تعبیر کی غلطی کا شکار ہماری قومیت کا مفہوم

عبیدالکبیر

ملت ٹائمز

تعبیر کی غلطی بسا اوقات مخاطب اور متکلم  کے بیچ کچھ اس طرح حائل ہوجاتی ہے جس سے بہت زیادہ قریبی سمجھے جانے والے لوگ باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں  ۔کبھی کبھی اس کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں ۔ایران کے مشہور شہر”قم” کے قاضی کا واقعہ اس ضمن میں عموماً بطور مثال پیش کیا جاتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب ایران کے شہر قم کا قاضی اپنی کبر سنی کی بنا پر معزول کیا جارہاتھا تو امیر مملکت نے اسے اپنے منصب سے سبکدوش کرتے ہوئے کہا ” یا قاضی قم شبت فقم “عربی کے اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ ائے قم کے قاضی آپ بوڑھے ہوچکے ہیں لہذا اپنے منصب کے سبکدوش ہوجائیں ۔یہ سن کر قاضی صاحب نے فرمایا “قتلنی قافیۃ للامیر ” یعنی امیر کے قافیہ نے مجھے ہلاک کرڈالا ۔اس واقعہ میں قاضی شہر نے اپنی  معزولی کا جوسبب بیان کیا ہے وہ امیر مملکت کی مراد سے مختلف ہے ۔ امیر کی منشا وہ نہ تھی جو قاضی صاحب ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ مگر ایک جیسے الفاظ استعمال کرنے کے باوجود دونوں کی تعبیرات الگ الگ ہونے کی بنا پر مفہوم کچھ کا کچھ ہو کر رہ گیا ۔یہ ایک مثال ہے جس کی روشنی میں ہم آج کے حالات کو سمجھ سکتے ہیں ۔ہمارے ملک میں گذشتہ دو برسوں سے جس قسم کے حالات سامنے آئے ہیں اس کے پیش نظر  عوام وخواص میں ایک طرح کی بے چینی پائی جاتی ہے ۔کبھی عدم رواداری  اور عدم برداشت کی فضا قائم ہوتی ہے تو کبھی وطن دوستی کے نام پر کچھ وطن دوست حضرات ملک کا امن وامان غارت کردیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جب ان مسائل پر کسی کی جانب سے کچھ گفت وشنید کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بعض لوگ آپے سے باہر ہوجاتےہیں اور ایسے لوگوں کو ننگ وطن کہنے میں باک نہیں کرتے ۔ان لوگوں کے بقول اس قسم کا نقد وتبصرہ بھی گویا  مادر وطن سے غداری اور بھارت کی عدلیہ کے تئیں بے اعتمادی کے مترادف  ہے ۔حال ہی میں ملک کی موقر یونیورسٹی جے این یو میں جو ہنگامے ہوئے اور اس کے رد عمل میں دارالحکومت کی سڑکوں پر جو مظاہرے ہوئے وہ اس ملک کی سالمیت کے لئے ایک چیلنج ہیں ۔جے این یو معاملہ نے اگر چہ پورے ملک کی فضا کو متاثر کیا ہے اور اس کے چلتے کچھ چبھتے ہوئے سوالات پیدا ہوئے ہیں جو واقعی غور طلب ہیں۔اس سلسلہ میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن پر تبصرہ یا تنقید کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا مگر اس ضمن میں ہماری قومیت کے مفہوم کا سوال ایک اہم سوال  ہے ۔جس طرح اس واقعہ میں ہر تنقید اور مواخذہ کو وطن دشمنی کا نام دے دیا گیا وہ اپنی حساسیت کی وجہ سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔جے این یو معاملہ میں کچھ ٹی وی چینلوں  کا رول بھی قابل مواخذہ  ہے ۔ایک جمہوری ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے مگرآخر حکومت کس لئے ملک کی عوام پر یہ دستورِ زباں بندی نافذ کرنا چاہتی ہے یہ بھی غور طلب ہے ۔ مرکزی حکومت جس طرح پہلے روہت ویمولا پھر کنہیا اور عمر خالد کے مسئلہ سے پہلو تہی کرکے اسے ایک نیا عنوان دینے کی کوشش کر رہی ہے وہ یقیناً ہماری قومی سیاست کا ایک المیہ ہے ۔ عام طور پر لوگوں کو یہ باور کرانے کی پیہم کوششیں ہو رہی ہیں کہ کچھ ملک دشمن عناصر بھارت کی سالمیت کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں ۔اب سے کچھ ماہ قبل بھی جے این یو کو ملک دشمن عناصر کا اڈہ قرار دیا جا چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کیا جمہوریت کی بنیادیں تار عنکبوت کی مانند کمزور ہو چکی ہیں کہ چند لوگ مل کر اس کے لئے  خطرات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گےجبکہ ان لوگوں کا تعلق کسی بااثر تحریک سے نہ ہو ۔اگر واقعی ایسی صورت حال ہوتی تو آخر موجودہ حکومت کیسے اتنی اکثریت سے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو پاتی ۔در اصل ان حالات کے پیچھے وہی تعبیر کی غلطی کارفرما ہے جس کی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا تھا ۔آزادی کے بعد بھارت میں اکثریت اور اقلیت کے مسائل کو سامنے رکھ کر جو دستور اساسی مرتب کیا گیا تھا آج اسی کی تعبیر پر ہماری سیاست گرم اور نرم ہونے لگی ہے ۔بھارت جیسے عظیم ملک کے لئے شاید سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں دستور کو چھوڑ کر شخصیت پرستی کا رجحان عام ہو رہا ہےاور خود کو وطن دوست کہلانے والا ایک گروہ باقی ماندہ مظلومین کو اپنی قومیت میں جذب کرنے کے لئے بہت بے چین ہو چکا ہے  ۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اکابرکی طرز فکر کے تحت منصوبہ سازی میں مصروف ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ جہاں یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو رقابت لازمی ہے جو بسا اوقات بڑھتے بڑھتے عداوت تک پہنچ جاتی ہے ۔ہندستانی قومیت کا مفہوم طے کرنے کے لئے آج جن نظریات کا سہارا لیا جا رہا ہے ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا قومیت کا یہ مفہوم ہمارے دستور کے مطابق ہے بھی یا نہیں؟ ۔یہاں پر ہمیں پوری سنجیدگی سے وطن دوستی اور وطن دشمنی کے فرق کو سمجھ لینا چاہئے اور حب الوطنی کے خود ساختہ پیمانوں سے عوام کی حب الوطنی کو ناپنے سے گریز کرنا چاہئے ۔کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ اپنے نظریات فریق مخالف پر تھوپے ۔جن لوگوں کو ہم آ زاد بھارت کے معماروں میں شمار کرتے ہیں ان کا نام لیکر اگر ان کے اصولوں سے بغاوت کی یہ روش عام ہو گئی تو یہ چیز یقیناً ہمارے قومی مفاد سے متصادم ہوگی ۔مرکزی حکومت جس طرح تعلیمی اداروں پر ایک خاص ذہنیت کو مسلط کرنا چاہتی ہے اس کے لئے ارباب حل وعقد  کو مزید بیدار اورحساس ہونے کی ضرورت ہے ۔جمہوریت کے استحکام میں جن عناصر کا کلیدی رول ہے ان کی قربانی کسی قیمت پر جمہوریت کی ترقی کا باعث نہیں بن سکتی ۔یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اسے کسی پارٹی یا تنظیم کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا جائے ۔ ہمارے ملک کی سیکولر جماعتوں کو اس صورت حال پر صحیح فیصلے لینے کی ضرورت ہے ۔بھارت کی قومیت کیا ہے اس کا فیصلہ کرنےکے لئے  ہمارے پاس دستور کی شکل میں جو معیار موجود ہے ہمیں اسی کی روشنی میں اپنی سیاست کو فروغ دینا چاہئے ۔اس کے برعکس جو سیاست کی جاتی ہے وہ ایک جمہوری ملک کی عوام کے ساتھ سب سےبڑی خیانت ہوگی ۔اگر اس مسئلہ کو محض ووٹ بینک کی سیاست کے لئے استعمال کیا گیا اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا تو شاعر کی زبان میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ائے ہندوستاں والوں

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

 

SHARE