ینگون(ملت ٹائمز)
میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کئے جانے کی خبریں ساری دنیا کی میڈیا میں گونج رہی ہیں لیکن بہت کم لوگ اس شخص کے بارے میں جانتے ہیں جو روہنگیا مسلمانوں کی بربادی کے لئے سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
صحافی ڈینی گولڈ نے حال ہی میں میانمار جا کر اس شخص کا انٹرویو کیا، جس کا احوال انہوں نے ویب سائٹ VICE.COM پر شائع ہونے والے خصوصی مضمون میں بیان کیا ہے۔ ڈینی گولڈ بدھ مت کے اس شدت پسند رہنما کے ساتھ اپنی ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں ” یہ بدھ بھکشو، جسے لوگ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل سمجھتے ہیں، اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہے۔ وہ پرسکون ہے اور فروٹ شیک سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ اس کا نام آشین ویراتھو ہے۔ آشین کا کہنا ہے کہ اسے بالکل غلط سمجھا گیا ہے۔ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ’میں ہمیشہ لوگوں کو پرامن طریقے سے رہنے کی تلقین کرتا ہوں اور مسلمانوں کے ساتھ بھی پرامن بقائے باہمی کی تبلیغ کرتا ہوں۔‘
دوسری جانب، گزشتہ ہفتے آشین نے ہزاروں بدھ بھکشوں کو اکٹھا کرکے ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کا مقصد ایک مجوزہ قانون کیلئے حمایت حاصل کرنا تھا، جس کا مقصد بدھ مذہب، اس کے ماننے والوں اور اس کی تہذیب و ثقافت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ مجوزہ قانون کے مطابق اگر کوئی بھی بدھ خاتون کسی مسلمان مرد سے شادی کرنا چاہے گی تو اسے اپنے والدین اور مقامی سرکاری حکام سے اجازت لینی ہوگی۔ اگر کوئی مسلمان مرد کسی بدھ خاتون سے شادی کرنا چاہے گا تو اسے پہلے اپنا مذہب چھوڑ کر بدھ مت اختیار کرنا ہوگا، اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کو 10 سال قید کی سزا ہوگی اور اس کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔ اس کے برعکس مسلمان خواتین سے شادی کرنے والے بدھ مت کے پیروکاروں کو مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ صرف اور صرف بدھ مت کے پیروکار ہی رہیں گے۔
آشین اور اس کے ماننے والوں کا موقف ہے کہ میانمارمیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی بدھ مت کیلئے خطرہ بن رہی ہے۔ وہ اس کی وجہ بنگلہ دیش سے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان مسلمانوں کے ہاں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ایسے انتھک کارندے کہتے ہیں جو دوسروں کا مذہب تبدیل کروانے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔
اگرچہ اس شخص پر الزامات ہیں کہ وہ ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کا سبب بنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ الٹا بدھ مت کے ماننے والوں کو مظلوم قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کا مذہب اور جان و مال مسلمانوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔“
تقریباً نصف دہائی قبل میانمارکے منڈالے شہر کے ایک قریبی قصبے میں جنم لینے والے آشین کو اس کے شدت پسندانہ خیالات کی وجہ سے ’برمی بن لادن‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ عالمی میڈیا میں اس کے پرتشدد کردار کے بارے میں متعدد مضامین اور رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں، لیکن برما میں اسے بہت مقبولیت حاصل ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ آشین کے منظر عام پر آنے سے پہلے بھی روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ہوتے تھے لیکن اس کے مذہبی خطبات اور شدت پسند تحریک نے روہنگیا مسلمانوں کے لئے میانمار کو بے حد خطرناک جگہ بنا دیا ہے۔ صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتاہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد میانمار سے نکلنے کی کوشش میں یا تو قتل کردی گئی ہے یا خطرناک جنگلوں اور دریاﺅں کو پار کرتے ہوئے موت کا شکار ہوگئی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان)