ملت ٹائمز کی خاص پیش کش
نبی کریم دہلی کا ایک مشہور علاقہ ہے ، بیگ کارخانوں کے حوالے سے یہ عالمی سطح پر جانا جاتا ہے، شہری سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہے، لیکن اس کے باوجود یومیہ یہاں کڑورں روپے کی تجارت ہوتی ہے اور ملک کی جی ڈی پی کو فروغ ملتا ہے، دینی مدارس و مکاتب کا چندہ بھی لاکھوں اور کڑورں میں یہاں ہوتا ہے ، پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ چند ہ کیلئے مدارس کے سفراء اور اساتذہ یہاں کا رخ کرتے ہیں، تقریباً ہر تیس سیکنڈ پر یہاں کی گلیوں میں رمضان کے مہینے میں ایک سفیر کا گزر ہوتا ہے ۔
نبی کریم اور اس کی نمایاں خصوصیات پر پیش ہے ملت ٹائمز کی خصوصی رپوٹ
نبی کریم دہلی کا ایک مشہور ترین علاقہ ہے ،نئی دہلی اور پرانی دہلی کے درمیان واقع ہے ، ایک جانب نئی دہلی ریلوے اسٹیشن اور کناٹ پلس جیسی مارکیٹ ہے تو دوسری جانب صدر بازار ، بلی ماران اور چاندنی چوک جیسی عالمی مارکیٹ سے گھرا ہوا ہے ، ایک جانب قصاب پورہ میں واقع شاہی عید گاہ ہے تو دوسری جانب یہاں سے جامع مسجد کے مینار اور لال قلعہ کی فصیلوں سے نظریں ٹکراتی ہیں، نبی کریم پہاڑ گنج میں واقع ہے جہاں سب سے زیادہ ہوٹلس پائے جاتے ہیں ، بلی ماران اسمبلی حلقہ کا حصہ ہے، نبی کریم کی تاریخ اور اس کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے کوئی معتبر اور مستند قول نہیں ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ مغلیہ دورِ حکومت میں یہ پورا علاقہ قبرستان تھا ، بعد میں اسی پر لوگوں نے گھر بناکر رہنا شروع کردیا اس کے مستند ہونے کے کچھ آثار بھی ملتے ہیں، اسی نبی کریم میں مشہور شاعر ذوق دہلوی کا مزار بھی ہے جس کی دریافت گزشتہ پندرہ سالوں قبل ہوئی ہے ، نبی کریم میں ہی مشہور برزگ خواجہ باقی باللہ کا بھی مزار ہے اور اسی میں درس نظامی کی مقبول کتاب نوارالانوار کے مصنف ملا جیون بھی سپردِ خاک ہیں ۔
بنیادی طور پر نبی کریم کا شمار ایک پسماندہ محلہ میں ہوتا ہے ، یہ کاروباری کے ساتھ رہائشی علاقہ بھی کہلاتا ہے ،گندگی کے حوالے سے بھی یہ بہت مشہور ہے، شہری سہولیات کا یہاں تقریباً فقدان ہے ، گلیاں انتہائی تنگ ہیں ، اندرون محلہ فور ویلر گاڑی لانے کا راستہ نہیں ہے ، سیور لائن اور پانی کا نظام ناقابل بیان ہے ،یہاں قدم رکھتے ہی تعفن کا احساس ہونے لگتا ہے، جگہ جگہ کوڑے رکھے ہوئے ملتے ہیں، کبھی کبھی ہفتوں تک یہاں پانی نہیں آتا ہے ،کم و بیش روزانہ ایک گھنٹہ بجلی غائب رہتی ہے ، کجریوال سرکار آنے کے بعد یہاں کی صورت حال اور خراب ہوگئی ہے، سیاسی رہنماؤں اور نیتاؤں کی بھی اس محلہ پر صرف الیکشن کے موقع پر توجہ رہتی ہے اور بس ۔21 سالوں تک یہاں کے ایم ایل اے رہے سینئر کانگریسی لیڈر ہارون یوسف نے بھی یہاں کی تعمیر و ترقی اور صفائی ستھرا ئی کے نظام پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ موجودہ ایم ایل اے عمران حسین کو یہاں کے امور سے کوئی دلچسپی ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت میں وزیر خوراک و رسد اور بلی ماران کے ایم ایل اے عمران حسین نے اپنی تجارتی زندگی کا آغاز اسی نبی کریم سے کیا تھا ، یہاں بیگ کا کارخانہ وہ چلاتے تھے۔
یہاں آباد اکثریت لوگوں کا تعلق بہار سے ہے جو سبھی متھلانچل یعنی دربھنگہ ،مظفر پور، مدھوبنی، سمستی پور، سیتامڑھی ، چمپارن شیوہر وغیرہ جیسے اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، 90 کی دہائی میں بہت بڑی تعداد میں بہار کے مسلمانوں نے یہاں کا رخ کیا اور بیگ کے کارخانے کو اپنا ذریعہ روزگار بنایا، چناں چہ یہاں بیگ کا کا رخانہ بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے، مختلف انداز کے بیگ بنائے جاتے ہیں ، اسکول بیگ ،لیڈیز پرس، وائلیٹ زیادہ بنتے ہیں، یہی بہار کے ان مسلمانوں کا ذریعہ روزگار ہے ، ان سب کی سپلائی ہندوستان کے دیگر شہروں کے ساتھ بیرون ملک ہوتی ہے ، یہ کارخانے کوئی بہت بڑے نہیں ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے کمروں میں بیگ کے یہ کارخانے چلتے ہیں، ایک کارخانہ کے مجموعی عملہ کی تعداد چار سے پانچ ہوتی ہوتے، دو سے تین مشینیں ہوتی ہیں، ایک عمارت میں کئی سارے کارخانے ہوتے ہیں، تاہم بیگ سازی کے حوالے سے نبی کریم کو عالمی شہرت حاصل ہے۔
نبی کریم انتہائی انتہائی چھوٹا سا محلہ ہے لیکن اس کی آباد ی کم و بیش چارلاکھ افراد پر مشتمل ہے ، دینی بیداری بھی خوب پائی جاتی ہے ، یہاں مقیم مسلمان عمومی طور پر دین سے قریب اور شریعت کے پاسدار ہیں، نبی کریم میں تقریباً آٹھ سے زائد مسجدیں ہیں اس کے علاوہ مختلف مکانات میں نمازوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، سولہ سے زائد مدارس و مکاتب ہیں ان تمام کے علاوہ ہندوستان بھر کے مدارس کی نبی کریم کے مسلمان مالی تعاون کرتے ہیں، بالخصوص متھلانچل کے سبھی مدرسوں میں نبی کریم کا مالی تعاون سرفہرست ہوتا ہے ۔
نبی کریم میں ہر سال رمضان کے مہنے میں تقریباً پانچ ہزار سے زائد علماء کرام ، مدارس کے سفراء اور اساتذہ آتے ہیں اور چندہ کی بڑی رقم یہاں سے پاتے ہیں، بہار کے علاوہ یوپی ،بنگال ، آندھر اپردیش اور گجرات سمیت ہندوستان کے اکثر صوبوں کے مدارس کے سفراء اور اساتذہ یہاں تشریف لاتے ہیں اور یہاں کے کاروباری حضرات دل کھول کر اہل مدارس کا تعاون کرتے ہیں، یوں کہہ لیں کہ یہ محلہ چھوٹا سا ہے، کاروبار زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن دل بڑا ہے، یہاں کے لوگوں میں دینے کا جذبہ ہے ، مدارس اور دینی تحریکات کیلئے جان نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ معمولی آمدنی کے باوجود یہ دل کھول کر مدارس کی امداد کرتے ہیں، سفراء اور اساتذہ کا مکمل اعزاز و احترام کرتے ہیں، کارخانہ میں مالک کے ساتھ کاریگر بھی چندہ میں شریک ہوتے ہیں حالاں کہ ان کی تنخواہ پانچ سے دس ہزار کے اندر ہوتی ہے، یہ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور دل کھول کر دیتے ہیں، اکثر کارخانہ دار حضرات زکوۃ کی رقم سے بہت زیادہ دیتے ہیں، بہار کے کئی مدرسوں کا بجٹ یہاں کے چندہ سے پورا ہوتا ہے، اشرف العلوم کنہواں، سیتامڑھی جیسے تاریخی اور مرکزی ادارے کا سارا نظام نبی کریم اور ہندوستان کے دیگر شہروں کے تعاون سے ہی چلتا ہے، غیر ملکی فنڈ اور چندے کا ان اداروں میں نام و نشان نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ کہ نبی کریم ایک چھوٹا سا محلہ ہے ، سیاسی عصبیت کا شکار ہے ، شہری سہولیات سے محروم ہے ، اس کے باوجود یہاں کے لوگوں کی زندگی کبھی رکتی نہیں ہے ، رفتار کبھی تھمتی نہیں ہے ، کوئی بھی رکاوٹ ان کے راہوں میں حائل نہیں ہوپاتی ہے، کاروبار کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اپنا کام کرتے رہتے ہیں ، دین کی سربلندی کیلئے ہمیشہ آگے آگے نظر آتے ہیں، عزت و احترام کے ساتھ مدارس کا تعاون کرتے ہیں اور مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں ۔
dailymillattimes@gmail.com