خاص مضمون :ملت ٹائمز
قاسم سید
دہشت گردی ختم کرنے کے لئے اسلام کوختم کرنا ہوگا ،جہاں جہاں اسلام ہوگا وہاں وہاں دہشت گردی ہوگی اس لئے جب تک دنیا سے اسلام کاخاتمہ نہیں ہوگا دہشت گردی کاخاتمہ ممکن نہیں ،مذہب اسلام دنیا کی شانتی ختم کرنے کا ایک بم ہے۔ یہ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اننت کمار ہیگڑے کا بیان ہے۔مسلمانوں کے ساتھ کھلی جنگ کرنی ہوگی ہم توہین نہیں سہیں گے۔ ہمارا امتحان مت لو ،ہم بدامنی نہیں چاہتے اگر آپ ہندؤں کا امتحان لینا چاہتے ہو تو مقابلہ کی تاریخ طے کرلو،ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔ اگر ہمیں ماروگے تمہاری آر تی نہیں اتاریں گے یہ بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ بابو لال کی دھمکی ہے۔ ملک کو فیصلہ کرنا ہے کہ رام زادوں کی سرکار ہوگی یا حرام زادوں کی یہ اشتعال انگیز جملہ مرکزی وزیر مملکت سادھوی رنجن جیوتی کا ہے۔ جے این یو میں جوکچھ ہوا اس کے پیچھے لشکرطیبہ کے حافظ سعید کا ہاتھ ہے، یہ نادر تحقیق ملک کے وزیر داخلہ اور سنجیدہ بیانات کیلئے معروف راج ناتھ سنگھ کی ہے۔ جے این یو دیش دروہیوں کا اڈہ ہے اسے چارماہ کیلئے بند کرکے کریک ڈاؤن کیاجائے اور ایسے طلبا کو نکال باہر کیاجائے جو اس طرح کے واقعات کے لئے ذمہ دار ہیں یہ مشورہ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے دیا ہے۔ ہم نے کنہیا کو اتنا مارا کہ اس کی پینٹ گیلی ہوگئی اور اس وقت تک لاتوں گھونسوں سے مارا جب تک اس نے بھارت ماتا کی جے نہیں بولی۔ یہ اقبالیہ بیان اس وکیل کا ہے جو وکیلوں کی اس دیش بھکت بھیڑ کا حصہ تھا جس نے پٹیالہ کورٹ میں کنہیا کی پٹائی کی اور اسے سابق پولیس کمشنر بسی نے معمولی واقعہ قرار دیا۔سی پی آئی کے ایک ورکرکو اس لئے بے رحمی سے مارا کہ وہ بقول مشتعل منظم بھیڑ کیپاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا ۔ظاہر ہے کہ ان کا خون کھولا،دیش بھکت کس طرح راشٹردروہی کو برداشت کرسکتے ہیں یہ اس کا نمونہ تھا ۔
محمداخلاق کو بھیڑ نے اس لئے سسکاکرمارا کیونکہ اس پر گائے کا گوشت کھانے کاشبہ تھا ۔ گؤماتا کے ساتھ زیادتی کیسے برداشت کی جاتی،نعمان کواس لئے ماردیاگیا کہ وہ گایوں کو لے کر جارہا تھا ۔بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہناہوگا۔ بعض نیوز چینلوں کے بے ہنگم بے لگام اینکروں سے لے کر آر ایس ایس کے وچارکوں تک دیش بھکتی اور قوم پرستی کاایسانشہ چڑھاکہ نیوزروم میں بلائے گئے مہمانوں سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ بھارت ماتا کی جے بول کر حب الوطنی کا ثبوت دیں ۔ حب الوطنی دیش بھکتی کے نئے معانی نے پورے ملک کو ایک ہیجان میں مبتلا کردیاہے ۔ بھیڑ قانون بن گئی اور جج بھی ۔ اب جسے چاہے یہ کہہ کر پیٹا جاسکتا ہے، گولی بھی ماری جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان زندہ باد کہہ رہا تھا اور فسطائی ذہنیت کے علمبردار اس کی حمایت کریں گے۔
آخر بی جے پی کے ایم ایل اے مسٹر اوپی شرما نے یہی بات تو کہی انہیں تھانے بلاکر ضمانت دے کر عزت کے ساتھ رخصت کردیاگیا و ہ آج بھی اپنے بیان پر قائم ہیں ۔مودی کے خلاف ووٹ دینے والوں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی ،مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر سرعام قتل کرنے کی دھمکی،ہندوتنظیموں کا خانہ جنگی کیلئے تیار رہنے کا ہندوؤں کو مشورہ، مرکزی وزیر کھٹیریا کا لاٹھی چلانے اور قاتلوں کا صفایاکرنے کی ترغیب ، آخر کس کس بات کا تذکرہ کیاجائے۔ اسمرتی ایرانی کا ایکتاکپور کی یاد دلانے والا رویہ جو لوک سبھا میں تقریر کے دوران اپنایاگیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمالی ہند سے جنوبی ہند تک جس طرح کا جنون پیدا کیاجارہا ہے ۔ ہندوؤں کو جارح ہونے اور راشٹر بھکتی کی نئی تعریف وتوضیح کے ساتھ برہمنیت پر مبنی فسطائیت کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ،گوتم بدھ اورگاندھی کی زمین میں نفرت ،خوف ودہشت کی باردوی سرنگیں بڑی تیزی کے ساتھ بچھائی جارہی ہیں۔ جس میں عام لیڈروں کے ساتھ مقننہ کے معزز ممبران بھی شامل ہیں اور پردھان سیوک خاموش ہیں ۔آخرراز کیاہے کیوں یہ صورتحال مسلط کی جارہی ہے۔ کیا سفاک لشکر کچھ نئے پڑاؤ کی طرف گامزن ہے۔ اس کے پاس وقت کم ہے اور وہ بہت جلدی میں ہے ایک ساتھ دلت اور اقلیت کیوں نشانے پر ہیں۔ روہت ویمولا،کنہیا کماراور عمرخالدایک علامت ہیں اور ان علامتوں نے بہت کچھ کیاہے۔ بی جے پی نے گجرات کے سوشیوپولیٹیکل لیباریٹری میں اقتصادی لبرلائزیشن اور اندرونی فاشزم کاکاک ٹیل تیارکیا۔
د وسری جانب ووٹ بینک بڑھانے کیلئے مذہبی شدت پسندی کا آسان سستا اورٹکاؤ راستہ اپنایا جس طرح نازی جرمنی اکثریت کو مصروف رکھنے کیلئے یہودیوں کی شکل میں پنچنگ بیگ فراہم کردیاگیاتھا اسی طرح گجرات میں مسلم اقلیت جو کل ریاستی آبادی کا 9فیصد ہے ،شدت پسند تجربات کیلئے پنچنگ بیگ بن گئی ۔ اس کے سہارے لگاتار کئی انتخابات جیتے اور گجرات میں عملاً یک جماعتی بلکہ یک شخصی حکومت کا نظارہ اپناتے دیکھا یہی تجربہ مظفرنگر میں کیاگیا۔ اس کا فائد ہ بھی ملا اس کی شریک کار ایک ریاستی جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل ہم نے سوال کیاتھا کہ کیا مودی فرقہ وارانہ یکجہتی رکھ پائیں گے، نکسل تحریک ختم کردیں گے،کشمیر کا مسئلہ سلجھائیں گے، مڈل کلاس کو مطمئن کر سکیں گے۔ مودی کا سحر ٹوٹے گا یا برقراررہے گا ۔اگر برقراررہا تو وکاس کا ایجنڈا چلے گا اور ڈگمگایا تو گجرات کا ؟ فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنا جاری رہے گا وہ اپنے ذہن اور ہاتھ کے ساتھ کسی منصوبے کی جانب بڑھیں گے ،ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے ،کیاآرایس ایس ان کی ڈوریں ہلانابند کردے گا یاان کو اپنے طے شدہ اہداف کیلئے استعمال کرنے میں وقت کاانتظارنہیں کرے گا۔ حالات بتار ہے ہیں کہ آر ایس ایس زیادہ جلدی میں ایک طرف مسلمانوں دوسری طرف کمیونسٹوں اور انتہائی چالاکی سے دلتوں کو سیاسی حاشیہ کی طرف ڈھکیلاجارہا ہے ،حیدرآباد یونیورسٹی سے لے کر جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک ایک جال بُناگیا ہے۔ ڈریہ ہے کہ ملک دھیرے دھیرے خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے قوم پرستی فاشزم کا پہلازینہ ہے اس جنون کی آگ میں اور تیل ڈالاجاتا ہے تاکہ عقل ودلیل جل کر خاک ہوجائیں۔ فاشزم ایک ایسا رویہ ہے جو فسطائی ذہنیت رکھنے والے کسی شخص یا نظریہ میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ ساری دنیا ٹھیک کرسکتا ہے ٹھیک صرف وہی ہے جسے وہ ٹھیک سمجھتا ہے وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتا،نسلی وطبقاتی کشمکش کو بھڑکاکر مقبولیت حاصل کرتا ہے اور سب سے پہلے سسٹم پر حملہ کرتا ہے جے این یو معاملہ میں اسے سمجھا جاسکتا ہے ۔ مثلاً جرمنی کا ہٹلر لاکھوں کے اجتماع سے جذباتی خطاب کرکے جرمن قوم کی نسلی برتری بیان کرتا ہے۔ اٹلی کے مسولینی نیبھی یہی راستہ اپنایا،اسپین کا فرانسسکو کرپٹ جمہوریت پسندوں پر حملے کیلئے اکساتاتھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 27فروری 1933کو جرمنی کی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا آگ نے پوری عمارت کو گرفت میں لے لیا اور اس حملہ نے فاشزم کا راستہ کھول دیا ۔ جائے وقوع سے میری نس وانڈرلیوبے نوجوان گرفتار ہوا اسے سزائے موت دی گئی ۔ یہ نوجوان محنت کشوں کی حالت پر احتجاج کیلئے آیاتھانازیوں نے پروپیگنڈہ کیاکہ یہ کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہے یہ حملہ کمیونسٹ انٹرنیشنل نے کرایا۔ حالانکہ تحقیقات سے رازکھلا کہ یہ منصوبہ بندی نازیوں نے کی تھی۔ ہٹلر کاکہنا تھا کہ جرمنی کو کمیونسٹوں سے خطرہ ہے پھر دنیانے جرمنی کی فسطائیت دیکھی ،مگر حشرکیا ہوا دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے دوٹکڑے ہوگئے۔ فسطائیت ہمیشہ کمزور اور نظریاتی مخالفوں کونشانہ بناتی ہے ۔ انہیں ملک دشمن ثابت کرتی ہے، پہلے مسلمانوں کو دہشت گردی کیبہانے ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اسی کے ساتھ کمیونسٹوں کو سیاسی منظرنامہ سے غائب کرنے کی کوشش ہوئی کیونکہ یہی دو طبقہ آئیڈیا لوجی کے حامل ہیں اور برہمنی فسطائیت کو ان سے خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔ یہ وہ بات ہے جو ملک کا دانشور طبقہ سوچ رہا ہے معلوم نہیں کہ حکومت اس سوچ میں کہاں تک دخیل ہے لیکن آر ایس ایس اور اس کے حلیف تمام تکلفات بالائے طاق رکھ کر میدان میں آگئے منوسمرتی اور گوڈسے کی جے جے کار سنائی دینے لگی ہے ۔ خوف ودہشت کا ماحول پیدا کرکے غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے احساسات ابھارے جارہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان سب سے سب کا ساتھ سب کا وکاس ہوپائے گا اور کیا مسلمانوں کا سواداعظم ان خطرات کی آہٹ کو اپنے دل کی دھڑکنوں کے قریب سن رہا ہے یا ابھی حضرت اس وقت تک خواب میں مست رہیں گے جب تک آگ کے شعلے ان کے گھر تک نہ پہنچیں ،کانفرنسوں ،قرار دادوں اور جلوس میں منہمک امت مسلمہ اب تو آنکھیں کھولے۔۔۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں )