تین طلاق سے متعلق حالیہ فیصلہ اور ملت اسلامیہ کے لئے لائحۂ عمل

شمع فروزاں : خالدسیف اللہ رحمانی
سپریم کورٹ نے ابھی تین طلاق کے سلسلہ میں اپنا فیصلہ سنایاہے،جو۳۹۵؍صفحات پرمشتمل ہے،اس مقدمہ کاآغاز بالکل عجیب اندازپرہوا،حقیقت یہ ہے کہ ہندوقانون میراث کے تحت ہندولڑکی کواپنے باپ کے بعض متروکات میں حصہ نہیں ملتاتھا،۲۰۰۵ء میں اس غلطی کی اصلاح کی گئی،اسی بنیادپرایک ہندوخاتون پھول وتی اپنے بھائیوں کے خلاف عدالت میں گئی،ہائی کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا،اور۲۰۰۵ء کے ترمیم شدہ قانون کے مطابق والد کے ترکہ میں جوحصہ ملناچاہئے تھا،اس کے دینے کاحکم دیا،بھائیوں نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی اوروہاں فیصلہ الٹ گیا،پھول وتی نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے تحت جوحق پایا تھا،اس سے محروم ہوگئیں،یہ فیصلہ کیاتھاجسٹس آدرش کمارگوئیل اوررَانِل آردَوے نے۔
عجیب بات ہے کہ جج صاحبان ایک ہندوخاتون کوتو فطری انصاف نہیں دلاسکے؛لیکن انہیں مسلمان عورتوں پررحم آگیا،اورانہوں نے ایک بالکل غیرمتعلقہ بات کہہ دی کہ عورتوں کے حق میں مسلم قوانین بھی غیرمنصفانہ ہیں؛اس لئے مفادعامہ کے تحت اس پرمقدمہ چلناچاہئے،پھرکیاتھا سنگھ پریوارکے اشارہ پربعض نام نہادمسلم خواتین نے عدالت میں تین طلاق،حلالہ اورتعددازدواج کے خلاف دعویٰ دائر کردیا،عجیب بات ہے کہ ان میں بعض خواتین وہ ہیں کہ جن کے شوہرہندوہیں،اوران کی شادی ہندومیریج ایکٹ کے تحت ہوئی ہے،پھرمیڈیانے ایساتأثردیاکہ گویاتمام مسلم خواتین ایسی ہی سوچ رکھتی ہیں؛حالانکہ یہ بالکل خلاف واقعہ ہے،آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ نے جب دستخطی مہم چلائی توچھ کروڑ کے قریب مسلمان مردوں اورعورتوں نے تحریری طورپراپنانقطۂ نظرپیش کیاکہ وہ مسلم پرسنل لاکے حامی ہیں،جن میں ساڑے تین کروڑ کے قریب دستخط خواتین کے تھے،میڈیاوالوں کومسلم سماج سے الگ تھلک چندعورتوں کاموقف تونظرآیا؛لیکن کروڑوں مسلمان عورتوں کی طرف سے قانون شریعت کی تائیدنظرنہیں آئی۔
بہرحال اس مقدمہ میں آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ اورجمعیۃ علماء ہندکے بشمول کئی مسلم تنظیمیں فریق بنیں،اورانہوں نے شریعت کانقطۂ نظرپیش کیا،عدالت نے معمول کے خلاف تیزرفتاری کے ساتھ اس مقدمہ کی سماعت کی،اوربالآخرمؤرخہ ۲۲؍اگست کواس کافیصلہ ہوا،اس مقدمہ کی سماعت اوراس کافیصلہ پانچ رکنی بینچ نے کیا،جن میں سے ہرجج الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے تھے؛چونکہ فیصلہ باتفاق رائے نہیں ہوا،کئی نکات پرججوں کی رائے منقسم تھی؛اس لئے فیصلہ میں خاصاتضادمعلوم ہوتاہے،بہرحال بحیثیت مجموعی اس فیصلہ میں چندنکات قابل توجہ ہیں:
(۱) اس فیصلہ میں ایک دفعہ کی تین طلاق کوایک ہی طلاق ماناگیاہے،یہ اہل حدیث اورشیعہ حضرات کے نقطۂ نظرکے مطابق ہے،احناف ،مالکیہ،شوافع اورحنابلہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں،ظاہرہے اتنی بڑی تعدادپران کے یقین کے برخلاف رائے مسلط کرنامناسب نظرنہیںآتا،ہوناتویہ چاہئے کہ جس گروہ کاجونقطۂ نظرہو،اس کے مطابق ان کافیصلہ ہو،دوسرے:اس سے انجام کارخودعورتوں کودشواری ہوگی،عدالت ایک طلاق واقع ہونے یاطلاق واقع نہ ہونے کاحکم جاری کرسکتی ہے؛لیکن لوگوں کے یقین کوبدل نہیں سکتی،اب اگرعدالت نے تین طلاق کوایک مان کریاواقع نہ مان کرنکاح کی گنجائش باقی رہنے یاخودنکاح کے باقی رکھنے کاحکم مردکے دعویٰ پرجاری کردیا،اورعورت اوراس کے خاندان کے لوگ اس رشتہ کوحرام سمجھتے ہیں ،تووہ عملاََ اس مردکے ساتھ ازدواجی زندگی بسرکرنے پرآمادہ نہیں ہوگی،اس طرح وہ ازدواجی حقوق سے بھی محروم رہے گی،اوراس کے لئے دوسرے نکاح کی گنجائش بھی نہیں رہے گی،اوراگرعدالت نے عورت کے دعویٰ پرفیصلہ کیاتوہوسکتاہے کہ مردمجبورہوکرعورت کے اخراجات اداکردے؛لیکن وہ اس عورت کے ساتھ رشتہ کوحرام سمجھتے ہوئے اپنے آپ کوجسمانی تعلق سے دوررکھے،توکیاعدالت عورت کویہ حق دلاسکے گی؟۔۔اس لئے تین طلاق کے باوجود رشتہ کے باقی رہنے کادعویٰ مردکی طرف سے ہویاعورت کی طرف سے،عملی طورپراس کانقصان عورت کوہوگا،وہ اپنے تمام یابعض ازدواجی حقوق سے محروم بھی رہے گی اوراس پردوسرے نکاح کاراستہ بھی بندہوجائے گا۔
(۲) عدالت نے نہ صرف ایک مجلس کی تین طلاق کوایک طلاق قراردیاہے؛بلکہ چھ مہینے کے لئے اس پرپابندی بھی عائدکردی ہے،یہ بات مسلمانوں کے تمام مکاتب فکرکی رائے کے خلاف ہے،جولوگ ایک دفعہ کی تین طلاقوں کوتین نہیں مانتے ،ان کے یہاں بھی ایک طلاق توواقع ہوہی جاتی ہے،اوراگرایک ہی دن تین طلاقیں الگ الگ مجلس میں دی جائیں،توبالاتفاق تینوں واقع ہوجاتی ہیں؛اس لئے عدالت کایہ فیصلہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکرکی متفقہ رائے اورقرآن وحدیث سے مستنبط کئے جانے والے متفقہ نقطۂ نظرکے خلاف ہے۔
(۳) عدالت کے اس فیصلہ میں ایک مثبت پہلوبھی موجودہے،اوروہ یہ ہے کہ عدالت نے تسلیم کیاہے کہ مسلم پرسنل لابنیادی حق میں شامل ہے،یہ بات چیف جسٹس جناب جے ایس کھیہراورجسٹس سیدعبدالنظیرنے توکہی ہی ہے،جسٹس کورین جوزف نے اگرچہ تین طلاق کے معاملہ میں جسٹس نریمن اورجسٹس یویوللت سے اتفاق کیاہے؛لیکن وہ بھی اس نکتہ پرچیف جسٹس کے ساتھ ہیں،اس طرح گویاپانچ میں سے تین ججس نے اس بات کوتسلیم کیاہے کہ مسلم پرسنل لابنیادی حقوق میں شامل ہے،اوریہ دستورکی دفعہ:۲۵؍کے دائرہ میں آتاہے،یہ ایک اہم ترین کامیابی ہے،اوراس کی بنیادپرآئندہ مسلم پرسنل لاکے ان مسائل میں بھی قانونی جنگ لڑی جاسکتی ہے،جن کے بارے میں مسلم پرسنل لامخالف قوتیں سوال اٹھاتی رہتی ہیں۔
(۴) فیصلہ میں بعض ججوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ تعددازدواج سے متعلق قانون شریعت میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے؛اسی لئے مدعیان کی طرف سے اپنے دعویٰ میں اس مسئلہ کواٹھانے کے باوجودعدالت نے اس پرنہ کوئی بحث کی اورنہ کوئی فیصلہ کیا،یہ بھی ایک مثبت پہلوہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس فیصلہ کے پس منظرمیں مسلمانانِ ہندکے لئے لائحۂ عمل کیاہوناچاہئے؟تواس بارے میں دوباتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں:
اول یہ کہ اس فیصلہ سے وہی لوگ متأثرہوں گے،جواپنے معاملات کوعدالت میں لے جائیں،اگرمسلمان شریعت کے مطابق آپس میں اپنے معاملات کوطے کرلیں،دارالقضاء اورشرعی پنچایتوں کے ذریعہ فیصلہ کرائیں،مساجد کے ائمہ سے رجوع ہوں اورکورٹ میں جانے سے گریزکریں،توان پراس فیصلہ کاکوئی اثرنہیں پڑے گا،اوربحمداللہ عمومی طورپرمسلمانوں کامزاج یہی ہے کہ شریعت میں جوچیزیں حرام کردی گئی ہیں،وہ اس کے مقابلہ کسی دوسری بات کوقبول نہیں کرتے،نفقۂ مطلقہ کے سلسلہ میں عدالتوں کے مخالف شریعت فیصلے موجودہیں؛لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک فی صدمسلم مطلقہ خواتین بھی اس کے لئے عدالت کادروازہ نہیں کھٹکھٹاتیں،اوررشتۂ نکاح ختم ہوجانے کے باوجودرشتۂ نکاح کوباقی رکھنے کامعاملہ تواس سے کہیں زیادہ نازک ہے؛کیوں کہ نفقہ کاتعلق مال سے ہے اوراس کاتعلق عزت وناموس سے۔
اس لئے مسلمانوں کایہ ذہن بناناچاہئے کہ وہ ایسے مسائل کوعدالتوں میں نہ لے جائیں،اورانہیں شریعت مخالف فیصلہ کرنے کاموقع ہی نہیں دیں؛بلکہ باہمی مفاہمت سے معاملہ حل کرلیں،اس میں ان کے لئے دنیاکی بھی بھلائی ہے اورآخرت کی بھی،اس میں دین وایمان کا بھی تحفظ ہے اورعزت ووقارکا بھی،اورسب سے بڑھ کراپنی ملت کورسوائی سے بچانے کایہی واحدراستہ ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپنی اجتماعیت کے شیرازہ کوبکھرنے نہ دیں،نہ غلط فہمی میں پڑیں، اورنہ غلط فہمی پیداکرنے والوں کی سازشوں کاشکار ہوں،عدالت کے فیصلہ میں جوکچھ باتیں مسلمانوں کے نقطۂ نظرکے خلاف کہی گئی ہیں،وہ اس وجہ سے نہیں ہیں کہ مقدمات کی صحیح پیروی نہیں ہوسکی؛بلکہ اس کاسبب وہ فضاء ہے،جوسنگھ پریوارکے خریدے ہوئے میڈیاکے ذریعہ بنائی گی،اورجس کوملک کے اقتداراعلیٰ نے تقویت پہنچائی،یہاں تک کہ یوم آزادی کے موقع پرلال قلعہ کی فصیل سے بھی وزیراعظم نے اس مسئلہ کوچھیڑناضروری سمجھا،اس مسئلہ کانہ قوم کے مفادسے کوئی تعلق تھا نہ ملک کے مصالح سے،اورنہ خواتین کواس سے کوئی فائدہ پہنچنے والاہے،۔۔۔تین طلاق کاتناسب بعض سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 0.33 ہے،۔۔۔افسوس کہ بعض لوگ ایسے مواقع پربغیرسمجھے بوجھے دینی تنظیموں پرانگشت نمائی شروع کردیتے ہیں؛حالانکہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ اورجمعیۃ علماء ہنددونوں نے پوری قوت کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کی،بحث کے لئے بہترین وکلاء کاانتخاب کیاگیا،ان کی بحث کے مقابلہ مخالف وکیل کی بحث پھیکی پڑگئی،ان تنظیمیوں نے حلف ناموں میں دستوری اورشرعی نقطۂ نظرسے جتنے مضبوط دلائل پیش کئے ،مخالفین کے حلف نامے ان کے مقابلہ صاف طورپرہلکے اوربے وزن معلوم ہوتے ہیں،مسلم پرسنل لابورڈ نے اس کے لئے ماہروکلاء کاایک پینل تشکیل دیا،بورڈ کے جنرل سکریٹری نے اپنے دوسکریٹریز،لیگل کمیٹی کے کنوینراوروکلاء ونیزشریعت کے ماہرعلماء کے ساتھ مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک ہفتہ دہلی میں قیام کیا،اورسبھی لوگوں نے شب وروز محنت کرکے اس کوکامیابی کی منزل تک پہنچانے کی کوششیں کیں،صدربورڈنے صورت حال پرمسلسل نظررکھی اورسرپرستی فرماتے رہے؛لیکن ظاہرہے کہ مقدمہ کافریق دلائل پیش کرسکتاہے،فیصلہ کرنااس کے اختیارمیں نہیں ہے،مسلمان اس صورت حال سے گزررہے ہیں کہ ملک کے تمام اداروں میں اکثریت اوراقلیت کے لئے الگ الگ پیمانے بنادیے گئے ہیں،اب یہی دیکھئے کہ ۱۹۸۱ء میں کرشنابنام متھورااہیر،۱۹۹۴ء میں مہارش آویدس بنام گورنمنٹ آف انڈیا،۱۹۹۶ء میں مدھوکیشوربنام حکومت بہار اور۱۹۹۷ء میں احمدآبادگووندایکشن گروپ بنام انڈین یونین کے مقدمات میں ہندوروایت اورہندوقانون کودستورسے ماوراء رکھتے ہوئے فیصلہ کیاگیاہے؛لیکن مسلمانوں کے مذہبی تشخص کے بارے میں بالکل جداگانہ سوچ اختیارکی جاتی ہے،ایسی صورت حال میں اگرہم خود تنقیداوربے اعتمادی کے ذریعہ اپنے اجتماعی اداروں کوکمزورکرلیں گے تویہ اپنے دشمنوں کوتقویت پہنچانے اوران کے منصوبوں کوکامیاب کرنے کے مترادف ہوگا؛اس لئے مسلمانوں کافریضہ ہے کہ وہ حقیقی صورت حال کوسمجھیں،جلدبازی میں کوئی رائے قائم نہ کریں،اورخوداپنے اداروں کونقصان نہ پہنچائیں،اینٹ اینٹ جوڑ کرایک مدت میں دیواربنتی ہے؛لیکن اس کومنہدم کرنے میں کوئی وقت نہیں لگتا،تنکا تنکاجمع کرکے آشیانہ بنتاہے؛لیکن اگرکوئی شخص خوداپنے آشیانہ کوجلانے کے درپے ہوتوایک لمحہ بھی اس کوخاکستربنانے کے لئے کافی ہے!