(مفتی ) محمد فیاض عالم قاسمی
ناگپاڑہ ،ممبئی
قربانی: شریعت کی اصطلاح میں صاحب نصاب آدمی کاقربانی کے اہل جانور کوقربانی کے دنوں میں ذبح کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کوقربانی کہتے ہیں۔شریعت محمدیہ میں قربانی کی اصل حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کا وہ مشہور واقعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سخت امتحان لیا تھا کہ وہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو ۸۶ سال کی عمر میں حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بڑی آہ وزاری اور درخواست و التجاء کے بعد پیدا ہواتھااسے اللہ کی خوشنودی کے لیے ذبح کرے ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوری خندہ پیشانی سے اس امرِ خداوندی کو قبول کر تے ہوئے اپنے ہونہار، نور نظر اور لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر نے کے لیے اس کے گلے پر چھری پھیر دیا لیکن اللہ کو صرف ان کا امتحان لینا تھا ذبح مقصود نہ تھا ، اس لیے حضرت اسماعیل کی جگہ جنت کاایک دنبہ ذبح کر وایاگیا ۔اللہ تعالیٰ کو حضرت براہیم ؑ کا یہ عمل اور یہ اطاعت وبندگی اس قدر پسند آیا کہ اس کو امت محمدیہ میں ہمیشہ کے لیے جاری و ساری فرما دیا۔حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ نے آ پ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ قربانی کیا ہے تو آں حضور ﷺ نے جواب دیا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اورطریقہ ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس میں ہمارا اخروی کیا فائدہ ہے تو آپ ﷺ نے فر مایا کہ قربانی کے جانور کے ایک ایک بال کے بدلہ میں نیکی ہے ، صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ !اون کا بدلہ ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا اون کے ہر بال کا بدلہ نیکی ہے۔(ابن ماجہ:۱۳۲۷)
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:قربانی کے دنوں میں کوئی عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسند یدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدا ن میں اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااور قربانی میں بہایا جانے والا خون زمین پر گر نے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتاہے؛لہذا خوش دلی سے قربانی کر لیا کرو۔(ترمذی ،حدیث نمبر:۱۴۹۳) ،چوں کہ خود انسان کے اندر روح ہے اور ایک ذی روح کا دوسرے ذی روح کواپنے ہاتھ سے ذبح کر نا زیادہ گراں گذرتا ہے؛اس لیے قربانی کے ایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسند ہے، اوراسی لیے اللہ تعالی نے اس کی راہ میں اس مال کوقربان کر نے کے باوجود اس سے استفادہ کی اجازت دے دی ہے ، انسان ذبح کر نے کے بعد خود اس کا گوشت کھا سکتا ہے دوسرے کو کھلا سکتاہے۔ جبکہ دیگر مالی عبادات میں ایسا نہیں ہے۔قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کر تے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ :جو شخص قربانی کر سکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے ۔(رواہ الحاکم ۲/۳۸۹)اس سے قربانی کی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
قربانی کی تاریخ اور اس کی اصلیت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ دو دنو ں میں ہولی ،کھیل کو داورموج مستی کر رہے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ دن کیسے ہیں؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں ان دو نوں دنوں میں کھیلا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فر ما یا : اللہ تعالی نے تمہارے ان دنوں کو ان سے اچھا اور بہتر دن سے بدل دیا ہے اور وہ عید الفطر اور عید الاضحی ہیں ۔ (ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۱۱۳۴)یعنی یہ دونوں دن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے جشن اور رسم کے طور پر خوشی منا نے کے لئے عطا کئے گئے۔پہلی عید اس بات کی غماز ہے کہ ہمارے جسم وجان کے مالک حقیقی اللہ رب العزت ہیں،اس نے جب اس جسم و جان کے بارے میں حکم دیا کہ اسے میری یاد میں میرے نام کے ساتھ تھکاؤ۔ قسم قسم کے حلال اناج ،غلہ،پھل فروٹ،وغیرہ کا کھانا اب بند کرو،ان حلال اشیاء کو پیٹ میں ڈال کر اپنے جسم کے لئے قوت و توانائی حاصل کرنابھی دن کے اوقات میں تمہارے لیے حرام ہے،توگویاکہ ہمارے جسم و جان پر اسی مالک کا قبضہ ہے ؛لہذا مہینہ بھر کی قید و بند کی صعوبتیں اور حلال اشیاء کی پابندی سے آزادی عید کے دن مکمل مل جاتی ہے۔ یہ آزادی اس بے بس اور نا تواں انسان کے لیے یقیناًبا عثِ خوشی اور پر مسرت ہے۔
دوسری عیدمیں دو گانہ شکرانے کی نماز کے بعد قربانی والا عمل سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔قربانی اس بات کی غماز ہے کہ مال بھی در حقیقت اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔وہی اس کا مالک حقیقی ہے۔ انسان کو چوں کہ اللہ تعالی نے زمین پراپنا نائب بنایا ہے اسلئے اسے کسی قدر اختیار اور ملکیت عطا کر دی ہے؛چنانچہ یہ انسان اسی ملکیت کی بناء پر اللہ کی مخلوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے؛لیکن فائدہ اٹھانے میں اسی مالک حقیقی نے کچھ شرطیں بھی عائد کر دی ہیں مثلا جس جانور سے نقل و حمل کا کام لینے کو کہا اور کھانے سے منع کر دیا تو اسے نہیں کھا سکتے ۔جیسے گدھا ،گھوڑا ، وغیرہ،اور جس کو کھا نے کے لیے کہا ہے صرف اسی کو کھا سکتے ہیں جیسے گائے ، بیل ، مرغ ، بطخ وغیرہ۔ جن جانوروں کو کھا سکتے ہیں ان میں بھی یہ شرط لگا دی کہ ذبح کے وقت اسی کا نام لیا جائے ،اگر اس کا نام نہ لیا گیا ہو یا کسی دوسرے خدا ، بزرگ، یا بت کا نام لیا گیا ہو تو پھر اس کو کھا نہیں سکتے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :ترجمہ :سو جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ، اگر تم اس کے احکام پر ایما ن رکھتے ہو،(سورہ انعام:۱۱۸)،اورتم ایسے جانوروں میں سے نہ کھاؤجس پراللہ کا نام نہ لیا گیا ہواور یہ کام نا فرمانی کا ہے اور یقیناًشیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم لوگ ان کی اطاعت کر نے لگوتو یقینامشرک ہو جاؤگے۔(سورہ انعام :۱۲۱)یعنی اس میں بھی اسی مالک حقیقی کا راج چلتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جانور فی نفسہ حرام ہے ،حلال اسی وقت ہو گا جب کہ اللہ کا حکم شامل ہو اورذبح کے وقت اس کا نام بھی لیا گیا ہو۔
قربانی کا مقصد
مال کی دو قسمیں ہیں ایک وہ مال جس میں روح نہیں ہوتی جیسے سونا ،چاند ی،روپیہ پیسہ ،زمین جائدادوغیرہ اور ایک وہ مال جس میں روح ہوتی ہے جیسے جانور،چرند وپرندوغیرہ۔بر بناء نیابت انسان کو اللہ نے دونوں قسم کی مخلوقات پر قبضہ اور ملکیت عطا کی ہے ؛تاکہ صفت نیابت تام ہوجائے کہ انسان کا روح والے جانور پر بھی قبضہ اور دسترس حاصل ہے؛لیکن چوں کہ حقیقی قبضہ اور ملکیت اللہ ہی کی ہے اسی لیے مال کی زکوۃ اور قربانی واجب قرار دیا ۔دراصل اللہ اپنے بندوں کا امتحان لینا چاہتاہے کہ میرابندہ میرے مال کو میرے راستہ میں خرچ کر تاہے یا نہیں اور کیا وہ بھول چکاہے کہ یہ مال میرا ہے ؟ انسان اس دنیا میں رہ کر مگن نہ ہوجائے اور مال و دولت کی فراوانی اسے مجھ سے غافل نہ کر دے ۔اس مقصد سے ہر سال قربانی اور زکوۃ دونوں کو اس پر لازم کر دیا ؛چنانچہ اللہ تعالیٰ قربانی کے مقصد کو بیان کر تاہے : ترجمہ : اللہ تعالی کو قربانی کے گوشت نہیں پہونچتے نہ اس کا خون لیکن اس کے پاس تو تمھارے دل کی پرہیزگاری ہی پہونچتی ہے،اسی اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مطیع بنا دیاہے کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائی بیان کرو اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنادیجئے۔(کہ اللہ ان سے خوش ہیں) (سورہ حجَ : ۳۷)
قربانی کا نصاب
قربانی ہر مسلمان پر واجب نہیں ہے بلکہ ایسے عاقل و بالغ ،مقیم، مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو قربانی کے دنوں میں گھرکے ضروری ساز وسامان کے علاوہ ساڑھے سات تولہ(۸۵ گرام ) سونا یا ساڑھے باون تولہ (۵۹۵ گرام)چاندی یا اسکی مالیت کا مالک ہو۔واضح رہے کہ اس میں حولان حول یعنی سال کا گزرنا اور مال نامی یعنی بڑھنے والا مال ہونے کی شرط نہیں ہے، جیسا کہ زکوۃ میں ہے۔(در مختار مع ردالمحتار:۹/۴۵۲)
مسئلہ :نابالغ اورمجنون پر قربانی واجب نہیں ہے اگر چہ وہ مال دار ہوں،اسی طرح ان کی طرف سے کسی دوسرے پر بھی واجب نہیں ہے۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند۱۵ /۴۸۹)مسئلہ: اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہے، تا ہم اگر کوئی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے بلکہ کر نا بہتر ہے،ثواب مل جائے گا۔(تاتارخانیہ:۱۷/۴۸۳،ردالمحتار:۹/۴۵۷)
مسئلہ : :نبی اکرم ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کر نا باعث اجر وثواب اورسعادت و نجات کا ذریعہ ہے۔اپنے مرحومین کی طرف سے بھی قربانی جائز ہے،میت کو اس کا ثواب پہونچ جائے گا۔اوراگر میت نے وصیت کی ہے تو اس کے وارثین پر اس کے ثلث یعنی ایک تہائی مال میں سے قربانی کرنا واجب ہے۔اگر وارثین نہیں کریں گے تو گنہگار ہوں گے۔ حضرت حنش فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت علیؓ کو دیکھا کہ وہ دومینڈھوں کو ذبح کر رہے ہیں تو ان سے پوچھایہ کیا ہے ،حضرت علی نے جواب دیا کہ رسول ﷺ نے مجھے ان کی طرف سے قربانی کر نے کی وصیت کی ہے اس لیے میں ان کی طرف سے قربانی کررہاہوں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آں حضر ت ﷺ نے قربانی کے دن ایک مینڈھا کو ذبح کیا اور کہااے اللہ اس کو محمد ،آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما!اسی طرح حضرت جابر سے روایت ہے کہ آ پ نے دو مینڈھوں کو ذبح کیا اور کہا یہ میری اور میری امت کی طرف سے ہے ؛ اور ظاہرہے کہ امت میں سے اس وقت بعض کا انتقال ہو چکا تھا۔(دیکھئے ابوداؤد حدیث نمبر: ۲۷۹۰،۲۷۹۲،۲۷۹۵، ردالمحتار ۳/۱۵۳)
مسئلہ: جس پر قربانی واجب ہے اس کی طرف سے اگر کوئی اس کے حکم یا اجازت کے بغیر قربانی کر دے تو اسکی قربانی ادا نہیں ہو گی۔اسی طرح اگربیوی یا اولاد پر قربانی کرنا واجب ہواور شوہریا والد ان کی طرف سے خود قربانی کر دیں تو ان کی طرف سے قربانی ادا نہیں ہو گی؛ البتہ اگر کسی کا معمول اور عادت ہو تو استحساناادا ہوجائے گی لیکن اس طرح کر نا بہتر نہیں ہے، اجازت لے لینی چاہیے۔ (ردالمحتار:۹/۴۵۷،تاتارخانیہ:۱۷/۴۴۴)
مسئلہ :قربانی کر نے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد اپنے ناخن ، مونچیں ،بال وغیرہ نہ تراشے بلکہ قربانی کے بعد ان چیزوں سے صفائی حاصل کرے۔ حضرت ام سلمہؓ آں حضور ﷺ سے روایت کر تی ہیں کہ آپ نے فرمایاجب ذی الحجہ کا چاند نظر آئے اور کوئی قربانی کر نا چاہے تو اس کے لیے بہتر ہے کہ اپنے بال اور ناخنوں کو قربانی کر نے تک نہ کاٹے۔(صحیح مسلم ،حدیث نمبر:۱۵۱۷)
مئلہ: قربانی کے دن قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتدا کر نا مستحب ہے ۔(ترمذی حدیث نمبر: ۵۴۲،ردالمحتار ۳/۶۰)
ایام قربانی اور اس کے اوقات
قربانی کے دن ۱۰،۱۱،۱۲،ذی الحجہ ہیں ۔ان ایام سے پہلے اور بعد میں قربانی معتبر نہیں۔ان میں سے بہتر پہلا دن ہے کم تر آخری دن ہے۔ قربانی کا اصل وقت دسویں کے صبح صادق سے شروع ہوکر بارہویں کے سورج غروب ہونے تک رہتاہے ،البتہ جس بڑی آبادی میں عید کی نماز ہوتی ہووہاں نماز عید الاضحی کے بعد ہی قربانی درست ہے اور جہاں نماز عید جائز نہ ہو جیسے چھوٹے گاؤں اور دیہات تو وہاں صبح صادق کے فورا بعد سے قربانی کرنادرست ہے۔اگر شہر میں کسی جگہ نماز عید پڑھ لی گئی تو پورے شہر والوں کے لیے قربانی کر نا درست ہوجاتاہے۔اس میں عید گاہ ،جامع مسجد وغیرہ کی نماز پر صحت کا مدار نہیں ہے۔ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو قربانی کرنا فقہ حنفی میں جائز نہیں ہے۔گو کہ بعض علماء کا اس میں اختلاف بھی ہے لیکن احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اختلاف کے وقت اقل مدت پر عمل کیا جائے۔ (تاتارخانیہ ۱۷/۴۱۶،در مختار مع ردالمحتار:۹/۴۶۱۔۴۵۷)
مسئلہ: اگرقربانی کرنے والااور قربانی کا جانور دو الگ الگ جگہوں پر ہوں تو دونوں جگہ قربانی کا وقت شروع ہونا ضروری ہے البتہ آخری وقت میں صرف قربانی کی جگہ میں وقت کا باقی رہنا کافی ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر سعودیہ میں ۱۰؍ذی الحجہ اور ہندوستان میں ۹؍تاریخ ہوتو وہاں کے کسی آدمی کی طرف سے یہاں قربانی جائز نہیں ہے؛جبکہ اگر وہاں ۱۳؍تاریخ ہو اور یہاں ۱۲؍تو پھریہاں جائز ہے وہاں نہیں۔(درمختار ۹/۴۶۱،دیکھئے فتاویٰ رحیمیہ ۵/۴۱۷)
قر بانی کا جانور
بڑے جانوروں میں گائے، بیل ،بھینس،کم از کم دو سال کا اور اونٹ کم از کم پانچ سال کا ؛چھوٹے جانوروں میں بکری،بکرا،خصی، دنبہ،اور بھیڑکم از ایک سال کا ہو۔ ایسا دنبہ یا بھیڑ جو سال بھر سے کم ہو اور چھے مہینے سے زیادہ ہولیکن دیکھنے میں سال بھر کا لگتا ہو تو ایسے دنبے یا بھیڑ کی قربانی جائز ہے۔ (در مختار مع ردالمحتار:۹/۴۶۶،۴۶۵)
بڑے جانوروں میں کم از کم سات آد می شریک ہوسکتے ہیں۔ او ر سات سے کم کی شرکت مثلا دو، تین،چھ کی بھی جائز ہے ۔چھوٹے جانوروں میں شرکت جائز نہیں ہے ۔حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آں حضور ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ کی قربانی سات آدمی کی طرف سے اور گائے کی قربانی کی سات آدمیوں کی طرف سے کی۔(ترمذی حدیث نمبر :۵۰۲،ابو داؤد حدیث نمبر:۲۸۰۷) ۔شراکت والے جانورمیں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کا قربت و عبادت کی نیت کر نا ضروری ہے ،لہذا اگر کسی نے منت ،وصیت، عقیقہ ،ولیمہ ،نفل یاآں حضور ﷺ کی طرف سے یا کسی میت کی طرف سے قربانی کی نیت ہوتوسب کی طرف سے قربانی جائزہے۔(تاتارخانیہ۱۷/۴۵۰)
قربانی کا طریقہ
قربانی کر نے کا سنت طریقہ یہ ہے جانور کو دائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا سر جنوب کی طرف اور پیر مغرب کی طرف ہوں،جانور کو اچھی طرح اپنے قبضہ میں کر لیں،ضرورت پڑے تو ہاتھ پیر کو باندھ دیں،اپنا دایاں پیر جانور کے شانے پر رکھیں اور تیز چھری سے گلے اور سر کے درمیان ذبح کریںیہاں تک کہ حلقوم (جس رگ سے سانس لیا جاتاہے ) ،مرَی( جس نالی سے کھانا پانی اندر جاتاہے )اور شہ رگ کٹ جائیں۔ ذبح کر نے سے قبل یہ دعاء پڑھیں:اللھم انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما ان من المشرکین ، ان صلاتی ونسکی محیای ومماتی للہ رب العلمین ،لاشریک لہ و بذلک امرت وانا من المسلمین، اللھم منک ولک۔اس کے بعدبسم اللہ و اللہ اکبر کہکرذبح کریں ، ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں:اللھم تقبل منی کما تقبلت من حبیبک محمد ﷺ و من خلیلک ابراھیم علیھما السلام۔اگر قربانی دوسرے کی طرف سے کر رہے ہیں تو منی کی بجائے من کہکر ان کا نام لیا جائے۔(ابوداؤد حدیث نمبر:۲۷۹۲،۲۷۹۵، فتاوی محمودیہ:۱۷/۴۸۷)
مسئلہ :جانور کو زمین پر لٹانے کے لیے مناسب طریقہ اپنا یا جائے کہ جانور کوزیادہ تکلیف نہ ہو ،اس کا کوئی عضو تلف نہ ہوجائے۔اسی طرح گرانے کے بعد زمین پر گھسیٹنا نہیں چاہیے، کہ اس سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے۔تیز چھری سے ذبح کیا جائے ،ذبح سے قبل اچھی طرح چھری کو تیز کر لیا جائے۔نبی ا کرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے ہر چیز میں احسان کو رکھا ہے لہذا جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اپنی چھری کو تیز کر لیا کرو اور جانور کو آرام پہونچاؤ۔ ذبح کے بعددم نکلنے اور ٹھنڈا ہونے تک جانور کو چھوڑ دیاجائے اور خون بھی اچھی طرح نکل جائے اس کے بعد کھال اتارنے کاعمل شروع کر نا چاہیے۔ جان نکلنے سے پہلے چمڑی اتارنا قطعا جائز نہیں ہے۔(ابوداؤد، حدیث نمبر: ۲۸۱۴، بدائع الصنائع :۴/۲۲۳،تاتار خانیہ۱۷/۳۹۷،۳۹۶)
مسئلہ : اگر بھول سے بسم اللہ چھوٹ جائے تو جانور حلال ہے۔جان بوجھ کر چھوڑ نے میں حرام ہے۔(سورہ انعام :۱۲۱، المعجم الاوسط للطبرانی:۳ /۳۳۶،تاتارخانیہ :۱۷/۴۰۱)
مسئلہ :بہتر ہے کہ قربانی کرنے والا خود قربانی کرے ،اگر وہ نہیں جانتا ہے توذبح کے وقت وہاں مو جود رہے۔(در مختار ۹/۴۷۴)
گوشت کا مصرف
اللہ رب العزت کی لطف و عنایت کا کیاکہیے!جانوراس کے نام پر ذبح کیا جائے صرف ثواب حاصل کر نے کے لیے اوراس بات کا مظاہر ہ کر نے کے لیے کہ اللہ ہی اس کا مالک ہے، اس کا مقتضی تو یہ تھا کہ اس جانور کو خود نہ کھائے لیکن اللہ نے اپنے رحم و کرم سے اس کو بھی ہمارے لیے حلال کر دیا اورہمیں ا س کے کھانے کی اجازت دے دی۔(سورہ حج :۲۸،صحیح مسلم ، حدیث نمبر: ۵۱۰۴)ہم خرما وہم ثواب!چنانچہ قربانی کے گوشت کا مالک خود صاحب قربانی ہوتاہے اس لیے وہ جس طرح چاہے اس کو استعمال میں لا سکتاہے ۔بہتر ہے کہ گوشت تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ فقیروں کو ایک حصہ رشتہ داروں کو اور ایک اپنے لیے رکھ لے۔اگر چاہے تو پورا گوشت بھی رکھ سکتاہے البتہ اس گوشت کو بیچنا جائز نہیں ہے،اگر کسی نے بیچ دیا تو قیمت کا صدقہ کر نا ضروری ہے۔اسی طرح ذبح کر نے والے ، تعاون کر نے والے اور گوشت بنانے والے کو اجرت کے طور پر بھی گوشت دینا جائز نہیں ہے۔(رد المحتار ۹/۴۷۵،۴۷۴)
مسئلہ :قربانی کا خون عام خون کی طرح نا پاک ہے ۔اس سے کسی بھی طرح کا استفادہ جائز نہیں ہے؛ بلکہ اسے دفن کر دینا چاہیے۔(سورہ نحل :۱۱۵،ردالمحتار۹/۵۸۰)
مسئلہ :سات اعضاء کے علاوہ جانور کے ہر حصہ کو کھانا جائز ہے۔وہ سات چیزیں یہ ہیں:ذکر(نرکی شرمگاہ) ، فرج (مادہ کی شرمگاہ)،مثانہ(پیشاب کی تھیلی ) ،غدود(گانٹھ)،خصیہ ،پتہ جو کلیجی میں تلخ پانی کا ظرف ہوتاہے،اور بہنے والا خون،یہ سب قطعی طور پر حرام ہیں۔حرام مغز جو ریڑھ کی ہڈی میں سفید مادہ ہوتاہے اس کو بھی کھانا منع ہے۔(دیکھئے فتاوی دارالعلوم دیوبند،۱۵/۴۶۷،فتاوی محمودیہ ،۱۷/۲۹۸)
مسئلہ :اوجھری کا کھانا جائز ہے البتہ کراہت طبعی الگ چیز ہے۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند،۱۵/۴۶۸)
مسئلہ : اگرقربانی میں عقیقہ ،ولیمہ،یانفل کی نیت ہو یا آں حضور ﷺ یا کسی میت کی طرف سے قربانی کی نیت ہوتو ایسے گوشت کو سب کھا سکتے ہیں؛ البتہ اگر وصیت ،یا نذر کی نیت ہو تو ایسے گوشت کو مستحقین(فقراء) میں صدقہ کر نا ضروری ہے۔(رد المحتار ۹/،۴۷۴،۴۷۳،۴۷۲)
مسئلہ : قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا جائز ہے۔(ہندیہ ۵/۳۰۰،اعلاء السنن ۱۷/۳۶۰،فتاوی دارالعلوم دیوبند،۱۵/۵۷۰)
مسئلہ :گوشت کو فریج میںیا کسی اور طریقہ سے لمبی مدت تک رکھنا جائز ہے ۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آں حضور ﷺ نے پہلے قربانی کے گوشت کہ تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا پھر کہا کہ کھاؤاور جمع کر کے رکھو۔ ( صحیح مسلم ، حدیث نمبر: ۵۱۰۴)
کھال کا مصرف:
کھال کا حکم گوشت جیسا ہے ۔صاحب قربانی اس کو اپنے استعمال میں لا سکتاہے اور کسی کودے بھی سکتا ہے البتہ اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کر نا ضروری ہے۔مدارس میں دینے کی صورت میں چوں کہ اہل مدارس کھال دینے والے کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں اس لیے بیچنے کی صورت میں صرف مستحق طبہ پر خرچ کر سکتے ہیں۔مسئلہ : جانور کے ساتھ جو ررسی،ہار وغیرہ رہتاہے ان کو بھی صدقہ کر دینا چاہیے۔(درمختار ۹/۴۷۴)