نزہت جہاں
ملت ٹائمز
آزاد ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی دن بہ دن مشکل ہوتی نظر آرہی ہے ،ضمیر کی آزادی ،قلم کی آزادی ،بولنے کی آزادی اور لکھنے کی آزادی پر پابندی عائد کی جارہی ہے ،کسی کو حق بولنے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں میں ڈالا جارہاہے ،کسی کو حقیقت کا نکشاف کرنے پر دہشت گرد قراردیکر جیل میں بند کیا جارہاہے ،کسی کو حکومت کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کیلئے غدار وطن قراردیکر ملک دشمن کہاجارہاہے ۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت کا رویہ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک ہے ۔جب سے ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت ہے آئی ہے اظہار رائے کی آزادی کا مسئلہ مسلسل سرخیوں میں ہے ،کلبرگی اور دیگر کئی ادیب کو قتل کردیا گیا محض اس لئے کہ وہ سچ لکھتے تھے ،ادیبوں اور صحافیوں نے اپنا ایوارڈ لوٹاکر یہ احتجاج درج کرایاکہ ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی سلب کی جارہی ہے ،سچ بولنے والوں کو قتل کیا جارہا ہے لیکن حکومت نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ،ایوارڈ واپسی تحریک سے کوئی سبق نہیں لیااور حق بولنے والوں کی آواز دبانے کا سلسلہ جاری رکھا ،جس نے بھی حکومت کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھایا حکومت نے اس کو خاموش کرنے کی تدبیریں اپنائی ۔
ملک کی مرکزی یونیورسیٹی جواہر لال نہروکی اسٹوڈینٹس یونین کا صدر کنہیا کمار بھی ان دنوں اپنی اسی حق گوئی اور بی جے پی مخالف نظریہ رکھنے کی بنیاد پر غدار ی وطن کا ملزم بناہوا ہے اور جیل کی سلاخوں میں بند ہے ،کنیہا کمار پر یہ الزام لگاگیا ،ملک کے کئی ٹی وی چینلوں نے ایک ویڈیو دکھائی کہ کنہیا ملک مخالف نعرے لگارہا ہے ،پاکستان کی حمایت کررہاہے ،کشمیر کی آزاد ی کا مطالبہ کررہاہے ،افضل گروکی پھانسی کو غلط ٹھہرارہاہے ،ٹی وی چینل کی اس رپوٹ کو حقیقت مانتے ہوئی دہلی پولس نے اسے گرفتارکرکے دیش دروہی کا ملزم بنادیا ،وزیر اداخلہ اور مرکز میں بر سراقتدار جماعت کے رہنماؤں نے پوری یونیورسیٹی کو داغدار اور غدار ٹھہرادیا لیکن جلدہی حقیقت بے نقاب ہوگئی ،تحقیق سامنے آئی کہ یہ ویڈیو فرضی ہے ،فوٹو شاپ کے ذریعے کسی اور کی آواز کو کنہیا کی تصویر کے ساتھ شامل کرکے ویڈیو بنائی گئی ہے ،ان تمام نعروں سے کنہیا کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
بات صرف کنہیا کی فرضی ویڈیو بنانے اور ایک طالب علم کو غدار قراردینے کی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ عدالت سے سے شروع ہوتاہے جہاں قانون کے رکھوالوں اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے والے وکیلوں نے خود ظلم وزیادتی اور غنڈہ گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ،کنہیا کے ساتھیوں اور صحافیوں پر حملہ کردیا ،دہلی پولس نے بھی وکیلوں کی اس انتہاء پسندی اور غنڈہ گردی پر کوئی نوٹس نہیں لی ،دوسرے دن عدالت کے احاطے میں ان وکیلوں نے پیشی کیلئے جاتے وقت راستے میں کنہیا کمار پر حملہ کردیا ،اور بے شرمی کا لبادہ اوڑھ کر یہ جملہ کہاکہ غداروں کے خلاف ہماری تحریک جاری رہے گی ،ہم ان پر حملہ کرتے رہیں گے ،ان انتہاء پسند وکلاء سے جب میڈیا والوں نے سوال کیا تو یہ دیکھ کر میں حیران ہوگئی کہ یہ وکلاء میڈیا پرسن سے بھی یہ کہ رہے تھے کہ پہلے تم اپنے دیش بھگت ہونے کا ثبوت پیش کرو ،وندے ماترم گاؤپھر ہم تمہارے کسی بھی سوال کا جوا ب دیں گے ۔
یہی وکلاء کل ہوکر جج بنیں گے ،مظلوموں ،بے کسوں اور بے سہاراؤں کو انصاف دینے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوگی ،قانون کا نفاذاور مجرموں کو کیفرکردار تک پہونچانااور انہیں مستحق سزا قراردینا ان کی ذمہ داری ہوگی لیکن آج یہ خود قانون کی دھجیاں اڑارہے ہیں ،عدالت میں قانون کی بیناد پر مقدمہ لڑتے ہیں ،قانون پر عمل پیرانے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خود یہ جو رویہ اپنارہے ہیں و ہ انتہائی افسوسناک اور ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے لئے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے ،جب یہ انتہاء پسند وکلاء کل ہوکر جج بنیں گے ،فیصلہ نافذ کرنے کا انہیں اختیا رملے گا تو پھر اس وقت کیسے اور کس طرح انصاف قائم کر پائیں گے ،کیا آئین اور قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرپائیں گے ، غنڈہ گردی ،انتہاء پسندی ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن قانون اور عدالت سے وابستہ شخصیات کی انتہاء پسند ی سب سے زیادہ باعث تشویش ہے اور باتیں دعوت غوروفکر دیتی ہیں۔
جے این یو تنازع معاملے میں پہلے کنہیا کمار کو غدار وطن قراردینے کی کوشش کی گئی ،لیکن جب اپوزیشن نے یکطرفہ گرفتاری کی مخالفت کی ،ویڈیو بھی فرضی ثابت ہوگئی تو اب یہ معاملہ ایک مسلم طالب علم کی طرف منتقل کردیا گیا ہے ،پی ایچ ڈی کے طالب علم عمر خالد کو ہنگامہ اور ملک مخالف سرگرمیوں کا ماسٹر مائند کہاجارہاہے ،حالاں کہ پروگرام انتظامیہ کی فہرست میں دس طلبہ کا نام ہے جن میں عمر خالد کا نام ساتویں نمبر پر ہے لیکن عمر خالد پولس ڈیمانڈپر ہے ،کچھ چینلوں نے پاکستان ،کشمیر اور بنگلہ دیش سے بھی اس کے تارجوڑدیئے ۔اچھا ہے کہ عمر خالد کا اب تک پاسپورٹ نہیں بناہواہے ورنہ اس پر اور سنگین الزاماعائد کردیئے جاتے ۔
کنہیا کمار کی یوٹیوب پر ہم نے کئی ساری تقریریں سنی ہیں جس میں اس نے آر ایس ایس اور بی جے پی کی مخالفت کی ہے ،سنگھ کے حقیقی چہرہ کو بے نقاب کیا ہے ،حکومت کی پالیسی پر تنقید کی ہے ،بابری مسجد اور رام مندر کی سیاست کرنے والوں کی مذمت کی ہے ،یونیورسیٹی کی آزادی سلب کرنے اور تعلیمی معاملے میں دخل اندازی کرنے کی مخالفت کی ہے ،وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کی پالیسی کی مخالفت کی ہے یہ وہ چیزیں ہے جس کی پاداش میں ایک بہانہ بناکر کنہیا کو غدار ٹھہرایا گیا اور اسے مجرم قراردیکر جیل کی سلاخوں میں بندکردیا گیا ہے ۔
جواہر لال نہرویونیورسیٹی کا تنازعہ سامنے آنے کے بعد فروغ انسانی وسائل کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے ایک میٹنگ طلب کرکے تما م مرکزی یوینورسیٹوں پر 207 فٹ طویل جھنڈا لہرانے کا حکم جاری کردیا ہے ،اس فیصلہ میں یہ بھی شامل ہے کہ ترنگا لہرائے جانے کاعمل جے این یو سے شروع ہوگا ،گویا فیصلہ کی آڑ میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سب سے کم حب الوطنی جے این یو کے طلبہ میں پائی جاتی ہے ،یہاں کے طلبہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں ،ان کے اندر جب الوطنی کا جذبہ کارفرمانہیں ہوتاہے ۔
دراصل جے این ملک کی واحد یونیورسیٹی ہے جہاں مکمل آزادی ہے ،کمیونسٹوں کا غلبہ ہے ،وہاں آزاد کلچر حاوی ہے یہ چیزیں بی جے پی اور سنگھ پریوارکے ایجنڈے کے خلاف ہے جس کی بناپر وہاں مستقل ایسے شوشے چھوڑے جارہے ہیں تاکہ وہاں بھی مکمل سنسکرت اور مذہبی تعلیم پرھائی جانے لگے ،آر ایس ایس کے مشن کے مطابق یہ یونیورسیٹی کام کرے ۔
میں مانتی ہوں کہ ملک مخالف نعرہ لگانا سنگین جرم ہے ،ملک سے غداری ہے لیکن تحقیق کے بغیر کسی کو مجرم ٹھہرانا ،کسی کی زندگی سے کھیلنا،کسی پر الزام عائد کرکے جیل کی سلاخوں میں ڈالنا کون سی دانشمندی ہے ،کیسی حب الوطنی اور قانون کی پاسداری ہے اور سب سے بڑا المیہ وکلاء کی انتہا پسندی کا ہے جو قانون کے محافظ بن کر قانون کی دھجیاں اڑارہے ہیں اور یہ چیزیں ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے ،سیاسی اور سماجی رہنماؤں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ملک اس انتہاء پسندانہ نظریے سے بچائیں ۔
nuzhatjahanm@gmail.com