تاجکستان دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں سے ایک ہے ،ساتویں صدی میں یہاں اسلام آگیا تھا، عباسی دور حکومت میں یہ سرزمین باضابطہ طور پر اسلامی ریاست کا حصہ بن گئی، اسی اسلامی ریاست عالم اسلام کو سمرقند اور بخارا جیسا شہر دیاہے جو تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ صدیوں تک حدیث اور علوم فنون کا گہوراہ رہا اور قرآن کریم کے بعد سب سے حدیث کی سب سے معتبر مانی جانی والی کتاب بخاری شریف کے مصنف محمد بن اسماعیل نے اسی سرزمین پر جنم لیا تھا،
یہ وسط ایشیا کا ایک خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے۔ اس کی سرحدیں جنوب میں افغانستان، مغرب میں ازبکستان، شمال میں کرغزستان اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں، برسوں تک یہ ریاست سویت یونین کا حصہ رہی پھر سویت یونین کے خاتمہ کے بعد اس ریاست کو 9 ستمبر 1991 میں آزادی ملی ، جن ممالک کو آزادی ملی ہے، ان میں تاجکستان بہت اہم ہے ،آج وہاں یوم آزادی منائی جارہی ہے ۔
اسی مناسبت سے ملت ٹائمز اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے وہاں کی تاریخ ( ادارہ )
جمہوریہ تاجکستان (تاجک: جمہوری توجکستون) وسط ایشیا کا ایک خشکی میں گھرا ہوا (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں جنوب میں افغانستان، مغرب میں ازبکستان، شمال میں کرغزستان اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ یہ تاجک نسل کے باشندوں کا وطن ہے، جن کی ثقافتی و تاریخی جڑیں ایران میں پیوست ہیں اور یہ فارسی سے انتہائی قربت رکھنے والی زبان تاجک بولتے ہیں۔ سامانی سلطنت کا گہوارہ رہنے والی یہ سرزمین 20 ویں صدی میں سوویت اتحاد کی باضابطہ جمہوریہ رہی جسے تاجک سوویت اشتراکی جمہوریہ (Tajik Soviet Socialist Republic) کہا جاتا تھا۔
سوویت اتحاد سے آزادی ملنے کے بعد تاجکستان 1992ء سے 1997ء تک زبردست خانہ جنگی کا شکار رہا۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سیاسی استحکام، غیر ملکی امداد اور ملک کے دو بڑے قدرتی ذرائع کپاس اور المونیم نے ملکی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا۔
تاجکستان کا مطلب ہے ” تاجکوں کا وطن ” جیسا کہ ایران اور اس سے ملحقہ بیشتر ممالک کے ناموں کے ساتھ ” استان ” لگتا ہے جیسے پاکستان، افغانستان وغیرہ۔
جدید تاجک سامانی سلطنت کو پہلی تاجک ریاست مانتے ہیں۔ دار الحکومت دوشنبہ کی یہ یادگار سامانیوں کے جد اعلی اسماعیل سامانی کے اعزاز میں بنائی گئی ہے
یہ سرزمین ، جہاں اب تاجکستان واقع ہے، 4 ہزار قبل مسیح سے مستقل آباد ہے۔ یہ علاقہ تاریخ میں مختلف سلطنتوں کے زیر نگیں رہا ہے۔ قبل از مسیح میں یہ علاقہ باختر کی سلطنت کا حصہ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام یہاں بھی داخل ہوا۔ عباسی دور کے آخر میں جب سلطنت اسلامیہ کے مختلف حصوں میں نئی ریاستیں وجود میں آئیں تو اولین ریاستوں میں سے ایک ریاست سامانی سلطنت یہاں وجود میں آئی تھی جس نے سمرقند اور بخارا کے شہر بنائے جو تاجکوں کے ثقافتی مراکز بنے۔ بعد ازاں منگولوں نے وسط ایشیا پر عارضی طور پر قبضہ کیا۔ سلطنت روس کا حصہ بننے سے پہلے یہ علاقہ امارت بخارا میں شامل تھا۔
19ویں صدی میں سلطنت روس نے وسط ایشیا پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے اور تاجکستان پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1917ئ میں زار روس کی سلطنت کے خاتمے کے بعد وسط ایشیا میں بسماچی تحریک کا آغاز ہوا جنہوں نے آزادی کے لیے سرخ افواج کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ لیکن اس تحریک کو کچل دیا گیا اور یہ علاقہ سوویت اتحاد کا حصہ بن گیا۔ اشتراکی دور میں یہاں مذہب بالخصوص اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا اور مساجد و عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا۔
قیام جمہوریہ
1924ءمیں تاجک خود مختار اشتراکی جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا گیا جو ازبکستان کا حصہ تھی لیکن 1929ئ میں تاجک سوویت اشتراکی جمہوریہ کو دستوری جمہوریہ کے طور پر الگ کیا گیا۔ ماسکو نے وسط ایشیا کی ریاستوں میں سب سے کم تاجکستان پر توجہ دی اور یہ طرز زندگی، تعلیم اور صنعت میں وسط ایشیا کی تمام ریاستوں میں سب سے پیچھے رہی۔ 1970ء کی دہائی میں مختلف نظریات کی حامل خفیہ اسلامی جماعتیں قائم ہوئیں اور 1980ئ کی دہائی کے اواخر میں تاجک قوم پرستوں نے اضافی حقوق دینے کا مطالبہ کیا۔ 1990ئ تک علاقے میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ پیدا نہیں ہوئی۔ اگلے ہی سال سوویت اتحاد ٹوٹ گیا اور تاجکستان نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
آزادی کے فوراً بعد ملک بد ترین خانہ جنگی کا شکار ہوا جس میں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے قبائل آمنے سامنے ہو گئے۔ اس عہد میں غیر مسلم آبادی، جو زیادہ تر روسیوں اور یہودیوں پر مشتمل تھی، ایذا رسانی کے خوف، بڑھتی ہوئی غربت اور مغرب میں بہتر اقتصادی مواقع ملنےکے باعث ملک سے فرار ہو گئی۔ 1992 میں امام علی رحمانوف برسراقتدار آئے اور اب تک ملک کے حکمران ہیں۔ 1997ئ میں رحمانوف اور حزب مخالف کی جماعتوں ( تاجک متحدہ حزب اختلاف ) کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ 1999ء میں پر امن انتخابات کا انعقاد ہوا، اور رحمانوف ایک مرتبہ پھر ملک کے صدر قرار پائے۔ حزب مخالف نے ان انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے روسی افواج موسم گرما 2005ء تک ملک میں موجود رہیں۔ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد سے امریکی و فرانسیسی افواج اس ملک میں موجود ہیں۔
جغرافیہ[ترمیم]
خلا سے تاجکستان کا منظر
تاجکستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور رقبے کے لحاظ سے وسط ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ سلسلہ کوہ پامیر اس ملک کے بیشتر حصے پر پھیلا ہوا ہے اور ملک کا پچاس فیصد سے زائد کا علاقہ سطح سمندر سے 3 ہزار میٹر (تقریباً 10 ہزار فٹ) سے اونچا ہے۔ کم بلند زمین کا واحد علاقہ شمال میں وادی فرغانہ اور جنوبی کافرنگان اور وخش کی وادیاں ہیں جو آمو دریا کو تشکیل دیتی ہیں اور یہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ دوشنبہ جنوبی ڈھلوانوں پر وادی کافرنگان کے اوپر واقع ہے۔
آمو دریا اور پنج دریا افغانستان کے ساتھ سرحد تشکیل دیتے ہیں۔ کوہ اسماعیل سامانی (7495 میٹر)، کوہ آزادی (7174 میٹر) اور کوہ ابن سینا (6974 میٹر) ملک کی تین بڑی چوٹیاں ہیں۔
انتظامی تقسیم
ملک مختلف خطوں یا صوبوں میں تقسیم ہے جنہیں ولایت (تاجک: ولویت) کہا جاتا ہے۔
1۔ سغد ولایتی (خوقند)
2۔ دوشنبہ میں قومی حکومت کے زیر انتظام علاقہ، جن میں کوئی ولایتی سطح کی انتظامی تقسیم نہیں۔
3۔ خطلون ولایتی
4۔ ولایتی مختاری کوہستانی بدخشاں (Gorno-Badakhshan Autonomous Province)
بیرونی علاقے
تاجکستان کے تین بیرونی علاقے (exclave) بھی ہیں جو وادی فرغانہ میں واقع ہیں جہاں کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان آپس میں ملتے ہیں۔ ان بیرونی علاقوں میں سب سے بڑا وروخ ہے جس کی آبادی 23 سے 29 ہزار ہے جس میں سے 95 فیصد تاجک اور 5 فیصد کرغز ہیں۔ یہ علاقہ کرغز علاقے میں اسفارا سے 45 کلومیٹر جنوب میں دریائے کرفشیں کے کنارے واقع ہے۔ دونوں بیرونی علاقہ کرغزستان میں کائراغچ کے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی آبادی ہے جبکہ آخری سروان کا کاو ¿ں ہے جو ایک زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ ہے (15 کلومیٹر طویل اور ایک کلومیٹر عریض) جو انگرین سے خوقند کے درمیانی راستے پر واقع ہے۔
تاجکستان میں کوئی اندرونی علاقہ (enclave) نہیں۔
سیاست
آزادی کے فوراً بعد تاجکستان مختلف فریقین کے درمیان لڑائی کے باعث خانہ جنگی کا شکار بن گیا، جنہیں مبینہ طور پر ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ خانہ جنگی کے دوران تمام 4 لاکھ روسی باشندے، سوائے 25 ہزار کے، اس علاقے سے روس چلے گئے۔ 1997ءمیں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور 1999ئ میں پر امن انتخابات کے ذریعے مرکزی حکومت قائم ہوئی۔
تاجکستان باضابطہ طور پر ایک جمہوریہ ہے جہاں صدر اور پارلیمان منتخب کرنے کے لیے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ آخری انتخابات 2005ء میں ہوئے اور گزشتہ تمام انتخابات کی طرح ان انتخابات کو بھی بین الاقوامی مبصرین نے غیر منصفانہ قرار دیا۔
حزب اختلاف کی کئی اہم جماعتوں نے 6 نومبر 2006ء کو ہونے والے انتخابات کا مقاطعہ کیا جن میں 23 ہزار اراکین پر مشتمل اسلامی نشا ثانیہ پارٹی بھی شامل تھی۔ تاجکستان اس وقت تک وسط ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں متحرک حزب اختلاف موجود ہے۔پارلیمان میں حزب اختلاف کے اراکین کا بسا اوقات حکومتی اراکین سے تصادم ہوتا رہتا ہے تاہم اس سے بڑے پیمانے پر کوئی عدم استحکام پیدا نہیں ہوا۔
معیشت
تاجکستان اشتراکی عہد ہی سے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ایک غریب ریاست تھی اور آزادی کے فوری بعد خانہ جنگی نے اس کی معیشت کو لب گور پہنچا دیا۔ 2000ئ میں بحالی کے منصوبوں کی مدد کے کا سب سے اہم ذریعہ بین الاقوامی امداد ہی تھی۔ بین الاقوامی امداد نے خطے میں غذائی پیداوار کی مسلسل کمی اور قحط کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ 21 اگست 2001ءکو صلیب احمر نے اعلان کیا کہ قحط تاجکستان کو نشانہ بنا رہا ہے اور تاجکستان اور ازبکستان کے لیے بین الاقوامی امداد کا مطالبہ کیا۔
خانہ جنگی کے بعد تاجکستان معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے 2004ءکے درمیان تاجکستان کے جی ڈی پی میں 9.6 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تا جکستان کی معیشت میں آمدنی کے بنیادی ذرائع ایلومینیم کی پیداوار،کپاس کی کاشت اور بیرون ملک مقیم تاجک باشندوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ہیں۔ تاجکستان کے جی ڈی پی کا تقریباً 47 فیصد حصہ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے آتا ہے۔بیرون ملک مقیم باشندوں میں 90 فیصد روس میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ملک کا صرف 7فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اور کپاس سب سے اہم زرعی پیداوار ہے۔اس کے علاوہ اجناس ،پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ تاجکستان اپنی خوراک کی ضروریات کا تقریباً 60 فیصد حصہ درآمد کرتا ہے۔ معدنیات میں سونا،چاندی،یورینیم اور ایلومینیم زیادہ اہم ہیں۔ایلومینیم کی صنعت حکومتی تحویل میں ہےاور تاجکستان کا ایلومینیم پلانٹ وسطی ایشیا میں سب سے بڑا پلانٹ ہے۔
اعداد و شمار
تاجکستان کی آبادی جولائی 2006ئ کے اندازوں کے مطابق 7،320،815 ہے۔ سب سے بڑا نسلی گروہ تاجک ہے، جبکہ ازبک باشندوں کی بڑی تعداد بھی تاجکستان میں رہائش پزیر ہے۔ روسیوں کی تھوڑی سی آبادی بھی یہاں رہتی ہے جو ہجرت کے باعث کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کی باضابطہ زبان تاجک فارسی ہے جبکہ کاروباری و حکومتی معاملات میں روسی زبان بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ غربت کے باوجود تاجکستان میں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے اور تقریباً 98 فیصد آبادی لکھنے و پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک کی اکثر آبادی اسلام کی پیروی کرتی ہے جن میں سنی بہت بڑی اکثریت میں ہیں جبکہ شیعہ مختصر اقلیت میں ہیں۔ بخاری یہودی دوسری صدی قبل مسیح سے اس علاقے میں رہتے ہیں تاہم آج ان کی تعداد چند سو ہی ہے۔