نئی دہلی(ملت ٹائمزعارفہ حیدر خان )
ملک کے مسلمانوں میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس ہے، قبولیت کا ماحول خطرے میں ہے، یہ بات سبکدوش ہونے والے نائب صدر حامد انصاری نے کہی ہے، انہوں نے یہ تبصرہ ایسے وقت میں کیا ہے جب تشدد اور گﺅرکشکوں کے غنڈہ گردی کے متعددواقعات سامنے آئے ہیں اور کچھ زعفرانی رہنماو¿ں کی جانب سے اقلیتی برادری کے خلاف بیان دیے گئے ہیں۔
نائب صدر کے طور پر 80 سالہ حامد انصاری کی دوسری مدت بدھ کو مکمل ہو رہی ہے، انصاری نے کہا کہ انہوں نے تشدد اور غنڈہ گردی کا مسئلہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے کابینہ کے ساتھیوں کے سامنے اٹھایا ہے، انہوں نے اسے ” پریشان کرنے والا خیال“ قرار دیا کہ شہریوں کی ہندوستانیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں
راجیہ سبھا ٹی وی پر مشہور صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب انصاری سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اپنے خدشات سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا ہے، تو نائب صدر نے ” ہاں“ کہہ کر جواب دیا، ملک کے نائب صدر ہونے کے ناطے پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے چیئرمین کا عہدہ بھی سنبھال رہے انصاری نے کہا، لیکن نائب صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کیا باتیں ہو رہی ہیں، یہ استحقاق والی بات چیت کے دائرے میں ہی رہنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسرے مرکزی وزراء کے سامنے بھی انہوں نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔
حکومت کا جواب پوچھے جانے پر انصاری نے کہا،” یوں تو ہمیشہ ایک وضاحت ہوتی ہے اور ایک دلیل ہوتی ہے، اب یہ طے کرنے کا معاملہ ہے کہ آپ وضاحت تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں اور آپ منطق کوتسلیم کرتے ہیں کہ نہیں، اس انٹرویو میں انصاری نے بھیڑ کی طرف سے لوگوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے واقعات،گھر واپسی اورتشددکے ذریعہ قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ”ہندوستانی اقدار کا بے حد کمزور ہو جانا، عام طور پر قانون نافذ کرا پانے میں مختلف سطحوں پر افسران کی اہلیت کا کلچر متاثر ہوجانا ہ اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات کسی شہری کی ہندوستانیت پر سوال اٹھایا جانا ہے“
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی میں ایک طرح کی تشویش ہے اور جس طرح کے بیان ان لوگوں کے خلاف دیے جا رہے ہیں، اس سے وہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، اس پر انصاری نے کہا، ہاں، یہ جائزہ لینے کا حق ہے،نائب صدر نے کہا،ہاں، یہ ایک صحیح اندازہ ہے، جو میں ملک کے مختلف حلقوں سے سنتا ہوں، میں نے بنگلور میں یہی بات سنی، میں نے ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ بات سنی، میں اس بارے میں شمالی ہند میں زیادہ سنتا ہوں، تکلیف کا احساس ہے اور عدم تحفظ کا احساس گھر کر رہی ہے، یہ پوچھے جانے پر کہ کیا مسلمانوں کو ایسا لگنے لگا ہے کہ وہ ”ناپسندیدہ“ ہیں، اس پر انصاری نے کہا، میں اتنی دور نہیں جاو¿ں گا، عدم تحفظ کی احساس ہے۔تین طلاق کے معاملے پر انصاری نے کہا کہ یہ ایک سماجی انحراف ہے، کوئی مذہبی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا،پہلی بات تو یہ کہ یہ ایک سماجی انحراف ہے، یہ کوئی مذہبی ضرورت نہیں ہے، مذہبی ضرورت بالکل واضح ہے، اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے، لیکن محب وطن، سماجی رسم و رواج اس میں گھس کر حالات کو ایسا بنا چکے ہیں جو انتہائی ناپسندیدہ ہے، انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو اس معاملے میں دخل نہیں دینا چاہئے، کیونکہ بہتری کمیونٹی کے اندر کے لوگ ہی لائیں گے