میم ضاد فضلی
پیر کے روز حکومت سعودی عرب نے اپنے 6 حواریوں کے ساتھ مل کر قطر سے سفارتی ،تجارتی ،دفاعی خلائی حتیٰ کہ نقل و حمل جیسے تمام تعلقات منقطع کردیے ہیں۔سعودی عرب سمیت 7 مسلم ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کااعلان کیا ہے ۔ خیال رہے کہ اس موقع پرسعودی عرب نے حکومت قطر پر جو الزامات عائد کئے ہیں ،ان کی سچائی کی نہ تو کوئی مثبت دلیل سعودی عرب نے پیش کی ہے اور نہ اس کے حواریوں نے اپنی اخلاقی وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت دیا ہے۔یہیں سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ خود کوعالم اسلام کا نقیب باور کرانے والا حجاز کا ظل الہی کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہے۔مجھے تو یہ یقین اسی دن ہوگیا تھاجب گزشتہ 20مئی2017کو امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 6:50 پر ریاض طیران گاہ پر اترے تھے اور سعودی عرب کے ولی عہد اپنی آ نکھیں گرد راہ کئے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے قدموں میں سجدہ ریز ہونے کو بیتاب تھے۔ریاض میں ٹرمپ کی آمد کی دوسری صبح یعنی21مئی سے تقریبا50اسلامی ممالک سمیت عرب اتحادی ممالک کے سربراہان کا دہشت گردی کیخلاف ایک عظیم الشان کانفرنس ہونے والی تھی اوراس کا افتتاح امریکہ کے قطب وقت ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی کرنا تھا۔ان دنوں ٹرمپ نے بطور امریکی صدر9روزہ بیرونی ممالک کے سفر کا آغاز کیا تھا۔اسی موقع پرقطر نے کانفرنس پر اپنی رائے رکھتے ہوئے شیخ تمیم نے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی ظلم وبربریت کے شکار فلسطینیوں کے حقوق کیلئے جد وجہدکرنے والی اسلام پسند تنظیم حماس اور عالم عرب میں عوام کے درمیان مقبول ’’الاخوان‘‘اورایران کو بھی اس پلیٹ فارم پر شریک کرلیاجاتاتو اس سے دہشت گردوں کے حوصلے پست کرنے میں عرب اتحاد کو مزید طاقت مل سکتی تھی۔اسرائیل مظالم کا ذکر ہی ایسا زہر ہے جسے شاہ سعود کا خاندان کبھی بھی برداشت نہیں کرسکا۔اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ اس کانفرنس میںیہودیہ عورت کی گود کاپلاہوا عبد الفتح السیسی یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی موجوگی میں کوئی اسرائیل کیخلاف انگشت نمائی کی جرأت کرے۔در اصل ریاض میں عالم اسلام کو امن و سکون بخشنے کے نیک مقصد سے یہ اجلاس ہوہی نہیں رہا تھا ۔اس لئے کہ ریاض کے عالمی اتحاد کے اجلاس میں ایران کے خلاف اتحاد اور شو آف پاور کا مظاہرہ ہو رہا تھا ،ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کے کوئی بھی اجتماع کوامن عامہ کامنصوبہ نہیں کہا جاسکتا۔اگر کانفرنس کا مقصد عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کاازالہ کرنا ہوتا اور سعودی عرب کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا تو اسے حماس اورالاخوان جیسے عوامی نمائندہ تنظیموں اور ایران کو ایک پلیٹ فارم پرلانے کوئی حرج نہیں ہونا ہونا چاہئے تھا۔مگر چونکہ سعودی فرمانرواؤں کی نیت درست نہیں تھی، بلکہ یہ سارا کھیلعالم اسلام کی آ نکھوں میں دھول جھونکنے کی سازش کا ایک حصہ تھا جس کے تانے بانے ٹرمپ نے تیار کرکے پوری گائڈ لائن کے ساتھ شاہ سلمان کے سپرد کردیا تھا،سعود خاندان کا کام محض اتنا تھا کہ اس کے آقاامریکہ نے جو ایجنڈہ اس کے حوالے کیا سعودی عرب اور اس کے حواری ممالک آنکھ موند کر اس پر عمل کریں۔اسی دوران قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی’’قنا‘‘کی جانب سے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد خلیفہ آل ثانی سے منسوب ایک ایسا بیان سامنے آیا جس سے خلیجی ممالک کے سیاسی منظر نامے پر بھونچال آگیا۔بیان میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ ایران بھی خطے کی ایک قابل ذکر اسلامی طاقت ہے اور اسے نظر انداز کر کے علاقائی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے، ایران کے خلاف کشیدگی بڑھانا دانش مندی نہیں ہے۔ امیر قطر نے امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے موقع پر کی گئی اپنی گفتگو میں قطرکے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قطر کو دہشت گردی سے جوڑا جانا غلط ہے اور یہ سب امریکہ کے حکم کی تعمیل میں سعودی حکومت کے زیر قیادت کیا جارہا ہے۔ امیر قطر کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ نہ جوڑا جائے بلکہ فلسطینیوں کو ان کے منصفانہ حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کا حق دیا جائے۔ قطر، فلسطینی قوم کی حقیقی اور آئینی نمائندہ جماعت حماس اور اسرائیل کے درمیان منصفانہ امن پر اتفاق کیلئے تیار ہے۔ قطر دونوں فریقوں حماس اور اسرائیل کے ساتھ متوازن اور اچھے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔ قطر کی لچک دار پالیسی میں کسی کے ساتھ دشمنی روا نہیں رکھی جاسکتی۔
امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شمولیت اور برادر عرب ممالک کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں شرکت کے باوجود ہم پر دہشت گردی کی سرپرستی کا بے بنیاد اور امریکہ کے ذریعہ مرتب کردہ سازش سے متاثرالزام لگایا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا باعث بننے والے بعض حکومتوں کے تصرفات ہی حقیقی خطرہ ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، یمن، لیبیا اور مالدیپ نے قطر کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات منقطع کرتے ہوئے اسے عرب فوجی اتحاد سے بھی خارج کردیا، جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے۔عرب ممالک نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے زمینی، آبی اور ہوائی راستے بھی بند کردیے ہیں ۔ سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے نے بتایا کہ ریاض حکومت نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں جب کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر قطر کے ساتھ سرحدیں بھی بند کی جارہی ہیں۔حالاں کہ امیرقطر کی جانب سے سعودی عرب سمیت 5 عرب ممالک کے ذریعہ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کو بلاجواز اور غیر منصفانہ قرار دیاگیا ہے۔قطر کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب، مصر، یمن، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بے بنیاد الزامات لگا کر تعلقات ختم کیے ہیں اور اس اقدام کا کوئی قانونی اور مدلل جوازبھی نہیں ہے۔ قطر نے کہا کہ تعلقات ختم کرنے کا یہ فیصلہ اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔قطری وزارت خارجہ نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد ہم پر اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنا ہے، جو بطور ریاست قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔دراصل سعودی عرب کو امیر قطر کا یہ اعتراض اس لئے برداشت نہیں ہورہا ہے کہ شاہ سعود کے خاندان کو حجاز مقدس میں الاخوان کو ملنے والی عوامی مقبولیت گھن کی طرح کھائے جارہی ہے۔ اگر اسی طرح اخوان کو قطر جیسے دوچار امن پسند ممالک کی جانب سے تائید حاصل ہوتی رہی تو اسی دن سے شاہ سعود خاندان کی شکل میں حرم مقدس پر مسلط اسرائیلی کے زوال کے ایام شروع ہوجا ئیں گے۔السیسی کو بھی یہی خوف لاحق ہے کہ اگر اخوان کے حوصلے پست کرنے میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو مصر کا کوئی قید خانہ یا عجائب گھراس کی ممی بنانے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگائے گا۔حالات کچھ ایسے ہی ہیں کہ السیسی کو اسرائیل کی ناجائز اولاد باور کیا جاتا ہے اور سعودی عرب کو اسرائیل کا سب سے بڑاحامی ۔اگرکسی کو ثبوت چاہئے تو اس کی ہزاروں مثالیں لاکھوں کی تعداد میں شہید کئے جاچکے فلسطینی مظلوموں کی لاشوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
09911587378