جنرل اسمبلی کے خطاب میں اقوام متحدہ کی ساخت پر طیب اردگان کی شدید تنقید، میانمار میں جاری مسلم نسل کشی پر عالمی سربراہان کو لتاڑا، عالم اسلام سے متحد ہونے کی اپیل

نیویارک : (ملت ٹائمز / ایجنسیاں )
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ایک دفعہ پھر عراقی کرد علاقائی انتظامیہ سے 25 ستمبر کو متوقع آزادی ریفرینڈم سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کے 72 ویں جنرل کمیٹی اجلاس میں عالمی رہنماوں سے خطاب میں صدر ایردوان نے کہا ہے کہ عراقی کرد علاقائی انتظامیہ کا ریفرینڈم کا فیصلہ علاقے میں نئی جھڑپوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
انہوں نے وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس موضوع پر ترکی کے واضح اور دو ٹوک روّیے سے لاپرواہی، عراقی کر دعلاقائی انتظامیہ کو اس وقت حاصل امکانات سے بھی محروم کرنے والے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔
صدر ایردوان نے کہا ہے کہ علاقے میں داعش کے خلاف جدوجہد کا دعوی کرنے والے گروپوں اور طاقتوں کے ایک بڑے حصے کا یقیناً دہشت گردی کو ختم کرنے جیسا کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ یہ گروپ اور طاقتیں داعش کو اپنے مفادات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علیحدگی پسند دہشتگرد تنظیم PKK کی شامی شاخ PYD اور YPG کی، اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ڈیموگرافک ساخت کو تبدیل کرنے، عوام کے مال پر قبضہ کرنے، دہشت گرد تنظیم کے مفادات کی نفی کرنے والوں کو ہلاک کرنے یا ہجرت پر مجبور کرنے جیسی، کوششیں انسانی جرم ہیں۔
صدر ایردوان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر داعش کے خلاف جدوجہد کو قانونی شکل میں جاری نہ رکھا گیا تو دنیا کے لئے داعش جیسی نئی دہشتگرد تنظیموں کا خطرہ ناگزیر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ 6 سال سے شامی عوام خانہ جنگی کے پنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور بین الاقوامی برادری کے اسے اس مصیبت میں تنہا چھوڑنے کے باوجود ترکی شامی بحران کو حل کرنے کے لئے تمام تر سیاسی اور انسانی کوششیں کر رہا ہے۔
ترکی کے 3 ملین شامی اور 2 لاکھ عراقی مہاجرین کی میزبانی کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ان مہاجرین پر خرچ کئے جانے والے مصارف کا 30 بلین ڈالر ہمیں ملا ہے لیکن یورپی یونین نے جس امداد کا وعدہ کیا تھا وہ ہمیں فراہم نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 3.2 ملین مہاجرین کا بوجھ صرف ترکی کے کندھوں پر ڈالنے والے تمام ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔
خلیج کے علاقے میں 15 جون سے لے کر اب تک جاری بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ قطر کے عوام پر لگائی گئی پابندیوں کو ہٹایا جانا ضروری ہے اور ہم قطر بحران کے حل کی کوششوں میں کویت کی ثالثی کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
میانمار کے روہینگیا مسلمانوں کو نسلی صفائی کے المیے کے ہاتھوں میں تنہا چھوڑے جانے کا ذکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اس امتحان میں بھی سرخرو نہیں ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ ترکی اس بحران کے حل کے لئے بھی کوششیں کر رہا ہے۔ میرے کنبے کے بعض افراد اور بعض وزراء نے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہینگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ کیا اور ترکی میں انسانی امداد کی سرکاری اور سول سوسائٹیاں ان لوگوں کی مدد کے لئے کمر بستہ ہو گئی ہیں۔
صدر رجب طیب نے کہا کہ اس المیے پر قابو نہ پایا گیا تو انسانیت کی تاریخ پر ایک اور سیاہ دھبہ لگ جائے گا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 5 رکنی ساخت پر “دنیا 5 سے بڑی ہے ” کے الفاظ کے ساتھ ایک دفعہ پھر تنقید کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے اس ساخت کے متبادل کے طور پر مساوی حقوق کے حامل 20 رکنی ساخت کی تجویز پیش کی اور ان الفاظ کے ساتھ اپنے خطاب کو ختم کیا کہ “ہماری آنکھوں کا رنگ خواہ کچھ بھی ہو آنسووں کا رنگ ایک جیسا ہے”۔