عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
اعتدال ومیانہ روی، دین اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر معاملہ اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اعتدال و میانہ روی کا مطلب ہے: تمام احکام وامور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ شدت ہو اور نہ از حد کو تاہی۔ جب دین اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے جو اس کو تمام ادیان سے ممتاز بناتی ہے ، تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبرار ہے ،اللہ کا ارشاد ہے۔مفہوم:اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ تم پر گواہ ہوجائیں۔( البقرۃ: ۱۴۳)
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے :’’ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نے اس امت کو’ امت وسط ‘ کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کر تے ہیں، نہ تو ان کے یہاں نصاری جیسا غلوہے جنھوں نے رہبانیت کی دعوت دی اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں انتہاء پسندی پر مبنی باتیں کہیں ،اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں کا تصور ہے کہ اللہ کی کتاب میں تبدیلی پیدا کرڈالی ، ا نبیاء کا قتل کیا ،اپنے رب پر جھوٹ باندھا اور اس کے ساتھ کفر اختیار کیا ؛ لہٰذا اللہ نے اس امت کا یہ وصف اس لئے بیان کیا کہ اللہ کو اعتدال ومیانہ روی پسند ہے‘‘۔علماء تفسیرنے ’وسط‘ کے معنی عادل کے بھی لئے ہیں۔ دونوں معنوں میں تعارض اس لئے نہیں ہے کہ میانہ رووہی ہو گا جس کے یہاں عدل ہوگا۔
اسلام نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے، بلکہ غلو و تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سے ڈرایا بھی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ کی ان دعائیہ آیتوں سے واضح ہے جن کوہمیں پوری سورت کے ساتھ اپنی ہر نمازکے ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ؛تاکہ نہ صرف یہ کہ ہم بغیر کسی افراط و تفریط کے ہمیشہ راہ حق و اعتدال پر گام زن رہیں بلکہ اپنے رب سے اس کی توفیق کے طالب بھی بنے رہیں، فرمان ربانی ہے ۔ مفہوم: ہمیں سیدھی راہ دکھا ان لوگو ں کی راہ جن پر تونے انعام کیا ، ان کی نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا او ر جو گمراہ ہوئے ۔( الفاتحۃ: ۶ و ۷)
علماء تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ ’المغضوب علیھم ‘سے مراد یہودی ہیں اور ’الضالین ‘سے مراد نصاری ہیں، اور ان دونوں گروہو ں کی کج روی کا اندازہ آپ نے امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی باتوں سے لگا لیا ہو گا کہ وہ راہ استقامت سے ہٹ گئے تھے ۔ یہودیوں کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے صحیح راستہ پر نہیں چلتے تھے، آیات الہی میں اپنی خواہشات کے مطابق تحریف و اضافہ سے گریز نہیں کر تے تھے ۔ نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے، برائیوں سے نہیں روکتے تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ’ابن اللہ‘کہتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے حضرت عیسی السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں ’ابن اللہ‘ اور ’ثالث ثلاثۃ‘ یعنی اللہ کا بیٹا اور تین خداؤں میں سے ایک قراردیا، اور رہبانیت یعنی ترک دنیا کی بدعت ایجاد کی۔
یہود ونصاری کی غلو وتقصیر اور افراط وتفریط کے برعکس ہمارے دین نے اعتدال کی راہ دکھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں جو کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، ’’سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا‘‘( متفق علیہ) کی تعلیم دی۔’ قاربوا‘ کا مطلب ہے درمیانی راستہ اپناؤ ،اور ’سدّدوا ‘کا مطلب ہے اس راستہ پر جم جاؤ اور استقامت اختیار کرو۔یہی ہمارے دین کا قول واعتقاد ، عمل و عبادات اور معاملات وضروریات میں شیوہ ہے ۔مثال کے طور پر عقیدے کے باب میں ہم یہ پاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدح و تعریف میں حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ؛تاکہ اللہ کے ساتھ شرک نہ واقع ہو جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَاتُطْرُوْنِی کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابنَ مَرْےَمَ ،فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ‘‘(بخاری)
(میری مدح سرائی میں غلو وانتہا پسندی سے کام نہ لو جیسا کہ نصاری عیسی بن مریم کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ گئے،میں صرف ایک بندہ ہوں تو مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہاکرو)۔
اسی طرح عبادات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو مشقت و ہلاکت میں ڈالنے ، یا دنیا سے بے تعلقی اختیار کرلینے سے منع فرمایا۔
عبادتوں میں میانہ روی کی تاکیدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حدیثوں سے ثابت ہے ، جن میں ایک مشہور متفق علیہ حدیث ہے: جس کا خلاصہ ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتوں کے بارے میں دریافت کر نے کے لئے آپ کے گھر والوں کے پاس آئے ،جب انہیں تفصیل بتائی گئی تو انھوں نے اسے کم خیال کیا اور کہا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ؟ ان کے تو سارے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ؛لہٰذا ایک نے ہمیشہ نماز پڑھنے کا، دوسرے نے مسلسل روزہ رکھنے کا اور تیسرے نے کبھی شادی نہ کرنے کا عہد کیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے یوں تنبیہ فرمائی: سن لو !اللہ کی قسم میں یقیناًتم سب لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اورتقوی اختیار کرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادی بھی کر تاہوں، جس نے ہماری سنت سے بے رغبتی برتی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ہمارے دین اسلام نے گرچہ آخرت کو مطمح نظر اور مقصد حیات بنانے پر سعادت وکامرانی کا دار ومدار رکھا ہے لیکن اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ دنیاوی زندگی کی استواری کے لئے جائز طریقوں سے مال واسباب کا حصول اور مباحات میں اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے، فرمان الہٰی ہے۔ مفہوم:اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش رکھو اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھولو۔ (القصص: ۷۷)
مال کے خرچ، کھانے پینے حتی کہ صدقہ وخیرات میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا۔ مفہوم: اور وہ لوگ جب خرچ کر تے ہیں تو نہ اسراف کر تے ہیں اور نہ کنجوسی ،بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال سے کام لیتے ہیں۔( الفرقان:۶۷)
مزید فرمایا۔ مفہوم:اورکھاؤ پیو اور فضول خرچی نہ کرو۔(الأعراف : ۳۱)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: کھاؤ پیو پہنو اور صدقہ کرو جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو ۔( سنن ابن ماجۃ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات تما م تر اعتدال ومیانہ روی پر مبنی ہیں،چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یادوسرے امور سے۔ یہ عظیم ونمایاں خصوصیت اسی کا حصہ ہے ، جس سے دنیا کے تمام ادیان ومذاہب عاری ہیں اوریہ ان بیش بہا خصوصیات و اوصاف میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے دین اسلام کو دنیا وآخرت میں کامیابی کا و احد ذریعہ ہونے کا امتیازحاصل ہے، اللہ کا اعلان ہے۔ مفہوم:بے شک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔( آل عمران : ۱۹)
اللہ تعالیٰ ہم سب کواپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔ اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والا بنائے۔(ملت ٹائمز )