہمارے ہندوستانی ’’خانقاہی علماء‘‘کو یہی لامذہب اور جارح وقاتل پسند آرہے ہیں۔کیا دہشت گردی سے لڑنے کے یہی طریقے ہوتے ہیں؟ ۔

SHARE