پندرہ اگست

ڈاکٹر حکیم مولانا محمد ادریس حبان رحیمی خانقاہ رحیمی بنگلور

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
پھر بھی ہم سے یہ کہتے ہیں اہلِ وطن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
مسلمان کی زندگی کاہرلمحہ اورہرموقع( جو قرآن وسنت کے مطابق )عبادت ہے ، مسلمان کاسونا،جاگنا، اٹھنا اوربیٹھنا،دوستی، دشمنی، اگراللہ کے لئے ہوتویہ بھی عبادت ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے عبادات اور احکامات اور زندگی کے اصول امت کوعطا فرمائے اوربتایا کہ تمہاراہرکام عبادت بن سکتاہے بشرطیکہ قرآن وسنت کے اصول پرہو، جہاں مسلمان کوپنج وقتہ نمازپڑھنے کی تاکیدفرمائی اوررمضان المبارک کے روزہ کا حکم دیا مالدارپرزکوٰۃ اورحج کوفرض قرار دیا، وہیں لوگوں کواس بات کی تعلیم دی کہ اپنے ملک اورقوم کی خدمت کافریضہ انجام دیں ، ملک اورقوم کی خدمت حضرت محمد رسول اللہﷺکی تعلیم کے مطابق ہوتویہ بھی عبادت ہے ۔
دوآنکھوں پرجہنم کی آگ حرام ہے
حدیث پاک کے مطابق دوآنکھیں ایسی ہیں کہ جن پرجہنم کی آگ حرام ہے ایک وہ آنکھ جواللہ کے ڈرسے روئے اللہ نے اس آنکھ پرجہنم کی آگ کوحرام کردیاہے اسی لئے صحابہ کرام (جب اللہ کے خوف سے روتے تھے) توان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے تھے وہ ان آنسوؤں کواپنے چہرے پرمل لیاکرتے تھے۔ حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا وہ قطرہ جواللہ کے خوف سے آنکھ سے نکلے جہاں بھی لگے گا جہنم کی آگ اس پرحرام ہوجائے گی ۔
معلوم ہوا خوف سے رونااور خوف سے آنکھوں میں آنسوؤں کاآجانا اللہ کوبہت زیادہ پسندہے، دوسری بات یہ فرمائی کہ اس آنکھ پر بھی جہنم کی آگ حرام ہے جوسرحداورملک کی حفاظت کرے ، ایک آدمی تہجد کی نماز میں اللہ کے سامنے گڑ گڑا رہا ہے، فریادکررہاہے ،رورہاہے ، اوردوسرا آدمی اپنے بیوی بچوں کوچھوڑکر سرحد کی حفاظت کررہاہے علماء فرماتے ہیں کہ اس تہجدپڑھنے والے کے مقابلے میں سرحدکی حفاظت کرنے والاہزاروں درجے فضیلت رکھتا ہے ،حضور اکرم ﷺنے ہمیں اپنے ملک کی حفاظت کاسبق دیاہے کہ آدمی نمازاورعبادت کے ساتھ وطن کی محبت بھی اپنے دل میں پیدا کرے، آج ساری دنیامیں مغربی مفادات کی حفاظت ہورہی ہے ،عراق کے مقابلے میں بتیس ملک آگئے اور دنیابھرکے مسلمانوں کو ناراض کردیا، ایک ملک نے دوسرے ملک پر حملہ کیا اوراس ملک کودس سال ہوگئے سزابھگت رہا ہے ، دنیاکی بڑی طاقت چاہتی ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں اورپوری دنیا میں جنگ ہوتی رہے اور ہم اپنی سیاست اورقوت کامظاہرہ کرتے رہیں اسلئے آج اپنے مذہبی فرائض کے ساتھ ضروری ہے کہ امت سماجی اورمعاشرتی معاملہ میں بھی غور کرے ،اوراپنے ملک کی حفاظت کے لئے جوکرناچاہئے وہ کرے ، ہندوستان کوآزادہوئے تقریباً 53سال ہوگئے ہیں اورابھی تک مسلمان اپناحق حاصل نہیں کرسکا، یہ اگست کامہینہ ہے، مساجدمیں جمعہ کے دن دینی بات ہوتی ہے ،قوم اورسماج کے متعلق بھی وعظ ونصیحت ہوتی ہے۔
15اگست کوہندوستان کی آزادی کاجشن منایاجاتاہے ،ملک کسی مکان کا نام نہیں ، ملک اللہ کاہے قرآن میں ارشاد باری ہے’’جوکچھ بھی زمین اورآسمان کے اندراور باہرہے سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے‘‘ہندوستان کے مسلمانوں نے اس ملک کی ترقی کے لئے بہت کچھ کیاہے 1857ء کے غدر سے لیکرآج تک اس ملک کی تعمیراورترقی میں مسلمان اہم رول ادا کرتے رہے ہیں ۔
شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کافتویٰ
شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے دیکھاکہ انگریزمسلمانوں کی بیخ کنی پراتر گیا ہے اورمساجدومدارس کونقصان پہونچایاجارہا ہے ، اسلام کومٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، قرآن کے مقابلے میں بائبل کولایا جارہا ہے تواس وقت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے فتویٰ صادرفرمادیاکہ انگریزکے خلاف جہادکیاجائے اور اس کی حکومت کویہاں سے مٹادیاجائے ، بالکل ختم کردیاجائے ۔اس فتویٰ سے پہلے سرزمین کرناٹک کے سپوت حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ نے آزادی کاپرچم لہرایا اور سارے ہندوستان کی قوتوں کو دعوت دی اوران کو بتلادیاکہ ہم اس حال میں بھی انگریزکے خلاف لڑسکتے ہیں ، حضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ نے آخری سانس تک اسلام دشمن قوتوں کوبھگانے اور اپنے ملک سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کازور لگایا۔
اس کے بعدملک کے کونے کونے میں بہت سے حالات اورانقلاب آئے ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فتویٰ جاری کیا۔ پھر حضرت سید اسماعیل شہیدؒ اورپھرحضرت مولانامحمودالحسن شیخ الہندؒ کی ریشمی رومال تحریک اسی انداز سے چلی یہاں تک کہ رنگون میں آپ کوانگریزوں نے گرفتار کیااور مالٹا کی جیل میں تقریباً ساڑھے تین سال تک رکھا، بے انتہاآپ کو اذیتیں دی گئیں ،حضرت شیخ الہندؒ کا انتقال ڈاکٹرمختارانصاری کے گھردہلی میں ہوا،جب آپ کونہلایاجانے لگااورآپ کی پیٹھ اور کمر کو دیکھا گیا تو آپ کی کمرپرگوشت نہیں تھا، زخموں کے داغ تھے بس ہڈیوں کاڈھانچہ تھا، ڈاکٹر مختار انصاری نے روکر کہاکہ حضرت کو مالٹاکی جیل میں انگریزوں نے اتنی تکلیف دی کہ آپ کی پیٹھ کو داغاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ کی پیٹھ کا گوشت پگھل گیا اور کمرہڈیوں کا ڈھانچہ بن کررہ گئی ، لیکن آپ نے آزادی کیلئے جوفتویٰ دیاتھااورآزادی کیلئے جو تحریک چلائی تھی اس سے رجوع نہیں کیا تین سال بعد حضرت کومالٹاکی جیل سے رہائی ملی ۔ حضرت شیخ الہندؒ ہندوستان واپس آئے فرمایا ہم نے جیل میں رہ کردو باتیں سیکھی ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں میں حددرجہ اتفاق واتحادہوناچاہئے، مسلمانوں کے اندر جونفاق اورکدورت ہے ،آپسی رنجش ہے اس کوختم کرناچاہئے، ایک اورنیک ہوکر ملک وملت کے لئے کام کرناچاہئے ،دوسرے ہندوستان بھرمیں قرآن کریم کے مکاتب اورمدارس قائم کئے جانے چاہئیں ۔تاریخ میں ہے کہ انگریزحکومت نے ہندوستان کے تقریباً 80ہزارمدرسوں کوبند کرادیا، صرف دہلی کے اطراف میں دس ہزارمدرسے تھے ، ان تمام کو انگریز حکومت نے بندکرادیااورقرآن کریم کے بہت سے نسخے دریابردکردیئے، صرف تین سال کے قلیل عرصہ میں 3لاکھ قرآن کریم کے نسخے جلا کر خاکستر کردےئے۔
حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں آزادی کی جنگ بڑے زوروشور سے جاری تھی یہ کوئی افسانہ نہیں انگریزحکومت صرف اور صرف مسلمانوں کی دشمن تھی کیونکہ ایک ہزارسال سے زائد مسلمانوں نے حکومت کی تھی اورانگریزنے مسلمانوں ہی سے حکومت چھینی تھی اورستاون ہزارعلماء کرام کوپھانسی پرلٹکایاتھا۔
لکھاہے کہ دہلی سے لاہور تک ہائی وے پر کوئی درخت ایسانہیں تھاجس پرکسی مسلمان کی لاش نہ لٹکی ہو،جن کے سرپرٹوپی اورچہرے پرداڑھی دیکھی جاتی اسی کوپکڑلیا جاتا اور اس پر الزام لگایاجاتااور جیل بھیج دیاجاتا، جنگ آزادی میں تقریباً دس لاکھ سے زائد مسلمان بچوں کو قتل کیاگیا، جس طرح مولی اورگاجرکترتے ہیں اسی طرح دوسال اور تین سال کے بچوں کو قتل کرکے پھینک دیاجاتاکہ یہ مسلمان کابچہ ہے بڑا ہوکر یہ بھی ہمارے ساتھ غداری کرے گا۔
مظالم کی دل خراش داستان
مولانااسیرادرویؒ نے لکھاہے کہ لال قلعہ کے سامنے توپ نصب کردی گئی تھی، لوگوں کولایاجاتااورتوپ میں باندھ دیاجاتا، اور توپ کوداغاجاتاتوپرخچے اڑ جاتے، قیمہ قیمہ ہوجاتاسر دور جاگرتاتھا، ایسے وحشیانہ مظالم دوچارکے ساتھ نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ ہوئے ہیں جوپڑھے لکھے لوگ تھے ،علماء تھے ، دانشوران تھے ایسے لوگوں کوکالاپانی ،انڈومان بھیجاگیا،وہ حضرات جواپنے نوکروں کے ساتھ عیش وآرام کی زندگی گذاررہے تھے ایسے حضرات کوکالا پانی بھیجا گیا اوران سے مشقت لی گئی ، جیلوں میں ان سے آٹاپسوایاگیا،چکی چلوائی گئی اور نالیاں صاف کرائی گئیں ، ایسی حقیر خدمت مسلمانوں سے لی گئی یہاں تک کہ بڑے بڑے جیدعلماء ، نواب، اپنے وقت کے مالدار ترین لوگ جوتحریک آزادی میں شامل تھے انگریزوں نے ان کوکالا پانی بھجوادیا۔
مولاناحسرت موہانیؒ کوایسی حالت میں دیکھاگیا کہ وہ گلی کوچوں کی نالی صاف کررہے تھے ،یہ کام دیاتھاانگریزوں نے، یہ ایسی داستان الم ہے کہ جب سنتے ہیں تو دل رونے لگتاہے اورجسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کبھی سوچتے ہیں کہ ہمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں اس ملک کے لئے ۔
مسلمان ملک میں برابرکاحقدارہے
نوجوان نسل کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کے لئے کتنا خون دیا ہے، نوجوان سوچتے ہیں کہ یہ ملک ہندؤں کاہے حکومت ہندؤں کی ہے لہٰذا ان کے سامنے دب کررہنا چاہئے، یہ ذہن مسلم نوجوانوں کابن رہاہے، نوجوانوں کوچاہئے کہ وہ اپنے اندر احساس کمتری کے بجائے احساس برتری پیدا کریں، یہ بات سوچ لیں کہ جس طرح سے اس ملک پرایک ہندوکاحق ہے ، ایک عیسائی کاحق ہے ،ایک سکھ کاحق ہے اسی طرح مسلمان بھی اس ملک میں برابرکا حقدارہے ، مسلمانوں نے ملک کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں،اپنی جان ، مال اورعزت وآبروکوقربان کیاہے جب ملک تقسیم ہوامسلمانوں کوجگہ جگہ خانہ جنگی کے ذریعہ قتل کیاگیا، ’’جب امرتسر جل رہاتھا‘‘ نامی کتاب پڑھیں توآپ کومعلوم ہوگاکہ 90لاکھ مسلمانوں کواس زمانے میں شہید کیا گیا محض اسلئے کہ یہ مسلمان تھے ، مسلمانوں نے اتنی بڑی قربانی دی مگرافسوس کہ ہمارے نوجوانوں کومعلوم نہیں کہ اس ملک کے لئے ہم نے بہت کچھ قربان کیاہے، ہمارے بزرگوں نے اس ملک کی آزادی کی خاطرسوسال تک نسل در نسل اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیاہے۔
مولاناعنایت علیؒ اوردوسرے علماء پرمظالم
مولاناعنایت علی صاحبؒ کلکتہ کے رہنے والے تھے ، بہت بڑے نواب تھے ، انگریز حکومت نے عین عید کے دن فجرکی نمازکے بعدان کواوران کے پورے گھر والوں کوحویلی سے نکال کرباہرکردیا، ان کے لاکھوں کروڑوں روپیوں کے سامان میں سے ایک سوئی تک اٹھانے نہیں دی اور حویلی پربلڈوزر چلوادیا، یعنی ایسے لوگ جوکروڑپتی ارب پتی تھے انگریزوں کے ظلم سے دانے دانے کے محتاج ہوگئے دوچار واقعات ایسے نہیں ہزاروں واقعات ہیں، جس مسلمان کودیکھا جاتاکہ یہ خوشحال ہے اس کوپکڑتے اوربندکردیتے اورپھران کے بیوی بچوں پرظلم شروع کردیتے ، یہاں تک کہ ان کی جائیدادکو قرق کرلیاجاتااورپھرجیل میں ڈال دیاجاتا، ایساایک دوسال نہیں بلکہ نوّے سال تک یہ سلسلہ جاری رہا، ہمارے علماء اور رہنماؤں نے اس ملک کے لئے برابرقربانی دی، آپ کوتعجب ہوگا لاہورکی بادشاہی مسجدجہاں آج علامہ اقبال کامزارہے اس کے پیچھے کافی جگہ تھی ، ایک انگریزنے لکھاہے کہ میرے سامنے چالیس علماء کوقیدی بناکر لایا گیا اور ایک بہت بڑاکڑھاؤکہ جس میں تیل پک رہاتھاایک عالم کواس میں ڈال دیاجاتا اوردوسرے عالم سے کہاجاتا کہ دیکھوآزادی دلانے والوں کے ساتھ مت رہو ورنہ یہی حال ہوگا،اس نے لکھاہے کہ چالیس علماء جل بھن کرراکھ ہوگئے لیکن کسی نے آزادی سے انحراف نہیں کیا، اب حالات ایسے ہیں ہمارے ملک کے اندر کہ مسلمانوں کی قربانی کوپس پشت ڈال دیاگیا، جو نصاب ہمارے اسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے وہی مسلم بچے جانتے ہیں، ضرورت ہے اس بات کی کہ آج اپنے مجاہدین اور شہداء کی ہسٹری پڑھیں، ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تاکہ معلوم ہو کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے کس طرح سامراجی طاقتوں سے لوہا لیا۔
حضرت مولاناحسین احمدمدنیؒ
شملہ میں جلسہ ہورہاتھا انگریزوائسرائے تقریرمیں کہہ رہاتھا کہ کون ہے جو ہمیں اس ملک سے نکال دے؟ اس کی بات پرسب خاموش تھے ،شیخ الاسلام مولانامدنی ؒ جو دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے ، جنہوں نے چودہ سال تک مسجدنبوی میں درس دیا، کھڑے ہوگئے اورسینے کے بٹن کھول کرکہنے لگے کہ اوبندر! تجھے اور تیری قوم کو ہندوستان سے ہم نکالیں گے ، اس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیے میں آپ سے بات نہیں کررہا ہوں۔
علماء دیوبند ملک کی تقسیم کے خلاف تھے
یہ ہمارے علماء کی قربانی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کوجانبازاوربے باک بنایاتھا ، سوائے خداکے دنیاکی کسی بھی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے اورہندوستان کوآزادی ہمارے علماء اورعوام خصوصاً مسلم عوام نے دلائی ہے ،لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کاآخری گورنرتھا اس کومعلوم تھا اگر ہندوستان تقسیم نہیں ہوا توآئندہ چل کرپھرمسلمان اس ملک کے بادشاہ اور حکمراں بنیں گے ،اس لئے برٹش حکومت نے پالیسی بنائی کہ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں تاکہ پھر ہندوستان میں حکومت مسلمانوں کے ہاتھ نہ آئے ، علماء دیوبندنے ہمیشہ ملک کوتقسیم کرنے کی مخالفت کی اورکہاکہ ہم ملک کی تقسیم نہیں چاہتے لیکن محمدعلی جناح کوخودانگریزاورفتنہ پرور عناصر نے ابھارااورکہاکہ تم ملک کا ایک حصہ لے لواوراپنا الگ ملک بنالو، حضرت مولانا ابوالکلام آزادجوہندوستان کے سب سے پہلے وزیر تعلیم تھے انہوں نے جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکرکہاکہ اے میرے پیارے بھائیو! آج آپ لوگ پاکستان جارہے ہیں ایک وقت ایساآئے گاکہ وہاں آپ کی قدرنہیں ہوگی اورآپ اور آپ کی نسلیں ہندوستان کویاد کرکے روئیں گی ، آج وہاں ایساہی ہورہا ہے ۔الحمدللہ چھ کروڑ مسلمان ہندوستان میں رہ گئے تھے، علماء نے گاؤں گاؤں جاکرلوگوں کوروکا کہ آپ اس ملک میں رہیں انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا،مستقبل اچھاہے اس وقت یہ عالم تھاکہ ہندوستان کی پولیس باضابطہ آرایس ایس( جن سنگھ) کا ساتھ دے رہی تھی، ایک ایک گاؤں میں ایک ایک ہزارپولیس سپاہی داخل ہوتے اورباشندوں کوکہاجاتاکہ ایک گھنٹے کاوقت دیا جارہاہے اس کے اندر گاؤں خالی کردو (یہ توجنوب کاعلاقہ ہے یہاں تو معلوم نہیں ہوا) چنانچہ جوکچھ سامان سمیٹ سکے اورجو بھی بن پڑالیااور نکل گئے۔پولیس جانوروں کی طرح ہنکاکر گاؤں سے نکال دیتی جب وہ لوگ پاکستان کی طرف سفرکرتے تو راستے میں ان کوسکھ لوگ قتل کردیتے یہاں تک کہ ایک ہزار آدمیوں میں سے بمشکل پچاس آدمی پاکستان پہونچتے ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ یہ ملک ہماراہے ، اس ملک کے لئے ہم نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، ملک کوہم نے بنایااورسنواراہے اورہمارے بزرگوں نے آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیارکیاتھا ، بہرحال وہ ساری باتیں بیان کرنے کاوقت نہیں ہے لیکن اس سلسلے میں میں یہ ضرورعرض کروں گاکہ 15اگست کو ہندوستان کی آزادی کاجشن منایاجاتاہے اورہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں آزادی مل گئی حقیقت یہ ہے کہ ابھی ہندوستانی مسلمانوں کوان کے جائزاورضروری حقوق نہیں مل سکے ہیں اس کے لئے حکومت میں مسلمان حصہ داری چاہتا ہے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں