خالد سیف اللہ اثری
رمضان المبارک کے مہینے میں قطر کا بری، بحری اور فضائی حدود کا مقاطعہ اپنے آپ میں ایک غیر اخلاقی و غیر انسانی رویہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس مسئلے کو بھی مسلکی رنگ میں رنگے کی کوشش کی جارہی ہے، اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اپنے مسلک کی برتری ثابت کرنے کے لیے بے بنیاد الزامات تراشے جارہے ہیں جب کہ حقائق سے ان کا دور تک بھی علاقہ نہیں۔
اس مقاطعہ کی ایک خاص مکتب فکر کی جانب سے جو سب سے بڑی وجہ اردو طبقے کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ کہ قطر کے ایران سے گہرے تعلقات ہیں اور ایران ایک شیعہ ملک ہے اور ایران سنیوں کے لیے امریکہ سے زیادہ خطرناک ہے، کیا سنی ممالک میں صرف قطر کے ہی ایران سے تعلقات ہیں؟ امارات اور سعودی عرب کے ساتھ ایران کے تعلقات نہیں ہیں؟ امارات کے اندر ایران کی ہزاروں کمپنیاں چل رہی ہیں، سفارتی تعلقات بھی بحال ہیں۔ سعودی عرب کے اندر خود ایرانی سفارت خانہ ہے اور ایران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ ہے، ان ممالک کے طیارے بھی ایک دوسرے کے ملک میں بلا روک ٹوک کے اڑانیں بھر رہے ہیں. کیا یہ منطقی بات لگتی ہے کہ ایرانی تعلق کی وجہ سے قطر کا مقاطعہ کیا گیا ہے؟ اگر واقعی ایران سے اتنا ہی خطرہ ہے تو پہلے ایران کا مقاطعہ ہونا چاہیے اور ان سارے مسلم ممالک کا بھی جن سے ایران کے تعلقات گہرے ہیں۔ دسمبر 2015 میں تو سعودی وزیر خارجہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں ایران کو اسلامی ملک کا درجہ دے دیا جو شاید سعودی ہم نواؤں کو بمشکل ہی ہضم ہو، یہی نہیں ایران سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا. تو کیا یہ مان لیا جائے کہ شیعہ سنی جیسی اصطلاحات سیاسی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت ضرورت کے لیے استعمال کی جاتی ہیں؟
دوسرا قطر پر بڑا الزام یہ ہے کہ یمن کے حوثیوں اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کو قطر مالی امداد فراہم کرتا ہے. یمن میں فوجی کارروائی کے مختلف فیہ ہونے سے قطع نظر یمن میں قطر کی فوج حوثیوں کے خلاف جنگ میں تحالف عربی کا حصہ رہی ہے، ان کے متعدد فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں، یہاں پر یہ بتا کر قطر کی بڑائی نہیں بیان کی جارہی ہے بلکہ حقائق سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اب رہی دوسری دہشت گرد تنظیموں کی امداد کی بات تو یہ بھی بالکل بے سر پیر کی بات ہے، طلب کرنے پر بھی اس کی کوئی دلیل نہیں پیش کی جا سکی ہے. ہاں قطر اخوان اور حماس کا پرزور حامی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اخوان المسلمین دہشت گرد تنظیم ہے؟ اگر دہشت گرد تنظیم ہے تو اس کی دہشت گردی کیا ہے؟ کیا کبھی اس نے کسی کا ناحق خون بہایا ہے؟ اس کے مقابلے میں سیسی کی کارستانیاں پر امن ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ایک با ضمیر شخص کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے، اخوان المسلمین کے بارے میں الزام یی ہے کہ وہ ایران سے تعلقات استوار کرنے میں لگ گئے. اگر یہی تعلقات سعودی عرب استوار کریں اور ایران کو اسلامی ملک کا درجہ دیں تو مسلکی منافرت پھیلانے والے علماء کے منھ پر تالے لگ جائیں، حق کی حمایت میں بولنے والوں کو تحریکیت کا طعنہ دیا جا رہا ہے، خواہ وہ تحریک کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، ان کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے گویا یہ مسلکی جنگ ہو، ان مسائل کو مسلکی لبادہ اڑاھا کر حقائق کی پردہ پوشی نہ کی جائے۔
حماس کے بارے میں کس کو نہیں معلوم کہ یہ خالص اسلامی اور فلسطین کی نمائندہ جماعت ہے، قبلہ اول کی بازیابی کے لیے ہر طریقے سے کوشاں ہے، اب یہ بھی دہشت گرد تنظیم قرار پا گئی. کیا ان علماء کے خون اتنے سفید ہو گئے جو اسرائیل کے مقابلے میں اسے بھی مورد الزام ٹھہرانے پر تل گئے ہیں؟ کیا اب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قبلہ اول کی بازیافت کے لیے اسرائیل سے مزاحمت دہشت گردی ہے؟ اسرائیل پر امن ہیں؟ اسی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ نے سعودی موقف کی تائید کی ہے. کیا ہم اب اسرائیل کی صف میں کھڑے ہونے جارہے ہیں؟
سعودی حکومت نے دہشت گردوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جن کا قطر تعاون کرتا ہے. مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بڑے ہی الل ٹپ انداز میں فہرست مرتب کی گئی ہے. اس میں سے کچھ نام ایسے ہیں جو قطر میں ہیں ہی نہیں اور جن کا قطر سے کوئی تعلق بھی نہیں. ایک نام ایسا بھی ہے جو فی الوقت ریاض میں ہی ہے. ایک نمایاں نام علامہ یوسف القرضاوی کا ہے۔ یہ بھی مارچ میں سعودی حکومت کے معزز مہمان تھے اور ملک سلمان نے انھیں بوسہ دے کر اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا، شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ ہیں، اماراتی حکومت نے بھی انھیں ایوارڈ سے نوازا ہے، فہرست جاری ہونے تک یہ رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی تھے، ایسی باوقار شخصیت بھی مطعون ٹھہری، تو کیا یہ مان لیا جائے کہ یہ بھی دہشت گرد ہیں؟ کیا ہم مسلکی عصبیت کی عینک اتار کر خالص اسلامی اور انسانی نقطہ نظر سے موجودہ حالات کا تجزیہ نہیں کر سکتے کہ ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر کس کو فائدہ پہونچا رہے ہیں؟