چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

(علماء و مشائخ صوفیاء سے چند باتیں )
ثناء اللہ صادق تیمی
مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ فقہی امور میں اختلافات یا ایک ہی مسئلے میں مختلف آراء کا پایا جانا خاصہ پرانا معاملہ ہے ۔ متقدمین کے یہاں یہ اختلاف علم و آگہی اور شعور ونظر کی گہرائی اوروسعت کا ذریعہ بھی ہوتا تھا اور اشاریہ بھی لیکن بعد کے ادوار میں رفتہ رفتہ وسعت و شعور کی جگہ تنگ نظری اور تقلیدی روش نے لے لی اور اختلاف رائے کو مخالفت یا لازمی طور پر عداوت کا شاخسانہ سمجھ لیا گیا جس کے پاداش میں مختلف قسم کی خرابیاں مسلمانوں کے پڑھے لکھے دینی طبقے میں در آئیں ۔ ان خرابیوں میں مسلکی چپقلش میں اخلاقی اور عام انسانی رویے کا بھی تج دینا سب سے سنگین معاملہ تھا ۔
بر صغیر ہندوپاک کی سطح پر دیکھیں تو مسلمان دینی سطح پر سب سے پہلے دو خانوں میں منقسم ہوتے ہیں ، شیعہ اور سنی اور پھر یہ سنی مسلمان کئی خانوں میں بنٹتے ہیں ۔ جنوب ہند کے بعض علاقوں میں بعض شوافع پائے جاتے ہیں ورنہ بالعموم یہاں احناف کا غلبہ ہے ۔ پھر یہ کئی خانوں میں بنٹتے ہیں ، دیوبندی ، بریلوی ، جماعت اسلامی اور احناف سے الگ ایک طبقہ وہ ہے جو اہل حدیث کہلاتا ہے ۔ مشترکہ طور پر یہ سب کے سب اپنے آپ کو اہل سنت و الجماعت سمجھتے ہیں ۔ اہل حدیث شخصی تقلید کے قائل نہیں ہیں ، اس لیے بہت سے مسائل میں ان کا اور بقیہ تمام گروپوں کا اختلاف پایا جاتا ہے ، ساتھ ہی عقائد اور افکار کی بعض سمتیں مختلف نظر آتی ہیں ۔ دیوبندی اور بریلوی اصلا مسلکا حنفی ہیں ، اس لیے مسائل میں تو لگ بھگ ایک ہی ہیں لیکن بعض عقائد اور بعض گنے چنے احکام میں ایک دوسرے سے اختلاف بھی رکھتے ہیں ، جماعت اسلام والے بھی اصلا حنفی ہی ہیں لیکن ان کے یہاں فکری سطح پر خاص طور سے حکومت اسلامیہ کے قیام اور فقہی معاملے میں آزادانہ روش کی وجہ سے تھوڑی وسعت آجاتی ہے اور یوں وہ بعض معاملوں میں سب سے الگ بھی ہوتے ہیں ۔ دیوبندی طبقے میں تبلیغی ، خانقاہی اور معتبر علماء کے بیچ بعض چھوٹے موٹے اختلافات در تو آتے ہیں لیکن عام طور سے وہ حنفی مسلک کے سایے تلے جمع ہو جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ کچھ لبرل مسلمان پائے جاتے ہیں جو باضابطہ کسی گروپ سے منسلک نہیں ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں آزادانہ طور پر سوچتے اور اپنا عندیہ دیتے نظر آتے ہیں ۔ ان تمام گروپوں میں ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ وہ بعض معاملات میں شدید اختلافات کے باوجود کوئی کسی کو کافر نہیں کہتا سوائے بریلوی حضرات کے جو اپنے علاوہ بقیہ لوگوں کو نظریاتی طور پر اور فتوی کی زبان میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ یہ الگ بات ہے کہ سماجی سطح پر مجبورا ہی سہی انہیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اس خاص اعتبار سے دیکھیے تو یہ چیز بڑی اچھی بھی ہے کہ بالمعوم یہاں شادی مسلک کی بنیاد پر نہیں ہوتی ، یہ الگ بات ہے کہ شادی کی جو دوسری بنیاد ذات پات ہے ، وہ بھی اپنے آپ میں حد درجہ افسوسناک ہی ہے ۔ لیکن اس کا اتنا فائدہ ضرور ہے کہ ہر مسلک کے لوگ مسلکی اختلاف کے باوجود رشتے ناتے کی نزدیکی رکھتے ہیں اور یہ چیز بالعموم مسلکی اختلاف کو بڑا سماجی ناسور نہیں بننے دیتی ۔
لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی ایسے ایسے حادثے رونما ہوتے ہیں ، ایسی نادانیاں سرزد ہوتی ہیں جن پر ماتم کرنے کو طبیعت چاہتی ہے ۔ اب اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھیے اور پھر علماء مشائخ کا نفرنس اور اس میں پاس کی گئی قراردادوں کو دیکھیے ۔ صوفی حضرات ( ہمارے بریلوی بھائی ) آرایس ایس اور بقیہ اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنی کانفرنسوں سے اعلان کررہے ہیں کہ دہشت گردی وہابی لوگ پھیلا رہے ہیں ، پیٹروڈالر کا کمال ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے سب کچھ چھین کر اوقاف اوربقیہ سارے عہدے مناصب انہیں دیں ، جو تصوف کو مانتے ہیں اور پکے دیش بھکت ہیں ۔ واضح رہے کہ ان کی مراد وہابی سے صرف اہل حدیث نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بقیہ تمام سنی مسلمان ہیں ۔ مسلمان دشمن طاقتیں زمانہ سے جس فراق میں لگی ہوئی تھیں بظاہر اب انہیں کامیابی ملتی نظر آرہی ہے ۔ بڑے بڑے ملکی مسائل پر چپی سادھنے والے ہمارے وزیر اعظم بھی ان کو خوب ہوا دے رہے ہیں اور آرایس ایس ذہنیت کے لوگوں کو تو جیسے مزہ ہی آگیا ہے ۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اب مسلمانوں کے تیر خود مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں ۔
لیکن بڑی محبت اور سنجیدگی سے میں اپنے ان بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ بقیہ مسلمانوں کی برائی ضرور سوچیے کوئی بات نہیں لیکن کم ازکم یہ تو ضرور دیکھیے کہ اس برائی کے آپ خود شکار تو نہیں ہوجائیں گے ۔ اللہ کے واسطے ذرا ان نکات پر غور ضرور کیجیے ۔
1 ۔ مان لیجیے کہ آپ کا اپنا بھائی وہابی ہو ( اور ایسا عین ممکن ہے ) اور اسے آپ کے کہنے کے مطابق دہشت گرد مان کر حکومت ٹارچر کرنا شروع کردے تو آپ پر کیابیتے گی ۔
2 ۔ سنگھی لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے رہے ہوں ( اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ گالی دیتے ہیں ) تو کیا وہ وہابیوں کے نبی کو گالی دے رہے ہونگے یا وہ جنہیں گالی دے رہے ہونگے وہ آپ کے بھی نبی ہونگے ، اور وہ اگر آپ کے بھی نبی ہوں تو آپ کیا کرینگے ؟
3 ۔ فسادات ہونگے اور فسطائی ہندو طاقتیں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر ماررہی ہونگیں تو وہ آپ سے پہلے پوچھے گی کہ آپ صوفی مسلمان ہیں کہ وہابی مسلمان ؟
4 ۔ جن کو مسلمانوں کی اذان سے مسئلہ ہے ، نماز سے مسئلہ ہے ، داڑھی سے مسئلہ ہے ، حجاب سیمسئلہ ہے انہیں آپ کے انہیں سارے کاموں سے مسئلہ نہیں ہوگا ؟
5 ۔ ماضی میں جیسے دہشت گردی کے نام پر ” وہابیوں ” کو ہی ٹارگیٹ کیا گیا ہے ، آپ نشانہ بنے ہی نہیں ہیں ؟
میرے بھائیو!یہ سنگھ کی سازش ہے ،اپنی آنکھیں کھولیے ، آپ کی نادانی کی وجہ سے بقیہ مسلمانوں کا تو خسارہ ہوگا ہی آپ بھی بچینگے نہیں ۔ مسلکی اختلاف ہے اور رہے گا لیکن اسے وہیں رکھیے جہاں کا وہ ہے اسے اللہ کے واسطے وہاں مت لے جائیے جہاں کا وہ نہیں ہے ۔ یاد رکھیے کہ آپ کا عمل اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے والا عمل ہے ۔ آنے والی نسلیں اور تاریخ آپ کو فراموش نہیں کرے گی ، جو لوگ خود اپنے دین کے ماننے والے لوگوں کے بعض اختلافات کو گوارہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ہنسا پر اتر آرہے ہیں وہ کل آپ کو بھی برداشت نہیں کرینگے ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !!!

SHARE