عالم + دانشور + شاعر = مولانا ریاست علی ظفر بجنوری

فاروق اعظم قاسمی

دنیا میں بہت سے قابل لوگ ہیں لیکن ان کی قابلیت متعدی بھی ہوجائے،ضروری نہیں ہے ۔آدمی کے شخصی ارتقا میں والدین کے بعد سب سے بڑا رول استاذ کا ہوتا ہے ۔بہترین معلم وہی کہلا تا ہے جو تعلیم کے ساتھ شاگر د وں کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھے۔استاذ کی قابلیت کا انحصار بہت زیادہ پڑھا لکھا ہونے پر نہیں ہے بلکہ ایک معمولی مکتب کا استاذ بھی عظیم ہوسکتا ہے۔کیوں کہ اس کی بنیاد ا س بات پر ہے کہ ایک مدرس کے اندر جتنے بھی علم وہنر کے گن ہیں انھیں وہ اپنے شاگردوں کے اندر کس قدر اور کس سلیقے سے انڈیل کے اپنے جیسا ایک مفید شہری بنا سکتا ہے ۔اگر یہ اوصاف ایک معلم کے اندر ہیں تو یہ بات یقین کی حد تک کہی جاسکتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک عظیم استاذ ہے۔
درس کی پابندی کے کئی اسباب سے ہوسکتے ہیں ۔اسکول و مدرسے سے اخراج کا خوف ،امتحان میں شرکت پر پابندی کا ڈر،ڈانٹ اور مارپٹائی کا خو ف،استاذ کی ذاتی سختی اور رعب کا اثر ،والدین کی سختی ،کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور مخلص وباہنر استاذ کی پر تاثیر تدریس وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن میرے خیال میں آخر الذکر سبب انتہائی مضبوط اور ٹھوس ہے۔اگر ایک استاذ پورے خلوص و ہمدردی اور علم و معلومات کے بھر پور ذخیرے کے ساتھ درس گاہ میں حاضرہو تا ہے اور انتہائی سبک و شیریں اسلوب کے ذریعے متعلقہ اسباق کو طلبہ کے ذہن ودماغ میںپیوست کردیتا ہے تو پھر طلبہ کے اندر کسی خارجی دباﺅ اور خوف کے بغیر پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے اور و ہ علمی و عملی میدان میں بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ بچوں کو کسی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے سب سے کارگر ہتھیار اس کا جذبہ ¿ شوق ہے۔
استاذ محترم مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مرحوم بھی ہمارے ان ہی اوصاف کے حامل اساتذہ میں سے ایک قابل ،ماہر ،فاضل اورمخلص ومربی استاذ تھے ۔ان کا درس کیا تھا،گویا مجنوں کو لیلیٰ کے دیدار کی بے کلی ہو ۔ہم درسوں کو ان کے گھنٹے کا شدت سے انتظار رہتا ۔ سال ہفتم میں ہمیں وہ مشکوٰة کا درس دیتے تھے ۔سچ پوچھیے تو دارالعلوم میں ایک سے بڑھ کر ایک استاذ تھے اور ہیں اور اپنے اپنے میدان میں حذاقت و مہارت رکھتے تھے لیکن جتنے شوق و لگن سے مولانا ریاست صاحب کے درس کی پابندی احباب کرتے ،اتنی شایدکسی اوراستاذ کے درس کی نہیں کرتے۔
درالعلوم میں رواج ہے کہ درس حدیث سے قبل حدیث کی عبارت خوانی ہوتی ہے پھر اساتذہ درس دیتے ہیں ۔اس عبارت خوانی کے لیے بہت سی شرائط ہوتی ہیں ۔مثلاً قواعد کی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے اور آواز بلند و خوب صورت ہو۔طلبہ کو بڑا شوق ہوتا عبارت خوانی کا لیکن بہت سے بے چار ے پہلی شرط پر تو کھرے اترتے لیکن دوسری یا تیسری میں پھنس جاتے تو استاذ محترم اس قدر شفقت ومحبت سے اصلاح فرماتے کہ اصلاح بھی ہوجاتی اور طالب علم کو پشیمانی بھی نہیں ہوتی ۔ان کا انداز درس انتہائی عالمانہ و فاضلانہ ہوتا اور ساتھ ہی ادبیت سے بھر پور چھوٹے چھوٹے جملے، بہت واضح ،مختصر گفتگو،اسلوب بیان آبشاری ،نہ کہیں اٹک پھٹک اور نہ کہیں بے اعتمادی کا کوئی شائبہ ۔شروع سے آخر تک ایک ہی رفتار اور ایک ہی انداز ۔
ایک مرتبہ دوران درس ایک حدیث میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو’یا بُنیَّ!‘ سے خطاب فرمایا تو حضرت نے اس کا اتنا خوب صورت ترجمہ کیا کہ آج تک وہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے۔حضرت نے ُپچکار کر فرمایا ’بیٹے۔منّے ۔‘مت پوچھیے کہ اس ترجمے میں کس قدر گیرائی ااور جامعیت تھی ۔ہم تمام طلبا بے حد محظوظ ہوئے۔مشکوٰة شریف میں جب ’باب الطب‘آیا تواس میں ’مشروم‘کا ذکر آیا۔حدیث میں’مشروم‘کو آنکھوں کے لیے بہت مفید بتایا گیا ہے ۔لیکن حضرت نے اس کے ضمن میں نکتے کی ایک بات یہ فرمائی کہ اس سبز ی میں یقینا صد فی صد آنکھوں کا علاج ہے لیکن اپنی طبیعت سے اس کا استعمال مت کرنا کسی حکیم حاذق سے پوچھ کر ہی اس کا استعمال مفید ہوگا ورنہ نقصان کی صورت میں انسان شبہ میں پڑسکتا ہے۔پھر اپنے صاحب زادے کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو بیمار پڑا اور سخت بیمار پڑا ۔اس وقت ڈاکٹر کا رواج دیوبند میں کم اور حکیم کا زیادہ تھا۔ایک حکیم سے تشخیص کرائی گئی،بجائے فائدہ کے مرض نے مزید شدت اختیار کرلی۔ایک دوسرے حکیم سے دکھایا گیا۔اس نے بھی من وعن وہی دوائیں دیں جو پہلے چل رہی تھیں ۔بس فرق یہ ہوا کہ خوراک آدھی کردی ۔بچے کو دوا دی گئی اوروہ ماشاءاللہ اچھا ہوگیا۔
اس طرح جب مشکوٰة کا ’باب الشعر والادب‘آیا تو درس مکمل ہونے کے بعد حضرت الاستاذ سے میں نے عربی میں ایک پرچی پر لکھ کر یہ درخواست کی کہ اس مناسب موقع سے حضرت اپنے کلام سے نوازیں تو حضرت نے ایک چھوٹی سی تقریر فرمائی۔اشعار تو سنانے سے معذرت کردی تاہم فرمایا کہ میں بھائی کاشف الہاشمی کی نگرانی میں شاعری کرتا تھا لیکن جب سے تدریس حدیث کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر آئی تو میںنے تقریباً شاعری چھوڑدی ہے۔پھر ترانہ ¿ دارالعلوم دیوبند کے بارے میں فرمایا کہ بیٹے یہ مسلسل دوماہ کی عرق ریزی اور بھائی کاشف الہاشمی صاحب کی سرپرستی میں تیار ہوا تھا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ خود اپنے آپ کو گناہوں سے اور فتنوں سے بچالیں یہی بہت بڑی بات ہوگی۔ تو میں نے سوال کیا کہ حضرت کیا وہ زمانہ آگیا؟فرمانے لگے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمة اللہ علیہ سے بھی یہی سوال کیا گیا تھا انھوں نے جواب دیا کے ابھی نہیں ۔ پھر ذرا توقف کے بعد فرمایا :میں بھی کہتا ہوں کہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا۔
حضرت الاستاذ نے فضیلت کے آخری سال ( دورہ ¿ حدیث ) میں ہمیں ابن ماجہ شریف پڑھائی ، یہاں کا رکھ رکھاﺅ بھی دیدنی تھا تاہم درس ِ مشکوٰة کی بات ہی کچھ اور تھی ۔
بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ حضرت تعبیر خواب کے بھی ماہر تھے ۔ایک بار میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے اپنے ایک خواب کا ذکر کیاتو حضرت نے بڑی خوب صورت تعبیر بتائی،مسکرائے اور دعائیں بھی دیں ۔
آج سے گیارہ سال قبل (2006)میںجب مشکوٰة شریف کا طالب علم تھا تومیں نے حضرت کی شاعری پر ایک مختصر مضمون لکھا تھاجوماہنامہ ”دارالعلوم“دیوبندکے دسمبر 2006کے شمارے میں شائع ہوا تھا ۔شاید حضرت اس مضمون کو پڑھ کر ہی مجھے پہچان گئے تھے لیکن مجھے اس کا صحیح علم بہت بعد میں ہوا۔
اکتوبر2013میں میری تیسری کتاب”تخلیق کی دہلیز پر“(ادبی مضامین کا مجموعہ)منظر عام پر آئی ۔حضرت پر لکھا مذکورہ مضمون بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا تھا۔میں نے بہت سے احباب واساتذہ کی خدمت میں کتاب پیش کی۔دیوبند گیا وہاں بھی کئی اساتذہ کو پیش کیا لیکن براہ راست حضرت مولانا کی خدمت میں کتاب پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔چنانچہ استاذمحترم مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب کے توسط سے کتاب حضرت کی خدمت میں پہنچی۔حضرت کی شفقت ومحبت کی بات تھی کہ انھوں نے کتاب کا مطالعہ کیا اور مجھے فون کیا۔16 مارچ2014کی دوپہر بارہ سوابارہ بجے کا یہ خوشگوار حادثہ ہے۔یقین جانیے کہ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں ہورہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ موبائل میرے کپکپاتے ہاتھوں سے زمین پر گرپڑے گا ۔بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا۔ساڑھے پانچ منٹ کی گفتگو ہوئی تھی ۔بات سے فارغ ہونے کے فوراً بعد میں نے اسے اپنی ڈائری میںقلم بند کرلیاتھا جو آج میرے لیے تبرک بھی ہے اور یادوں کا سرمایہ بھی ۔وہ مواصلاتی گفتگو ذیل میں پیش ہے:
حضرت: بیٹے !آپ فاروق اعظم بول رہے ۔
میں : جی !آپ؟
حضرت: میں دیو بند سے ریاست علی ظفر بول رہا۔مولانا سلمان کے بیٹے نے تمھاری کتاب”تخلیق کی دہلیز پر“لاکر دی،اب میں تمھیں مبارک دوں یا شکریہ ادا کروں؟ !میرے ترانے (ترانہ ¿ دارالعلوم دیوبند)سے تم نے پہلا شعر لیا ہے جب کہ ترانے کا سب سے مضبوط شعر مولانا فخر الدین ؒ والا ہے۔
رومی کی غزل،رازی کی نظر، غزّالی کی تلقین یہاں
روشن ہے جمال انور سے پیمانہ ¿ فخرالدین یہاں
میں : جی بیت الغزل کی طرح بیت الترانہ
حضرت: بیٹے بیت النشیدکہو ۔بیٹے تم نے بہت اچھا کام کیا ہے ۔خاص طور پر شیخ(شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ) کی”فضائل اعمال“پر۔
میں: جی حضرت!اپنے اسلاف کا جنھوں نے تواضع میں اپنی زندگی گزاری لیکن آج انھیں تاریخ بدری کا صلہ دیا جارہا ہے۔ان کے نام و کام کو اجاگر کرنا میرا عزم ہے۔
حضرت: خدا تمھارے علم و عمل میں برکت دے۔حضرت کی آپ بیتی پر بھی کچھ ہونا چاہیے۔بیٹے تم کون سے سال میں یہاں (دیوبند)تھے۔
میں : حضرت 2007میں فراغت ہوئی ہے۔
حضرت : میرا خیال ہے پہلے بھی یہ مضمون (کتاب میں شامل حضرت پر تحریرکردہ میرا مضمون)کہیں شائع ہوا تھا؟
میں : جی حضرت !ماہنامہ” دارالعلوم “ دیوبند میں شائع ہوا تھا۔
میں: حضرت !اپنی دعاﺅں میں بندے کو یاد رکھیے گا۔السلام علیکم!!
حضرت: وعلیکم السلام!!
ویسے تو یہ ایک معمولی گفتگو ہے لیکن اس کے بین السطور میں ایک استاذ کی شفقت ،محبت ،مروت اوراپنائیت کے ساتھ اصلاح کے قیمتی موتی اور مفید مشورے سے بھی نوازا گیا ہے۔ایسے ہی ان جملوں میں حضرت الاستاذ کی طرف سے ایک حقیر شاگرد کے لیے ہمت افزائی کی ایڑ بھی ہے اور دعاﺅں کا توشہ بھی۔
حضرت ایک خوب صورت شخصیت کے مالک تھے۔بظاہر انتہائی سادہ لباس و سادہ مزاج تھے لیکن اس نحیف الجثہ میں ایک مضبوط دل اور صحت مند دماغ بھی بستا تھا۔حضرت نے ان دونوں کا ایسا متوازن استعمال کیا کہ دانشوری ان کے امتیازات کا حصہ بن گئی ۔اگر انھیں دو دماغوں کا ایک آدمی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔اس کی بہترین مثال دارالعلوم دیوبند اور جمعےة علمائے ہند دہلی ہے ، ہر دو اداروں میں ان کی انتظامی امور کی رہنمائیوں ،مشوروں اور فیصلوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔حضرت اپنے طویل تجربے اور غور و فکر کی روشنی میں جو بھی موقف اختیار کرتے بلا خوف تردیداس کا اظہار فرماتے اور اپنے اسی موقف پر قائم بھی رہتے ۔بہت سے حضرت انھیں مولانا”سیاست“کہا کرتے تھے ۔میرے نزدیک اس لفظ”سیاست“کے دونوں پہلو معتبر ہیں ۔مثبت بھی منفی بھی۔مثبت پہلو تو اسی لیے کہ جو خصوصیت اوپر بیان کی گئی اور جہاں منفی پہلو کی بات ہے تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعرو کاہن اور مجنو ن کہا گیا تو اس کے ایک امتی کو کوئی نادان اگر کوئی غیر مناسب لقب دیدے تو اس سے کیا بگڑتا ہے؟!چاند چاند ہی رہتا ہے اور چاند پر تھوکنے والا اپنے چہر ے کو خود آلود کرتا ہے۔
فراغت کے بعد اپنے ابتدائی دور میں وہ الجمیعة بک ڈپو کے منیجر بھی رہے ۔بعد میں شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند کے ڈائریکٹر اور ماہنامہ ”دارالعلوم“کے مدیر بھی بنائے گئے ۔پھر دارالعلوم کے سب سے اہم شعبہ”تعلیمات“کی نظامت بھی آپ کے سپرد ہوئی۔آپ دارالعلوم کے نائب مہتمم اور جمعیة علمائے ہند کے نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔اولاً تو آپ عہدہ ¿ ومنصب سے اجتناب کرتے تھے لیکن جب ذمہ قبول کرلیتے تو پورے اخلاص کے ساتھ متعلقہ اداروں کے مفاد کے پیش نظر اقدامات کرتے اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ۔اس سلسلے میں 1980کے بعد دارالعلوم کے لرزتے قدموں کو قرار عطا کر نے میں حضرت الاستاذ کا بڑا حصہ رہا ہے۔ایسے ہی جب انھوں نے تعلیمات کی نظامت سنبھالی تو کئی ایسی اصلاحات کیں جو بہت کارگر ثابت ہوئیں اور آج تک وہ بر قرار ہیں ۔
ان کی انتظامی صلاحیت ،ان کی قوت ارادی،ان کی قوت فیصلہ ،سخت سے سخت حالات میں بھی جبیں پر شکن نہیں ۔کوئی گھبراہٹ نہیں ، انتہائی آسانی کے ساتھ چٹکیوں میں مشکل سے مشکل مسئلے کو حل کرنا ان کے اندر کے دانشور کو بتاتا تھا۔
حضرت الاستاذ کے مطالعے کی وسعت ،علم حدیث میں ان کی گہرائی وگیرائی ،ان کا طریقہ ¿ استدلال ،ان کی نکتہ سنجی ،ان کی فقہی نظر اور انداز بیان ہر ایک سے ان کی قابلیت کی روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔”ایضاح البخاری“ اور” کشاف اصطلاحات الفنون“(قاضی محمد اعلیٰ تھانوی)کی تحقیق و تنقیح آپ کی علمی قدرآوری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔”شوریٰ کی شرعی حیثیت “اپنے موضوع پر ایک شاہ کار اور ان کی اردو نثر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور آپ کی فلسفیانہ اور پیامی شاعری کا کچھ غیر معمولی اندازہ نغمہ ¿ سحر (مجموعہ ¿ کلام)سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
مولانا کاشف الہاشمی صاحب گر چہ عمر میں آپ سے سات سال بڑے تھے لیکن دارالعلوم میں دونوں ہم درس تھے ۔وہ ایک طرح سے حضرت الاستاذ کی شاعری کے استاذ تھے ۔ایک ایک مصرعہ،الفاظ و حروف اور فصاحت و بلاغت پر ہاشمی صاحب کی گہری نظر تھی۔وہ شاعر ہی نہیں استاذ شاعر تھے ۔ان ہی کے زیر سایہ استاذ علیہ الرحمہ نے فن شاعری میں بالیدگی پیدا کی ۔کاشف صاحب مشاعروں میں نہیں جاتے تھے لیکن مشاعرے میںباذوق طلبہ کی شرکت ہواکر تی تھی اس لیے کہ اس وقت تک مشاعرہ اتنا بازارونہیں ہوا تھا ۔چنانچہ حضرت الاستاذ ایک بار مشاعرے سے واپسی میں کاشف صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ، پھر کیا ،اصلاح سخن شروع ہوگئی ۔حضرت فرماتے ہیں :
”ایک مرتبہ دیوبند میں آل انڈیا مشاعرہ ہوا ۔ہم لوگ آخر شب میں مشاعرے سے واپس ہورہے تھے ۔حضرت کاشف الہاشمی مشاعروںمیں نہیں جاتے تھے اور وہ ان دنوں بازار جامع مسجد کے ایک مکان میں کرایہ دار تھے ۔ہم لوگ وہیں سے گزررہے تھے ۔ خیال ہوا کہ اگر جاگ رہے ہوں تو ملاقات کرلیں ،ہم لوگ پہنچے تو معمول کے مطابق بیدار ہوچکے تھے اور وضو کررہے تھے ۔پوچھا مشاعرے سے واپسی ہورہی ہے ۔حضرت جگر مرادآبادی نے کیا پڑھا؟ہم نے سنایا :
وہ سبز ننگ چمن ہے جو لہلہانہ سکے
وہ گل ہے زخم بہاراں جو مسکرانہ سکے
نہ جانے آہ کہ ان آنسوﺅں پہ کیا گزری
جو دل سے آنکھ تک آئے مژہ تک کہ نہ سکے
کہنے لگے ،ٹھہرو!کیا تمھیں محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ کمزور ہے اور دوسرا طاقتور ،ہم نے کہا:ہاں!ایسا تو ہے۔کہنے لگے:اگر ہم جگر صاحب کے مضمون کو اس طرح ادا کریں :
پگھل گئے ہیں کہاں کوکبانِ شعلہ مزاج
کہ دل سے آنکھ تک آئے مژہ تک کہ نہ سکے
ہم نے کہا کہ اب پہلا مصرعہ زیادہ طاقتور ہوگیا۔پھر ہم نے پوچھا کہ آنسو کے لیے کوکب ِ شعلہ مزاج کی تعبیر بالکل نئی معلوم ہوتی ہے ۔کہنے لگے کہ نظر سے تو میری بھی نہیں گزری ۔“(کلیات کاشف الہاشمی،ص:25-26)
ترانہ ¿ دارالعلوم کا ایک شعر جسے حضرت الاستاذ بیت النشید قرار دیتے تھے ،وہ پہلے یوں موزوں ہواتھا:
رومی کی غزل میں ڈھلتی ہے غزّالی کی تلقین یہاں
روشن ہے جمال انور سے پیمانہ ¿ فخر الدین یہاں
کاشف الہاشمیمرحوم نے دارالعلوم دیوبند کے مزید ایک امتیازی وصف کا اضافہ کرتے ہوئے یوں اصلاح کی :
رومی کی غزل،رازی کی نظر،غزّالی کی تلقین یہاں
روشن ہے جمال انور سے ،پیمانہ ¿ فخرالدین یہاں
اس اضافے سے دارالعلوم کے امتیازات کی ترجمانی بھی ہوگئی اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ دوسرے مصرعے کے دونوں افراد ان امتیازات کے حامل بھی ہیں اور دوسراپہلے کا خوشہ چیں بھی ۔
حضرت الاستاذکو اقبال رنگ شاعری کے انتہائی مضبوط شاعر کاشف الہاشمی کی شفقت و تربیت ِ سخن حاصل رہی ،انھوں نے شاعری کم کی لیکن انتہائی شاندار و پائیدار اورمثبت وتعمیری شاعری کی۔
ترانہ ¿ دارالعلوم کے چند شاہ کار اشعار پیش ہیں:

یہ علم وہنر کا گہوارہ،تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں ایک شعلہ ہے،ہر سرو یہاں مینارہ ہے

جو وادی ¿ فاراں سے اٹھی،گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کے صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں

مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے

اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی
اس بامِ حرم سے گونجی ہے سوبار اذاں آزادی کی

عابد کے یقین سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل
آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا،اخلاص کا ایسا تاج محل

کہسار یہاں دب جاتے ہیں ،طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
یہ ایک صنم خانہ ہے یہاں ،محمود بہت تیار ہوئے
اس خاک کے ذرے ذرے سے ،کس درجہ شرر بیدار ہوئے

اس بزم جنوں کے دیوانے،ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے ،دیوارِ چمن سے زنداں تک

سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے ،کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

ہر موج یہاں اک دریا ہے ،اک ملت ہے ہر فرد یہاں
گونجا ہے ابد تک گونجے گا آوازہ ¿ اہلِ درد یہاں

یوں سینہ ¿ گیتی پر روشن اسلاف کا یہ کردار رہے
آنکھوں میں رہیں انور حرم،سینے میں دل ِبیدار رہے
٭٭٭
مزید چند اشعار
محبت ترجمانِ رازِ ہستی
محبت چشم قدرت کی زباں ہے
محبت التہاب ِبر قِ ایمن
کلیم طور کا عزم جواں ہے
٭٭٭
ہر اک بہار نے آکر تری شہادت دی
چمن چمن سے ملا ہے تیرا پیام مجھے
ظفر نہ پوچھ،قیامت ہے وہ نظر جس نے
سکھادیا ہے تمنا کا احترام مجھے
٭٭٭
رُت بدلے گی پھول کھلیں گے،جام مجھے چھلکانے دو
جام مجھے چھلکانے دو،کونین کو وجد میں آنے دو
٭٭٭
وہ موج ،رنگ و نور گلستاں کہیں جسے
وہ روئے تابناک کہ قرآں کہیں جسے
موجِ نشاطِ بادہ سے خم ہو گیا ہے خُم
وہ کفر ہے کہ غیرت ایماں کہیں جسے
٭٭٭
اڑا ہے لے کے مجھے صرف میرا ذوقِ سجود
کوئی ہزار پکارا کرے ”اناالمعبود“
جنوں کے ہاتھ ہے اب آبرو عبادت کی
بنادیے ہیں خرد نے ہزارہا معبود
ان اشعار سے ایک عظیم شاعر کی اعلیٰ اقدار شاعری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ان کی شاعری میں تغزل بھی ہے اور فکر کی زیریں آنچ بھی۔موضوعاتی تنوع بھی ہے اور ساتھ ہی زبان و بیان کی شیرینی اور اسلوب و ادا کی ندرت بھی ۔ظفر بجنوری کی شاعری میں میر کی لے،غالب کا رنگ اور اقبال کے آہنگ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔چوں کہ شاعر کاتعلق دبستان دیوبند کی شاعری سے ہے اس لیے انھوں نے کبھی شاعری کو پیشہ نہیں بنایا۔دارالعلوم دیوبند کا خلق کردہ مشہور و مقبول ترانہ حضرت الاستاذ کے اشہبِ قلم اورنتیجہ ¿ فکر کا عمدہ نمونہ ہے۔زمین تو ضرور آپ نے مجاز کی اختیار کی لیکن کبھی کبھی ”یہ میرا چمن“سے تفوق حاصل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔اس ترانے کے بعد ملک کے قابل ذکر درجنوں مدارس نے اسی اندازو پیٹرن پر اپنے ترانے تیارکیے یا کرائے ۔ترانہ ¿ دارالعلوم کے ساتھ ترانہ ¿ جمعیة علمائے ہند اور ترانہ ¿جامعہ امام انور کے خالق بھی آپ ہی ہیں۔اس طور پر عالم،دانشور اور شاعرکی تثلیث سے آپ کی شخصیت بنتی ہے۔
حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی ظفر بجنوری ؒ انتہائی خوش مزاج ،شفقت سے پیش آنے والے اور محبت کرنے والے ایک خوب صورت انسان تھے۔کسی سے بات کرتے،چھوٹا ہو یا بڑا ،بڑی نرمی کے ساتھ کرتے ۔ان کی ڈانٹ میں بھی بڑاپیار ہوتا تھا۔ان کی گفتگو میں طنزو مزاح بھی کا رنگ ہوتا لیکن بھرپور لطافت کے ساتھ ۔زمانہ ¿ طالب علمی میں ایک مرتبہ حضرت کی مجلس میں شرکت کا موقع ملا اور بھی کئی اساتذے تشریف فرماتھے ۔بات کسی عربی ”فعل“کے باب کی چل رہی تھی ۔اتنے میں علامہ جمال صاحب (استاذ دارالعلوم دیوبند)کی آمد ہوئی ۔حضرت نے بلاساختہ فرمایا:یہ آیا جمال،یہ بتائے گا ۔اس وقت تو میری ہنسی نکل گئی ۔بڑی مشکل سے ضبط کرپایا لیکن یہ جملہ طنزیہ تھا یا مزاحیہ ،فیصلہ میرے لیے بڑادشوار تھا۔خیر اساتذہ اور حاضرین مجلس خوب خوب محظوظ ہوئے ۔وفات سے چند ماہ قبل جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا :حضرت! طبیعت کیسی ہے؟فرمانے لگے: بھئی بس ٹھیک ہے،اب میں تاج تغزل کا آبدار موتی تو رہا نہیں ۔مجھے ہنسی بھی آئی،تعجب بھی ہوا اور رشک بھی آیا۔تعجب اس کا کہ مجھ جیسے ایک ادنی شاگرد ہی کے الفاظ سے انھوں نے خیریت بتائی جو انھیں یاد تھے اور رشک اس لیے کہ اس نام ”’تاج تغزل کا آبدار موتی“سے میں نے حضرت کی ذات وصفات پر اپنی آڑی ترچھی لکیروں کا طومارجمع کیا تھا جسے حضرت نے پہلے بھی پسند فرمایا تھا اور اب بھی اپنی اداسے محبت وشفقت کا اظہار فرمارہے تھے۔
گزشتہ مارچ 2017میں میرا دیوبند جانا ہوا ۔راستہ چلتے مولانا اشتیاق احمد قاسمی(استاذ دارالعلوم دیوبند)سے ملاقات ہوگئی۔مولانا ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ کلیات کاشف شائع ہوگئی ہے اور حضرت الاستاذ کی نگرانی میں انھوں نے ہی مرتب کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ حضرت نے اپنی مجلس میں کئی بات تمھیں یاد کیا ہے۔اس لیے آئے ہوتو ملاقات ضرور کرلینا۔یہ میر ے لیے شرف کی بات تھی۔دراصل حضرت چاہتے تھے کہ کلیات پر میں بھی کچھ تحریرکروں۔بہر کیف میں خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت نے انتہائی شفقت ومحبت سے نوازا۔چائے پلائی،تقریباً آدھے گھنٹے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔دہلی ،جے این یو کے ماحول اور اس کے دیگر جہات پر گفتگو ہوتی رہی۔میں نے کہا :حضرت!ملک کے معروف ادبی رسائل میں کلیات پر تبصرے آنے چاہئیں ۔حضرت نے تائید کی۔دراصل یہ مجموعہ حضرت مولانا کے استاذسخن مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمیؒ کا مجموعہ ¿ کلام ہے جو ایک مدت سے حضرت نے سنبھال رکھا تھا۔آخر میں مولانا اشتیاق صاحب کے تعاون سے اسے شائع کرسکے۔خیر استاذ محترم نے اپنی خوب صورت موتی جیسی تحریر سے دعا ودستخط کے ساتھ ایک نسخہ عطا کیا اور کچھ مزید نسخے برائے تبصرہ بھی دیے ۔میں نے انھیں ماہنامہ”آج کل“نئی دہلی اورماہنامہ ”اردو دنیا“نئی دہلی جاکر ان کے مدیران کے حوالے کیا۔حسن اتفاق کہیے ،اردو دنیا والے نے اس پر تبصرہ لکھنے کی ذمہ داری میرے ہی سپرد کر دی ۔میں نے خلاف معمول چند دنوں بعد ہی تبصرہ تحریر کرکے اردو دنیا کو ارسال کر دیا۔تبصرہ اب تک اپنے نمبر کا منتظرہے ۔افسوس کہ حضرت الاستاذ کی نظر کرم سے یہ تبصرہ محروم رہا۔
چلتے چلتے میں نے انھیں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ عنقریب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کا اشتہار آنے والا ہے۔آپ ”خریداری ¿کتب“کے کالم کے تحت کتاب جمع فرمادیں ۔اگر منظور ہوگئی توطباعت پر آیا صرفہ واپس آجائے گا۔انھوں نے آمادگی کا اظہار کیا۔مئی کے مہینے میں جب اشتہار آیا تو میں نے انھیں اطلاع دی اور مولانا اشتیاق صاحب کو بھی آگاہ کیا ۔اتفاق سے وہ کہیں کے لیے آمادہ ¿ سفر تھے اس لیے کئی بار حضرت الاستاذ سے بذریعہ موبائل گفتگو کا موقع ہاتھ آیا۔حضرت کو سمجھنے میں کچھ دشواری ہوئی تو میں نے فارم ڈاﺅن لوڈ کر کے انھیں ارسال کر دیاتھا۔بروزبدھ 17مئی2017کی شام چھ بجے استاذ محترم کا فون آیا۔کہنے لگے:بیٹے جیسا تم نے کہا تھا وہ میں نے انٹرنیٹ سے نکلوالیا ہے۔مولوی اشتیاق ان دنوں سفرپر ہیں ۔وہ آجائیں تو طے کرلیں گے کہ کس کے نام سے فارم پُر کیا جائے ۔میں نے عرض کیا کہ چو ںکہ مرتب کی جگہ مولانا اشتیاق صاحب کا نام ہے اس لیے ان ہی کے نام سے فارم پر کیا جائے گا۔بقیہ کتاب کی منظوری کے بعد رقم اپنی سابقہ جگہ پر چلی جائے گی ۔حضرت مطمئن اور خوش ہوئے اور دعاﺅں سے نوازا۔ اللہ کے سواکوئی عالم الغیب نہیں۔کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوگی اور صرف تین روز کے بعد ہی حضرت الاستاذ ہمیشہ کے لیے مجھ جیسے ہزاروں معنوی اولاد کو یتیم کر جائیں گے۔20مئی 2017کو علی الصباح استاذ ِ محترم اپنے مالک ِ حقیقی سے جا ملے۔ا للہ باقی،سب فانی۔مجھے بڑا دھچکا لگا۔اپنے رنج وغم کے اظہار کے لیے میرے پاس چند ٹیڑھے میڑھے الفاظ کے سوا کچھ نہیں ۔یہ خاکہ یا مضمون نہیں بلکہ اسے میرے غم کے بوجھ کو ہلکا کر نے کا ایک وسیلہ چاہیے۔ان کے سایہ ¿ عاطفت سے محرومی ضرور ہوگئی ہے لیکن ان کی باتیں ،ملاقاتیں اور البیلی ادائیں ہمیشہ یاد رہیں گی اور بطور خاص ان کی گفتگو کی مٹھاس اِس وقت بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے اور اس کی شیرینی آگے بھی محسوس ہوتی رہے گی۔
میں ان سے ایک باضابطہ انٹرویو بھی کرنا چاہتا تھا۔حضرت نے ہامی بھی بھرلی تھی لیکناب یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہو سکے گی ۔
رمضان المبارک میں پھر دیوبند جانا ہوا ۔حضرت کی خدمت میں پھر حاضر ی ہوئی لیکن ان کی بیٹھک میں نہیں ،مزار قاسمی میں۔سلام کیا اور گفتگو کے بغیر واپس آگیا۔
اللہ ہم سب کو ان کا نعم البدل عطا کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
(کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسیٹی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں )

160, Periyar Hostel JNU New Delhi 110067
faqasmijnu@gmail.com/9718921072