مولانا سید احمد ومیض ندوی
اس وقت ملک بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کے حالات پیش آرہے ہیں وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں بلکہ ملک کے ہر انصاف پسند سیکولر باشندے کی نیند اڑا دینے کے لیے کافی ہیں، ایک طرف ہجوم کے تشدد کے نتیجہ میں درجنوں بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسہ جاری ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص ، اسلامی روایات اور دین وشریعت سے محروم کرنے کے لیے ہر دن ایک نیا مطالبہ اور ایک نیا حربہ سامنے آتا ہے، گذشتہ کئی مہینوں تک تین طلاق کا مسئلہ چھایا رہا اور مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے مسلمانوں کو عجیب خوف وہراس کی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا، بھاجپائی قائدین کی جانب سے طلاق ثلاثہ کے اسلامی قانون کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہے، سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینج نے تین طلاق تعدد ازدواج اور حلالہ کی آئینی وقانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر ۹ دنوں تک سماعت جاری رکھی، جس کے دوران مسلمانوں پر خوف کا ماحول طاری رہا، سمجھا جارہا تھا کہ شریعت میں مداخلت کی نوعیت کا کوئی خطرناک فیصلہ صادر ہوگا، لیکن سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا، اب یہ فیصلہ کسی بھی وقت صادر ہوسکتا ہے ۔
مسلمان ایک مسئلہ سے نمٹنے نہیں پاتے کہ دوسرا ایشو شروع کردیا جاتا ہے اور سب کا مقصود مسلمانوں کو ان کے دین وشریعت اور عقیدے کے تحفظ کے بارے میں ہمیشہ خوف میں مبتلا رکھنا ہے، اِدھر جب سے یوپی میں یوگی سرکار آئی ہے دینی مدارس کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والا محاذ کھول دیا گیا ہے، مدارس کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ جشن آزادی کے پروگرام کی ویڈیو گرافی کریں، گذشتہ دنوں یوپی حکومت نے مدارس کو ایک ایسی نوٹس بھیجی تھی جس میں دینی مدارس کی تالابندی کی بات کہی گئی تھی، اس نوٹس نے اہل مدارس کے درمیان ایک خوف کی لہر دوڑادی، سرکاری اسکولوں میں یوگا کے لزوم کے لیے فرقہ پرست جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں، گذشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ایک ایسی درخواست کو مسترد کردیا جس میں قومی یوگا پالیسی بنانے اور ملک بھر میں پہلی سے آٹھویں کلاس کے طلبہ کے لیے یوگا لازمی کرنے کی مانگ کی گئی ہے، مسلمانوں کی شریعت، ان کا مذہبی تشخص اوردینی مدارس فسطائی طاقتوں کو ہمیشہ کھٹکتے رہے ہیں، حتی کہ داڑھی رکھنے پر مسلم فوجیوں کی معطلی کی بھی آواز اٹھائی جارہی ہے۔
اس وقت جو تازہ ایشو سامنے آیا ہے وہ وندے ماترم کا مسئلہ ہے، ویسے وندے ماترم کا مسئلہ اس سے قبل بارہا اٹھتا رہا ہے، مدراس ہائی کورٹ کی جانب سے آئے فیصلہ نے اس مسئلہ کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے،مدراس ہائی کورٹ نے تامل ناڈو کے تمام اسکول اور کالج سمیت تمام تعلیمی اداروں میں وندے ماترم گایا جانے کی ہدایت دی،اس کے علاوہ اب ملک کے مختلف گوشوں سے فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے وندے ماترم کے لزوم کا مطالبہ کیا جارہا ہے، میرٹھ کے میونسپل کارپوریشن میں وندے ماترم نہ پڑھنے پر سات مسلم کونسلروں کو معطل کردیا گیا، اسی طرح مہاراشٹر اسمبلی میں حکمراں جماعت وندے ماترم کے حق میں قانون سازی کے لیے مصر ہے، بعض گوشوں سے اذان میں وندے ماترم کی شمولیت کاتک مطالبہ کیا جارہا ہے۔
وندے ماترم کا پس منظر
وندے ماترم کے معاملہ کو لیکر مسلمانوں کی حب الوطنی پر انگشت نمائی کا سلسلہ اگرچہ کافی عرصہ سے ہے لیکن اس مسئلہ کی تہ تک پہونچنے کے لیے اس گیت اور اس کے تخلیق کار کے پس منظر سے واقفیت ضروری ہے، جہاں تک اس کے تخلیق کار کی بات ہے تو ان کا نام بنکم چندر چٹرجی ہے، جنھوں نے آنند مٹھ نامی ناول لکھا ہے، اور اسی کا ایک حصہ وندے ماترم کا نغمہ بھی ہے، ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا تھا ،جب انگریزوں نے ’’خدا ملکہ کی حفاظت کرے‘‘ نغمے کو قومی نغمہ قرار دینے کی کوشش کی تھی تو انقلاب پسند ہندوستانیوں نے اسے یکسر مسترد کردیا تھا، اسی زمانہ میں انگریزی حکومت کے ایک وفادار ملازم بنکم چندر چٹر جی نے وندے ماترم کی تخلیق کی، چٹر جی کلکتہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے، اور انگریزی حکومت میں ڈسٹرکٹ جج کے عہدے پر فائز تھے، یہ تو تاریخ ہند سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ جنگ آزادی کے سورماؤں نے کبھی بھی انگریزی حکومت کی ملازمت نہیں کی، اور کسی نے اسے اپنایا بھی تھا، تو بہت جلد اس سے سبکدوش ہوکر جنگ آزادی کی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرلی، لیکن وندے ماترم کے تخلیق کار نہ صرف انگریزوں کی ملازمت کو اپنے لئے شرف سمجھتے تھے بلکہ انگریز حکومت کے وفادار اور آر ایس ایس کی طرح رضامندی کی آزادی کے قائل تھے، وہ کہتے تھے کہ انگریز حکومت ہماری مخلص ہے، ا گر وہ آزادی دے تو ہم لیں گے، اس کے لیے مسلح تحریک کی قطعی ضرورت نہیں ۔
آنند مٹھ ناول کیا ہے؟
وندے ماترم جس آنند مٹھ ناول کا حصہ ہے، آیئے ذرا اس کا سرسری جائزہ لیں، وندے ماترم کا نغمہ ۱۸۷۵ء میں لکھا گیا، لیکن ابتدا میں اسے کوئی شہرت نہ مل سکی، بلکہ وہ ایک عرصہ تک گوشۂ گمنامی میں پڑا رہا، اس نغمہ کو شہرت تب ملی جب اس کے تخلیق کار بنکم چٹر جی نے اسے اپنے ناول آنند مٹھ میں شامل کیا، یہ ناول بنیادی طور پر مغل حکمرانوں سے ہندؤوں کی جنگ کے موضوع پر ہے، یہ ایک مسلم مخالف ناول ہے جو فرضی کرداروں پر مشتمل ہے، اس کا مرکزی کردار بھوا نندنامی ایک برہمن سنیاسی ہے، جو ہندؤوں کو مغل حکمرانوں کے خلاف اُکساتا ہے، اس ناول کے کرداروں کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ناول نفرت اور فرقہ پرستی سے لبریز ہے، ناول کا وہ ا قتباس ملاحظہ فرمایئے، جس میں بھوا نند ایک دوسرے کردارجس کا نام مہندرہے سے کہتا ہے: ’’ہمارا مذہب، ہماری ذات، ہمارا وقار خطرے میں ہے اور جب تک اس ملک میں مسلمان رہیں گے ہم کبھی سراٹھا کر نہیں جی سکیں گے‘‘ مہندر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا تم تنہا مقابلہ کرو گے؟ بھوا نند کہتا ہے : ’’جب تین کروڑ آوازیں بلند ہوں گی اور دو کروڑ بازؤوں میں لہراتی تلواریں ہوں گی تو کیا تب بھی میری ماتا کمزور ہوگی،مہندر کو تب بھی اطمینان نہیں ہوتا تو وہ اسے لیکر آنند مٹھ مندر جاتا ہے جہاں درگا اور کالی کی مورتیوں کے سامنے اس کے جذبات برانگیختہ کرتا ہے، اور جوش دلاتا ہے،اس ناول کے ایک اور منظر میں ہندوؤں کو مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جو وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ہوئے آپس میں سوال کرتے ہیں کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم مسجدوں کو مسمار کرتے ہوئے ان مقامات پر مندر تعمیر کرنے میں کامیاب ہوں گے، نیز اس ناول سے انگریز اور ان کی حکومت سے وفاداری کا بھی خوب اظہار ہوتا ہے، چنانچہ ناول کا مرکزی کردار بھوا نند اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ اب ہماری جان ومال کو امان ملے گی، کیوں کہ مغل حکمرانوں کی جگہ پر انگریز آئے ہیں۔
آنند مٹھ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس ناول سے بنکم چندر چٹر جی کا مقصود ہندوستانی قومیت کو فروغ دینا نہیں تھا، بلکہ ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانا تھا، ناول کا ایک اقتباس یوں ہے : ’’جیوا نند ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے مندر کے دروازے پر کھڑا ہے، اور ماں کالی کے بھکتوں کو ترغیب دیتا ہے، ہم نے کئی مرتبہ مسلم حکومت کے گھونسلے توڑنے اور ان پر حملہ آوروں کو کھینچ کر ندی میں پھینک دینے اور خاکستر کرکے مادر وطن کو آزاد کرنے کی بات سوچی ہے، دوستواب وہ دن آگیا ہے جب بھوا نند مہندر کو آنند مٹھ لے جاکر جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے ترغیب دیتا ہے‘‘ مشہور تاریخ داں آرسی مجمدار کی صراحت کے مطابق آنند مٹھ کا بنیادی تصور ان سنیاسیوں یا بچوں کے تذکرہ پر ہے جنھوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنی زندگی کو مادرِ وطن کے لیے وقف کردیا تھا،اور یہ لوگ اپنی مادر وطن کو ماں کالی کے روپ میں پوجتے تھے، بنکم چندر چٹر جی نے حب الوطنی کو مذہب اور مذہب کو حب الوطنی کے ساتھ ملادیا تھا، آنند مٹھ کے اس پہلو اور ماں کالی کے تصور کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ بنکم چندر کا نیشنلزم ہندوستانی نیشنلزم نہیں تھا، اسی طرح نیرج سی چودھری اپنی کتاب ’’آٹو بائیو گرافی آف این نان انڈین‘‘میں لکھتے ہیں: ’’بنکم چندر چٹر جی اور رمیش چندر کی تاریخی تصانیف میں مسلم حکومت کے خلاف ہندو بغاوت کی قصیدہ خوانی کی گئی ہے، اور مسلمانوں کو نامناسب ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔
وندے ماترم میں کیا ہے؟
سطور بالا میں کی گئی وضاحت سے اتنی بات تو خوب آشکارا ہوگئی کہ وندے ماترم ایک ایسی ناول کا حصہ ہے جس میں مسلم مخالف جذبات کو ابھارا گیا ہے، اور مسلمانوں کے خلاف اپنی دیوی اور دیوتاؤں کی قسمیں کھائی گئی ہیں، نیز مسجدوں کو مسمار کرکے ان پر مندر تعمیر کرنے کی بات کہی گئی ہے، اب رہی یہ بات کہ وندے ماترم میں کیا پیش کیا گیا ہے؟ تو اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وندے ماترم کا ترجمہ پیش کیا جائے، تاکہ ترجمہ دیکھ کر ہرشخص اس میں پیش کئے گئے مواد کو راست طور جان سکے، ذیل میں جو ترجمہ دیا جارہا ہے وہ اورنگ زیب ملک کا ہے جو ان کے تحقیقی مقالہ ’’برصغیر میں قومی ترانے ۔تاریخ واثرات‘‘ میں شامل ہے۔
’’وندے ماترم‘‘
۱۔ میں تیرا بندہ ہوں اے میری ماں!
اچھے پانی، اچھے پھلوں،بھینی خنک،جنوبی ہواؤں
اور شاداب کھیتوں والی میری ماں!
۲۔ حسین چاندی سے روشن رات والی
شگفتہ پھلوں والی،گھنے درختوں والی
میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی
سکھ دینے والی، برکت دینے والی میری ماں!
۳۔ تیس کروڑ گلوں کی پرجوش آوازیں
ساٹھ کروڑ بازؤوں میں سنبھلنے والی تلواریں
کیا اتنی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی اے ماں تو کمزور ہے
تو ہی ہمارے بازؤوں کی قوت ہے میں تیرے قدم چومتا ہوں
تو دشمن کے لشکر کی غارت گرہے میری ماں!
۴۔ تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا دھرم ہے
تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے
تو ہی جسم کے ا ندر کی جان ہے
تو ہی بازؤوں کی طاقت ہے
دلوں کے اندر تیری ہی حقیقت ہے
تیری ہی محبوب مورتی ہے ایک ایک مندر میں
۵۔ توہی درگا دس مسلح ہاتھوں والی
تو ہی کملا ہے کنول کے پھولوں کی بہار
تو ہی پانی ہے علم سے بہرہ ورہ کرنے والی
میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں
اچھے پانی اچھے پھلوں والی میری ماں!
میں تیرا بندہ ہوں اے میری ماں
وندے ماترم ناقابل قبول کیوں؟
ترجمہ کو غور سے پڑھئے پھر خود فیصلہ کیجئے کہ کیا کوئی مسلمان اس ترانے کو پڑھنے کے بعد اپنے دین وایمان پر باقی رہ سکتا ہے؟ ترانے میں واضح الفاظ میں وطن کو معبود کا درجہ دیا گیا ہے جب کہ اسلامی عقیدے کے مطابق لائق عبادت تو خدائے وحدہ لاشریک لہ ہی ہے، اس کے علاوہ کسی کی پرستش کی قطعی اجازت نہیں، عقیدۂ توحید اسلام کا سب سے اساسی عقیدہ ہے، سارے نبیوں نے اپنی قوموں سے یہی دعوت دی، اعبدوا اللہ مالکم من إلٰہ غیرہ اے میری قوم! ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں، وندے ماترم میں مادرِ وطن کو کبھی دُرگا ماں اور کبھی کالی کی شکل میں پیش کرکے اس کی پرستش کی دعوت دی گئی ہے، مثلا یوں کہا گیا ہے:’’تو ہی دُرگادس مسلح ہاتھوں والی ہے‘‘ اسی طرح اس کا ایک بند یوں ہے: ’’تیری ہی محبوب مورتی ہے ایک ایک مندر میں‘‘ ، ’’میں تیرا بندہ ہوں اے میری ماں‘‘ ،’’سکھ دینے والی برکت والی اے میری ماں‘‘ ان مصرعوں پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس ترانے میں جگہ جگہ شرکیہ الفاظ ادا کئے گئے ہیں، وندے ماترم کے تعلق سے دارالعلوم دیوبند کے فتوے کا یہ حصہ بھی لائق ملاحظہ ہے: ’’اس گیت میں مندروں کی تمام مورتیوں کو خاک وطن کا عین قرار دیا گیا ہے، اور یہ خالص مشرکانہ نظریہ ہے، نیز اس گیت میں خاک وطن کو دُرگا دیوی اور کملا دیوی فرض کیا گیا ہے جو قطعا شرک ہے، اور اس گیت میں خاک وطن ہی کو دھرم قرار دیا گیا ہے جب کہ ایک مسلمان کا دھرم صرف اسلام ہے اور اس گیت میں خاک وطن کے سامنے وندنا کی جاتی ہے، یعنی سرجھکا کر ہاتھ جوڑ کر سلام کیا جاتا ہے، یہ بھی اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے، بادشاہ روم کے دربارمیں رکوع کی طرح سرجھکا کر داخلہ سے انکار کرتے ہوئے ایک صحابی نے فرمایا تھا کہ مجھے کافر کے سامنے رکوع کی طرح سرجھکانے میں رسول اللہﷺ سے شرم آتی ہے کہ میںآپ کو کیا منھ دکھاؤں گا إني أستحیی من محمد علیہ السلام عن أدخل علی کافر علی ہیءۃ الرکوع (نصاب الاحتساب، باب:۴۹،ص:۹۸) اور یہ گیت بھارت کے نقشہ پر پھول چڑھا کر شروع کیا جاتا ہے، یہ عمل بھی غیر اللہ کی عبات کے مشابہ ہے اور قطعا حرام ہے، وطن سے محبت کرنا اور بات ہے اور اس کی پوجا کرنا بالکل دوسری بات ہے، اس لیے وندے ماترم گیت مسلمانوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں،ہر مسلمان پر دینی فریضہ ہے کہ وہ اس گیت کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے‘‘۔(وندے ماترم کی حقیقت اور اس کی شرعیت حیثیت، مرتبہ ابو محمدصدیقی، ناشر: مجلس صیانۃ المسلمین، سہارنپور)
پہلی مرتبہ وندے ماترم کو رابندر ناتھ ٹائیگور نے پڑھاتھا اس کے دس سال بعد بنارس کے اجلاس میں سرلہ دیوی چودھرانی نے اسے ترنم سے گایا، اس نظم کو قومی اہمیت تب حاصل ہوئی جب لالہ لجپت رائے نے وندے ماترم نامی ایک جریدہ جاری کیا، کانگریس کے اجلاس میں ٹائیگور نے اس نظم کا دُھن بھی بنایا لیکن جب اس نظم کو قومی علامت بناکر پیش کیا جانے لگا تو خود ٹائیگور نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ۱۹۳۷ء میں سبھاش چندر بوس کو ایک خط میں لکھا کہ وندے ماترم کا بنیادی عقیدہ دیوی دُرگا کی پرستش ہے اور یہ اتنا واضح ہے کہ اس میں کسی قسم کی بحث کی گنجائش نہیں ہے، بنکم نے دُرگا کو متحدہ بنگال کی علامت کے طورپر پیش کیا ہے، مگر کسی مسلم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ حب الوطنی کے نام پر دس ہاتھوں والی دُرگا کی عبادت کرے(بحوالہ رابندر ناتھ کے منتخبہ خطوط، مطبوعہ کیمبرج یونیورسٹی) رابند ناتھ کی اس وضاحت کے بعد کانگریس کے مسلم اراکین نے اس ترانے کی شدید مخالفت کی، جس کی وجہ سے اکتوبر ۱۹۳۷ء کو کانگریس نے ہنگامی طور پر ورکنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، اور اس میں مسلمانوں کا اعتراض تسلیم کرتے ہوئے وندے ماترم کے ابتدائی دو بندکی مخالفت کی گئی اور انھیں ہٹانے سے اتفاق کیا گیا،جواہر لعل نہرو نے بھی اس کی مخالفت کی تھی،مگر تقسیم ہند کے بعد اس متنازعہ نظم کو نہ صرف قومی نظم تسلیم کیا گیا بلکہ اس میں دو بند کی شرط بھی ہٹا لی گئی، یہاں یہ چیز غور طلب ہے کہ ملک میں جن جن چیزوں کو قومی شناخت کا درجہ دیا گیا ہے وہ سب ایک ہی ہیں، مثلا ہندوستان کا قومی پرچم ترنگا ایک ہے، اسی طرح قومی جانور شیر ایک ہے، قومی پرندہ مور ایک ہے، نیز قومی نشان اشوک کا لاٹ ایک ہے، جب قومی درجے کی شناخت رکھنے والی ہر چیز ایک ہے تو پھر قومی گیت ایک کیوں نہیں؟ مسلمانوں نے کبھی ترنگے پر اعتراض نہیں کیا، اسی طرح مسلمانوں نے یہ نہیں کہا کہ شیر تو دُرگا کی سواری ہے ہم اسے قومی جانور نہیں مانتے، ایسے میں صرف قومی گیت کے تعلق سے مسلمانوں کی مجبوری کوکیوں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ اس سے براہ راست مسلمانوں کے عقیدہ پر زد پڑتی ہے، اسلام میں وطن سے محبت کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا،نبی رحمتﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمانے لگے تو مکہ کی طرف مڑ کر اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیااور یوں فرمایا: اے مکہ! اگر تیری قوم مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتی تو میں ہرگز نہ نکلتا، نبی رحمتﷺ نے جب مدینہ کو اپنا وطن بنالیا تو مدینہ سے ٹوٹ کر محبت فرمائی، آپ نے مدینہ کے لیے برکت کی دعا فرمائی، مسلمان جہاں بھی ہوتے ہیں اپنے وطن سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، لیکن وطن کی پرستش نہیں کرسکتے، مسلمان وطن پسند ہوتا ہے لیکن وطن پرست نہیں ہوسکتا، اس لیے وندے ماترم کے مسئلہ کو لیکر مسلمانوں کی حب الوطنی پر انگشت نمائی کرنا سراسر شرارت ہے،نیز مسلمانوں کو اس کا پابند بھی نہیں کیا جاسکتا، ایسا کسی بھی قسم کا اقدام مذہبی آزادی سلب کرلینے کے مترادف ہے،ملک کی آزادی کے تئیں مسلمانوں کی قربانیاں روزہ روشن کی طرح واضح ہیں ، اگر وندے ماترم ہی وطن سے محبت کی علامت ہے تو سب سے پہلے رابندر ناتھ ٹائیگور کو مورد الزام ٹھہرانا چاہئے ، جنھوں نے جن گن من جیسا قومی ترانہ تحریر کیا، پھر سکھ بھی تو وندے ماترم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو انھیں غدار وطن کیوں نہیں قرار دیا جاتا۔
★ مضمون نگار دارالعلوم حیدرآبادکے استاذ حدیث ہیں
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335