ایک انقلابی کا جنم

ڈاکٹر زین شمسی

زین شمسی
زین شمسی

بحران میں موقع ہوتا ہے اور موقع میں تحفہ اور کیریئر دونوں۔ کنہیا کمارکو مودی سرکار کے سماجی بحران نے ہیرو بنا دیا۔رہا سوال اس تقریر کا جسے ایک لاکھ بار سے زائد سنا جا چکا ہے اور پہلی مرتبہ کسی اسٹوڈنٹ کی تقریر کو انگریزی سمیت کئی ہندوستانی زبانوں میں ڈب کر کے اپ لوڈ کیا گیا ۔ ہندوستان کے تمام ٹی وی چینلوں نے 50منٹ کی اس تقریر کو بغیر بریک لگائے لائیو کاسٹ کیا گیا ہو،یہ بتاتا ہے کہ ملک کے عوام کو قومی لیڈر کی نہیں ایک انقلابی کی ضرورت ہے۔جب جب کوئی تقریر کسی کو مسحور کرتی ہے ،لوگ اس میں ایک بہترین لیڈر کی تلاش کرتے ہیں۔ کنہیا کمار کو بھی مستقبل کا لیڈر تصور کیا جا رہا ہے ،لیکن بات اس سے کہیں آگے کی ہے۔
جب پارلیمنٹ نہیں چل رہی ہوتی ہے ،تو ملک کے کسی نہ کونے میں سماجی انتشار کی بھٹی سلگ رہی ہوتی ہے اور منتری سے لے کر سنتری تک ،وکلا سے لے کر پولیس تک بے لگام بیان بازیوں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور جب پارلیمنٹ چلتی ہے تو انہیں واقعات کی پردہ پوشی کے لیے تقریروں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آجکل یہی ہورہا ہے۔ پہلے اسمرتی ایرانی نے مکالمہ سے بھرپور تقریرکی ،بعد میں پتہ چلا کہ اسکرپٹ رائٹر نے اس میں غلط حقائق کا پنچ جھونک دیا تھا، بھکتوں نے بغیر سوچے سمجھے انہیں اسمرتی ماتا کا خطاب دے دیا، تاہم اسی ماتا نے دوسرے ہی دن مایاوتی کو اپنا سر کی پیشکش کی کیونکہ ان کی تقریر جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو گئی۔ اس کے بعد راہل گاندھی نئے اوتار میں ظاہر ہوئے ،انہوں نے مودی کے تمام منصوبوں اور کارکردگیوں پر جھاڑو پھیرتے ہوئے بہترین طریقے سے اپنی بات رکھی،ان کی تقریر کے بعد کپتان مودی کو اپنی ٹیم کو محتاط کرنا پڑا۔ اب باری تھی تقریر کے بادشاہ محترم نریندر مودی کی۔سب کی ترقی سب کا وکاس کا معرکۃ الآرا نعرہ کے درمیان پرمغز تقریر سے لوک سبھا میں خود کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی،درمیان میں وہ طنز کے تیر بھی برساتے رہے ،اور گوالکر ،دین دیال اپادھیائے ،باجپئی کی جگہ نہرو ،اندرا اور راجیو کا ذکر کرتے ہوئے راہل کی تقریر کو بوگس قرار دینے کی کوشش کی۔ساتھ ہی دوران تقریر انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کو بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔اس وقت لگا کہ وہ راہل گاندھی کو سمجھا رہے ہیں ،لیکن جب رات کے 11بجے کنہیا کمار کی تقریر شروع ہوئی تو لگا کہ مودی نے یہ جملہ کہیں اپنے آپ کے لییتو نہیں کہا تھاکہ کچھ لوگوں کو بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔
کنہیا کی تقریر ہو گئی ،اس نے پریس کانفرنس بھی کر لیا۔ خود سے زیادہ جے این یو کی لاج بچائی ، وہ لوگ جنہوں نے جے این یو کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی ،کنہیا نے اس بدنامی سے اپنی یونیورسٹی کو نکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ایک بات جو اس کی تقریر میں تھی کہ ہم ہندوستانیوں کو بھولنے کی بہت بری بیماری ہے ،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کنہیا کے معاملہ کو بھی دیش بھول جائے گا یا اسے ایک تاریخی تقریر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔کنہیا کمار نے کم از کم یہ تو دیکھا ہی دیا کہ جے این یو کیا ہے اور کیوں ہے اور کیوں اسے بدنام یا بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کم از کم اس کی تقریر سے ملک کیلوگ یہ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ کنہیا کی ایک تقریر نے اسے ملک کا ہیرو ضرور بنا دیا لیکن جو لوگ جے این یو کو جانتے ہیں ،انہیں یہ تقریر عام سی لگی ہوگی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا کوئی بھی طلبا صدر اسی طرح کی سوچ اور اسی طرح کی زبان رکھتا ہے ،لیکن کبھی معاملہ اس نہج پر نہیں پہنچا کہ لوگ وہاں کے صدر کی تقریر سنیں ،اسی لیے میں نے لکھا کہ بحران میں موقع ہوتا ہے اور موقع ہیرو بناتا ہے۔اس کی تقریر کے بعد بر سراقتدار پارٹی کے لیڈران کہہ رہے ہیں کہ وہ سیاستداں بننا چاہتا ہے ،اسے دوسری پارٹیوں کی بیکنگ ہے ،اگر وہ سیاستداں بننا ہی چاہ رہا ہے تو اس میں کیا برائی ہے ، جو لوگ سیاستداں بن چکے ہیں کیا انہیں نے کبھی ایسی کوئی تقریر کی جس میں ملک کے سماجی تانے بانے کا ذکر ہے ،سماج توڑنے والی تقریر تو سب لوگ کر لیتے ہیں ،سماج کو جوڑنے والی تقریر کتنے سیاستداں کر پاتے ہیں۔
ہاں مگر کنہیاکی تقریر سن کر جتنی خوشی ہوتی ہے اس سے زیادہ ڈر بھی ستاتا ہے کہ کہیں یہ بھی سیاست دانوں کی ٹولی میں شامل ہو کر اس امید ، اس خواب ، اس حوصلہ کو توڑ نہ دے جو پہلے کے بہترین مقرر نے کیا ہے۔ ہندوستان کو انقلابی کی ضرورت ہے نہ کہ سیاستدانوں کی ،کنہیا میں جو آگ ہے ،اس کی تپش ملک کے باشندوں کو محسوس ہوئی ہے۔یہی آگ ہم نے کیجریوال میں بھی دیکھی تھی اور رام لیلا میدان میں ان کی تقریر سن کر یہ احساس ہوا تھا کہ کوئی تازہ ہوا چلی ہے کہیں۔ کیجریوال نے بھی ایسی ہی آگ جلائی تھی جو آج کنہیا کی تقریر سے لگی ہے۔عوام نے کیجریوال کی اسی آگ کو جلائے رکھنے کے لیے اس وقت کیجریوال کا ساتھ دیا جب پورے ملک میں مودی لہر کا ڈنکا بج رہا تھا، دہلی میں بی جے پی اوندھے منہ گری تھی ،لیکن ساتھ ہی ساتھ کیجریوال بھی اوندھے منہ گرے جب انہوں نے اپنے ان ساتھیوں کو باہر کا راستہ دکھانا شروع کر دیا جو ان کے لیے لڑے اور مار کھائے۔ دہلی کی سیاست پر قابض ہونے کے بعد ان کا انقلابی من نہ جانے کہاں کھو گیا اور وہ بھی سیاست کی ابجد سے دہلی کی تاریخ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ تاہم اب بھی کبھی کبھی ان کا انقلابی من کروٹیں لیتا ہے اور عام آدمی کی امید ان کے فیصلوں سے جاگ اٹھتی ہے۔ کیجریوال کے بعد وہی سوچ ، وہی نظریہ ،وہی آگ کنہیا کی تقریر میں دیکھنے کو ملی ہے۔ اس نے اپنی تقریر ہراس بات کا احاطہ کیا جس سے ملک کے عوام نبرد آزما ہیں۔
جہاں تک میں جے این کو جانتا ہوں ،جے این یو ذہن بناتا ہے اور اپنی لڑائی قانون اور آئین کے دائرہ میں لڑتا رہا ہے۔ ابھی لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے۔ ابھی انربان اور عمر خالد جیل میں ہیں ،حالانکہ ان کے خلاف بھی پولیس کو کوئی ثبوت نہیں مل پایا ہے ،اس کے باوجود انہیں عدالتی حراست میں رکھا گیا ہے۔ اب کنہیا اور ان کی یونین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو سرکاری مشینریوں سے آزاد کرانے کی لڑائی لڑیں ،لیکن ساتھ ہی ساتھ کنہیا کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے وہ اپنے ساتھیوں سے دغا نہ کریں۔اتنے کئی بائیں بازو کے لیڈران اسی جے این یو میں پیدا ہوئے جو باہر آکر کانگریس اور بی جے پی میں شامل ہو گئے، یعنی اپنے مفاد میں اپنے ان نظریات کو سولی پر چڑھا دیا جس نے اسے قد آور بنایا۔
حکومت ضرور پریشان ہوئی ہے اور وہ اس مثبت سیاست کو توڑنے کا منصوبہ بنا رہی ہوگی ۔ پانچ ریاستوں کے الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے۔ روہت ویمولا ،جے این یو معاملہ ، جاٹ تحریک کے نقصانات ، آگرہ میں وزیر کی اشتعال انگیزی ، آر ایس ایس اور ہندو تنظیموں کا کھلے عام مسلمانوں کو مارنے اور بھگانے کا اعلان، ترقی کا ہدف نہ پانے کا افسوس ،سرمایہ کاری کی سست رفتاری ، اور مودی کا ٹوٹتا جادو ان انتخابات پر اثر اندازہو گا۔اس کے لیے مودی اینڈ پارٹی اپنی حکمت عملی بنا رہی ہوگی؟
(مضمون نگار روزنامہ خبریں میں جوائنٹ ایڈیٹر ہیں )

SHARE