ڈاکٹر زین شمسی
جب کوئی من کی بات کرتا ہے تو وہ وہی بولتا ہے جو اس کا من کرتا ہے مگر جب کوئی جن گن من کی بات کرتا ہے تب وہ ان سب پریشانیوں اور الجھنوں اور مصیبتوں کی بات کرتا ہے جس سے تمام لوگ نبردآزما ہوتے ہیں …
من کی بات آج کی تاریخ میں دو ہی لوگ کر رہے ہیں۔ ایک پردھان سیوک دوسرے پردھان سیوک کے زرخرید سیوک یعنی میڈیا اور سنگھ بھکت۔
یشونت سنہا بولے یا بلوائے گئے یا بولنے پر مجبور ہوئے یہ بحث الگ ہے، مگر ہر صورت میی یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ انہوں نے جن گن من کی بات کہہ دی .بات اہم اس لیے ہو گئی کہ برہمن اور راجپوت کے غلبے والی برسر اقتدار پارٹی کے ایک سنجیدہ کائستھ لیڈر نے جی ڈی پی کی اصل صورتحال سے پردہ اٹھا دیا اور مودی , جیٹلی اور امت شاہ کے جھوٹ کا محل گرا دیا۔ یشونت سنہا نے وہی بات کہی جو بھارت کے عوام نئی حکو مت میں محسوس اور برداشت کر رہے ہیں، کوئی شعبہ حیات نہیں ہے جہاں عدم اطمنان کا ماحول نہ ہو. تعلیم کا شعبہ تو ایسا چرمرایا ہوا ہے کہ بیچاری لڑکیاں لاٹھیاں کھا رہی ہیں . یوا بھارت کا سپنا دکھا کر مودی سرکار نے یواؤں کو یوواواہنی کا تحفہ دے دیا ہے. جہاں سے نفرت اپنا کمال دکھا رہی ہے۔
بھگت سِنگھ سے بھگت سَنگھ تک کا ہندوستان ہندو مسلمان بن گیا ہے، مذہبی منافرت کا ایسا جال بچھایا گیا ہے جہاں مسائل کے حل کے لیے آدھار کارڈ نہیں مذہب کو آدھار بنا دیا گیا ہے، جی ایس ٹی لگا دو، نوٹ بندی کا گھوٹالہ کر دو ، جی ڈی پی گرا دو، روزگار ختم کر دو، تعلیم اور صحت کا نظام ٹھپ کر دو ، کوئی بات نہیں، بس ہمیں مسلمانوں کا خون اور ان کی پریشانیاں دکھاتے رہو اور ووٹ لیتے رہو؛ مودی سرکار یہ کام بخوبی انجام دے رہی ہے۔
وہ مسلمانوں کو ڈرایا دھمکا نہیں رہی ہے بلکہ چڑآ رہی ہے اورہندوستانی مسلمانوں کی ایک خوبی یہ رہی ہے کہ وہ ایڑا بن کر پیڑا کھانے کے ماہر ہیں. خود کچھ نہیں کرنا ہے .بس سب کچھ ملتا جائے. دو چار مولوی , تین چار نیتا, پانچ چھ دانشور مل کر پورے قوم کی قسمت طے کر رہے ہیں. مسلم بھکتوں کا یہ عالم ہے کہ ایک منٹ میں کسی کو بھی سنگھ کا آدمی قرار دے دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ہزاروں اداروں اور تنظیموں کے رہتے ہوئے ایک آر ایس ایس کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں۔
آر ایس ایس , بجرنگ دل، وی ایچ پی، ہندو یوا واہنی اور دیگر ہندوتو تنظیمیں بھارت میں نہیں بنیں گی تو کیا گلف اور یورپ میں بنیں گی. اس لیے ان تنظیموں پر انگلیاں اٹھا کر کوئی فایدہ نہیں۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ آپ کی تنظیمیں اس کے مقابل کہاں ٹہرتی ہیں، ان لوگوں نے کام کیا، ہم لوگوں نے اخباروں میں فوٹو چھپوائے، تھوڑا سا کام بڑا سا اشتہار۔
اس حکومت سے لڑنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ہمیں اپنے آپ سے لڑنا ہوگا. کیل کانٹے درست کرنے ہوں گے، صفیں سیدھی کرنی ہوں گی۔
مودی اور ان کی ٹیم سے یشونت سنہا، شتروگھن سنہا، راجیو پرتاپ روڑی، رویش، ونود دوا اور بھارت کو دل سے چاہنے والے ہندو خود ہی نمٹ لیں گے۔