خاص مضمون :ملت ٹائمز
سہیل انجم
کنہیا کمار جب تین مارچ کو تہاڑ جیل سے رہا ہوا تو جے این یو میں جشن کا ماحول برپا ہو گیا۔ وہ شام میں سات بجے کے بعد جے این یو پہنچا اور پی ایچ ڈی کے اپنے استاد کی رہائش گاہ گیا۔ جہاں کچھ اور اساتذہ اور وکلا بھی موجود تھے۔ وہاں اس بات پر صلاح و مشورہ ہوا کہ کنہیا کو اس موقع پر ایڈمن بلاک پر جو لوگ جمع ہیں ان کو خطاب کرنا چاہیے یا نہیں اور اگر کرنا چاہیے تو وہ کون کون سی باتیں ہوں گی جو مشروط ضمانت کے منافی ہوں گی اور جن سے ضمانت کی خلاف ورزی ہوگی۔ کن باتو ں کو کہنا چاہے اور کن کو نہیں۔ بہر حال صلاح و مشورہ کے بعد وہ ایڈمن بلاک پہنچا جہاں ہزاروں طلبہ اس کے منتظر تھے۔ اس موقع پر اس نے پچاس منٹ تک جو تقریر کی وہ ایک لاجواب تقریر تھی۔ ہم نے ٹیلی ویژن چینل پر اس کی پوری تقریر سنی۔ یہ نہیں لگتا تھا کہ کوئی طالب علم بول رہا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی بہت سینئر اور تجربہ کار سیاست داں بول رہا ہے۔ اس نے صرف یونیورسٹی کے ایشوز کو ہی نہیں چھیڑا بلکہ ملک کی سیاست کی نبض پر بھی انگلی رکھی اور نام نہاد دیش بھکتی کی آڑ میں ملک پر ایک خاص نظریے کو تھوپنے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ اس نے وزیر اعظم سمیت کئی لیڈروں کے حوالے دیے اور موجودہ وقت کے سلگتے ہوئے مسائل پر اپنی رائے رکھی۔ اس کی تقریر کیا تھی دل کو موہ لینے والی خطابت تھی۔ میں اس تقریر کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ سیاست میں آجائے تو اپنی خطابت کے بل بوتے پر ایک کامیاب سیاست داں ثابت ہو سکتا ہے۔
کنہیا نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی خوب خوب چٹکی لی۔ اس نے پارلیمنٹ میں ان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مودی جی اسٹالن اور خروش چیف کے بارے میں بول رہے تھے۔اس وقت میرا جی چاہا کہ میں ٹی وی گھس جاؤں اور ان کا سوٹ پکڑ کر ان سے کہوں کہ مودی جی ذرا ہٹلر پر بھی کچھ بول دیجیے نا۔ چلیے ہٹلر کو بھول جائیے مسولینی پر کچھ کچھ بول دیجیے جن کی کالی ٹوپی آپ لگاتے ہیں اور جن سے آپ کے گرو جی گولوالکر نے ملاقات کی تھی اور حب الوطنی کا درس جرمنی سے سیکھنے کو کہا تھا۔اس نے ان کی من کی بات پر بھی چٹکی لی اور کہا کہ وہ من کی بات تو کرتے ہیں لیکن سنتے نہیں ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی ماں سے بہت کم بات کرتا تھا۔ لیکن جیل جانے کے بعد احساس ہوا کہ والدین سے بات کرتے رہنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ تم نے مودی جی پر خوب چٹکی لی۔ اس پر میری ماں نے کہا کہ میں نے چٹکی نہیں لی تھی۔ میں نے اپنا درد بیان کیا تھا۔ جو میرے درد کو سمجھتے ہیں وہ روتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ ہنستے ہیں۔ اس کے بعد کنہیا نے یہ دلگیر جملہ کہا کہ ’’مودی جی من کی بات تو کرتے ہیں کبھی ماں کی بھی بات کر لیا کریں‘‘۔ اس نے اسمرتی ایرانی کی تقریر کے جواب میں مودی کے اس ٹویٹ کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا تھا ستیہ میو جیتے۔ یعنی سچ کی جیت ہوتی ہے۔ کنہیا نے کہا کہ وہ آئین میں یقین رکھتے ہیں۔ ستیہ میو جیتے آئین میں بھی کہا گیا ہے اس لیے میں بھی آج کہتا ہوں ستیہ میو جیتے۔ (اشارہ اپنی رہائی کی طرف تھا)۔ ایک موقع پر اور اس نے مودی کا مذاق اڑایا ۔ اس نے کہا ’’مان نیہ مودی جی آدرنیہ‘‘ اس پر طلبہ ہنس پڑے۔ اس نے بھی مسکراتے ہوئے اور اپنے خاص انداز میں کہا کہ کیا کریں کہنا پڑتا ہے۔ اس پر تو خوب قہقہہ بلند ہوا۔
کنہیا نے راج ناتھ کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا کہ سرحد پر جوان مر رہے ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ کیا وہ آپ کے بھائی ہیں۔ پھر اس نے کسانوں کی خود کشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں سرحد پر قربانی دینے والے جوانوں کو سیلوٹ کرتا ہوں لیکن یہ مت بھول جائیے کہ ان جوانوں کے لیے کھیتوں میں اناج کسان اگاتا ہے اور آج کسان خود کشی کر رہے ہیں۔ اس نے اس الزام کا بھی بھرپور جواب دیا کہ ان لوگوں نے جے این یو کیمپس میں ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس بات کو اس انداز میں پیش کیا گیا جیسے کہ وہ ہندوستان سے آزادی چاہتے ہوں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کنہیا نے کہا کہ ’’ہاں ہم آزادی چاہتے ہیں لیکن ہندوستان سے نہیں بلکہ ہندوستان میں آزادی چاہتے ہیں‘‘۔ اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’سے‘‘ اور ’’میں‘‘ میں بہت فرق ہے لیکن کچھ لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ اس نے بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی پر بھی طنز کیا اور کہا ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت میں اپنے مخالفین کو دشمن نہیں سمجھا جاتا۔ ہم لوگ اے بی وی پی کو دشمن نہیں اپوزیشن سمجھتے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی نفرت نہیں ہے۔ اس نے دلچسپ انداز میں کہا کہ ایف آئی آر میں ہم لوگوں کا نام بعد میں لکھا گیا پہلے اے بی وی وی پی کے پرچے میں آگیا تھا۔ کنہیا نے طلبہ سے کہا کہ وہ اگر اس حکومت کے خلاف بولیں گے تو مودی جی کا سائبر سیل جعلی ویڈیو بھیج دے گا۔ اس نے کہا کہ دیش دروہ کے الزام پر عدالت فیصلہ کرے گی اور ہم عمر خالد اور انربان بھٹاچاریہ کے لیے لڑتے رہیں گے۔ اس نے ان نیوز چینلوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جو مودی حکومت کی ہدایت پر کام کرتے ہیں اور کہا کہ کچھ چینل والوں کو ناگپور (آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر) سے تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن بہت سے صحافی ایسے ہیں جنھوں نے جے این یو طلبہ کی حمایت کی۔ اس کے مطابق انھوں نے طلبہ کی حمایت نہیں کی بلکہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا۔ اس نے ان سپاہیوں کے درد کا بھی ذکر کیا جو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور ان کو معمولی تنخواہ ملتی ہے۔ کنہیا نے ملک میں موجود کرپشن اور سنگھی نظریات سے آزادی کی بات کہی۔ اس نے ان سپاہیوں کو بتایا کہ در اصل ہم لوگ اس نظام سے، سنگھی نظریات سے، بھکمری سے، غریبی سے اور دوسری برائیوں سے آزادی کی بات کرتے ہیں۔ آخر میں اس نے آزادی کے وہی نعرے پھر لگائے اور بہت پرجوش اور جذباتی انداز میں لگائے جن کو ملک دشمن نعرے قرار دے دیا گیا۔ وہاں موجود ہزاروں طلبہ نے بھی اس کی آواز میں آواز ملائی۔ یعنی: ہم کیا چاہتے آزادی، بھرشٹاچار سے آزادی، غریبی سے آزادی، بھکمری سے آزادی، سنگھ واد سے آزادی، منوواد سے آزادی، لوٹنے والوں سے آزادی، جان سے پیاری آزادی، ہم لے کے رہیں گے آزادی، تم کچھ بھی کر لو– آزادی— آزادی، آزادی، آزادی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف تجزیہ نگار ہیں )
sanjumdelhi@gmail.com