پھولوں کا جنازہ

ڈاکٹر زین شمسی
’ہم بھارت کے 70 ویں یوم آزادی میں 70 بچوں کی لاشیں لے کر داخل ہو رہے ہیں۔‘
اگست میں تو بچے مرتے ہی ہیں۔ یہ تو عام بات ہے۔ اس سے پہلے بھی بچے مرے ، ڈاٹا دیکھئے ، 2016اور 2015میں اسی ماہ بالترتیب 22:22بچے مرے اس مرتبہ تھوڑا زیادہ ہو گئے ۔ ایسا ہی یا اسی طرح کا بیان ایک وزیر دے رہا ہے۔ انسان کے بچوں کے لیے ایک انسان دے رہا ہے اور وہ بھی ایسا انسان جس کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ اسپتالوں میں بیمار لوگ صحت یاب ہو کر باہر اپنے گھر واپس جا سکیں۔ واقعہ کی تفصیل میں جانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ مسلسل دو دن سے گورکھپور کے ایک ایسے اسپتال میں بچوں کی موت ہو رہی ہے ، جہاں ہر طرح کی سہولت فراہم کئے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور یہ اسپتال گردو نواح ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک نیپال کے مریضوں کو بھی زندگی دینے کا کام کرتا رہا ہے۔ اسی اسپتال میں اب تک 70والدین کے آنکھوں کے تارے عالم ارواح میں گم ہو گئے ہیں اور مرکزی اور ریاستی انتظامیہ کو یہ اموات معمولی ہی نہیں بلکہ روٹین کا حصہ لگ رہی ہے۔ تاہم اس اموات نے اس بے روح میڈیا تک کو تلملا دیا جسے مودی اور یوگی کی کھانسی بھی ٹی آر پی کا ذریعہ معلوم پڑتی تھی۔ یہ انسانی مردہ ضمیر کاایک ایسا المیہ ہے کہ اس پر جتنا بھی آنسو بہا یا جائے کم ہے ،لیکن سیاست کی فضا جب زہریلی گیس سے آلودہ کی جانے لگے گی تو زندگی کاآکسیجن کم پڑنے لگتا ہے۔جی ہاں اموات اسپتال میں آکسیجن کی کمی سے ہوئی ہے جو نہ صرف انتظامی لاپروائی کی دلیل ہے ،بلکہ شعبہ صحت میں ایک گھوٹالہ کا واضح اشارہ ہے۔
یوں تو گورکھپور میں اس جان لیوا دماغی بخار یا جاپانی بخار کا ایک ایسا بھوت گھومتا ہے جو کسی بھی طرح شہر کو چھوڑ کر جانے کا نام نہیں لےرہا ہے ، اور اس بات سے ایک شخص بخوبی آگاہ ہے اور وہ ہے آدتیہ ناتھ یوگی۔ وزیر اعلیٰ بننے سے قبل بھی وہ اس مرض کے خلاف مہم چلا تے رہے ہیں اور کوشش کرتے رہےہیں کہ اس مرض سے گورکھپور کو نجات مل سکے ،لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے ان سے امید تھی کہ جب وہ وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں تو اس مہم کا خاص دھیان رکھیں گے اور دیکھئےیہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بخار تو بخار ،بخار کو قابو میں رکھنے کے لیے مہیا کیے گئے آکسیجن سے بھی اسپتال محروم ہو چکا ہے۔ اب حکام اور انتظامیہ اس لاپروائی کی لیپا پوتی میں مشغول ہیں ، اس المناک حادثہ کے بعد جو رپورٹیں آ رہی ہے وہ تضادات سے بھر پور ہیں۔ ایک رپورٹ کہتی ہے کہ آکسیجن نہیں تھا ایک رپورٹ کہتی ہے کہ آکسیجن بھرپور مقدار میں تھا۔ گویا منہ چھپانے کے لیے رپورٹ کو بدلنے کی بھی تیاری ہے اور جیسا کہ ہوتا رہا کہ غلطی کرنے والے عیش کرتےہیں اور گاج یا تو ڈی ایم پر گرتی ہے یا پھر پرنسپل پر ۔ یہاں بھی ان دونوں پر گرا دی گئی اور وزیر صحت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ابھی کچھ دن قبل ہی اندور میں 17 مریضوں کی موت ہوئی تھی اور وہ بھی آکسیجن کے ختم ہو جانے سے ، اور اس میں بھی نہ کسی وزیر کا کچھ بگڑا اور نہ ہی اصلی وجوہات کا مداوا کیا گیا۔ اس معاملہ کو بھی کسی بڑے معاملہ کو آگے کر کے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ پردھان سیوک نتیش کے استعفیٰ کے دو منٹ بعد ٹوئیٹ کرنے میں مہارت دکھا چکے ہیں ،لیکن اتنے بڑے اجتماعی سانحہ پر انگلیاں جم سی گئی ہیں۔ ہاں مدرسوں میں وندے ماترم کی مانیٹرنگ کرنے والے سی ایم یوگی کو اپنے اس کام کو تھوڑی دیر کے لیے روکنا پڑا اور روایتی ہدایات جاری کرنی پڑی کہ قصوروار کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
ایان کی سمندی ساحل کی موت پر غمزدہ پی ایم اور ان کے بھکت خون کے آنسو رو سکتے ہیں۔ پاکستان کے ملٹری اسکولوں میں مارے گئے بچوں کے لیے اظہار تعزیت میں کوئی کمی نہیں ، اسرائیل میں مارے گئے بچے کے والدین کو دلاسہ دینے میں کوئی کنجوسی نہ دکھانے والے بھارت کے وزرا ، نیتا اور اقتدار کے لالچی لوگو ں کے لیےگورکھپور کے اس اندوہناک واقعہ کے لیے دو بول نہیں ہیں۔ یہ بازاری سیاست کی فضا میں اخلاقی آکسیجن کے فقدان کی واضح علامت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اگر دیکھا جائے تو اسپتال انتظامیہ جس ایجنسی سے آکسیجن سلینڈر خریدتی ہے ، اسے 65لاکھ روپے ادا نہیں کر پاتی ہے اور ایجنسی کے لیے بھی یہ اتنی رقم نہیں تھی کہ اس کے لیے اسپتال کو آکسیجن کی سپلائی بند کر دی جائے اور وہ بھی تب جب سانحہ سے محض دو دن قبل یوگی نے اسی اسپتال یعنی رادھو داس میڈیکل کالج کا دورہ کیا تھا۔ یہ کیسا دورہ تھا کہ وہ یہ جان ہی نہیں پائے کہ اسپتال میں آکسیجن کا شدید بحران ہے۔ اسپتال انتظامیہ نے بھی یوگی کو اس بات کی جانکاری دینا ضروری نہیں سمجھا کہ اسپتال کے لیے ضروری آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ جبکہ آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی نے مقامی ڈی ایم کو مطلع کیا تھا کہ بقایہ ادائیگی نہیں ہوئی تو وہ بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ڈی ایم نے سی ایم کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا ہوگا ۔ یہ بات حلق سے اترتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔30بچوں کی موت 36گھنٹوں میں ہوئی۔ اس دوران بھی انتظامیہ اگر چاق و چوبند ہوجاتا تب بھی اتنی اموات نہیں ہو پاتیں۔ وہ تواحسان مانئے ڈاکٹر کفیل کا جنہوں نے اپنی کوشش سے اپنے پیسوں سے کچھ سلنڈر کا انتظام کیا ، ورنہ اب تک سو سے زائد بچوں کی خبر پر ہم سب رو رہے ہوتے، لیکن یہ سیاسی المیہ ہی ہے کہ اس ڈاکٹر کے خلاف بھکتوں نے یہ مہم چلائی کہ وہ پرائیویٹ پریکٹس کرتا ہے اور اپنے پرائیوٹ کلینک میں اسپتال کا آکسیجن لے جاتا ہے۔ واقعی کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اتنے معصوم بچوں کی موت کو بھی فرقہ واریت کی نظر دسے دیکھا جا رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کشمیر میں امرناتھ یاتریوں کو بچاتے ہوئے ٹرک ڈرائیور سلیم کو بدنام کیا گیا، اسی طرح کفیل کو نشانہ پر لیا گیااور یہاں تک کے انہیں اپنے عہدہ سے ہٹا دیا گیااور سب سے خطرناک اور خوفناک بات یہ دیکھنے کو ملی کہ ٹائمس نو کی اینکر کے سامنے جب اس معاملہ کو اٹھایا گیا تو اس نے کہا ہم مدرسوں میں وندے ماترم پڑھنے پر بحث کر رہے ہیں اور آپ بچوں کی اموات کی بات کر کے اتنے اہم ایشو سے دھیان ہٹانا چاہتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب دیش ایک متعصب ذہنیت کے فروغ میں لگا ہوا ہے ۔ جب دیش اپنے تمام ایشوز کو مسلم مخالف بنانے میں سنجیدگی سے مصروف ہے تو ایسے میں غریبوں کے بچوں کی اموات کوئی معنی بھی نہیں رکھتی۔ تاہم آپ سب کو یا د ہوگا کہ 2014میں پردھان سیوک بننے اور 2017میں یوپی الیکشن کے دوران مودی نے کہا تھا کہ ریاست کو جاپانی بخار سے نجات دلانا بی جے پی سرکار کی ترجیح ہوگی ، تو پھر وعدے اور ارادے کہاں گئے؟ عوام کو بے وقوف بنایئے ،لیکن کم از کم اس کی جان سے تو مت کھیلئے۔ یہ معصوم بچے ہیں ، یہ ایسی کلیاں ہیں جو پھول بننے سے پہلے ضائع ہو رہی ہیں۔ اسپتال میں علاج کے فقدان سے بے یار و مددگار مانجھی اپنی بیوی کی لاش تو ڈھو سکتا ہے ، لیکن یہ سب والدین جانتے ہیں کہ لاش کا وزن جتنا کم ہوتا ہے ، کاندھے کو وہی لاش سب سے زیادہ بھاری لگتی ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں