مضبوط جمہوریت کیلئے انتشار کی نہیں، اتحادِ ملت کی ضرورت ہے: مختلف مکاتبِ فکر کے دانشوروں کا آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے مرکزی دفتر میں اظہارِ خیال

نئی  دہلی: (ملت ٹائمز) 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 172ملین مسلمان ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ یہ ملک کی آبادی کا 14.2فیصد ہیں اور دوسری سب سے بڑی مذہبی کمیونٹی ہیں۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ یہ تعلیمی ، معیشتی ، معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے کافی پیچھے اور کمزور ہیں، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ملک کی آزادی اور اس کے بعد اس کے تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی اس ملک کو مضبوط جمہوریت کیلئے ان کی ضرورت ہے مگر منتشر نہیں، متحد ملت کی شکل میں۔ کسی بھی ملت میں مختلف ملکوں ، مختلف مکاتب فکر اور مختلف الخیال افراد کا پایا جانا زندگی کی علامت ہوتا ہے لیکن اختلاف سے انتشار میں بدل جانے کی صورت میں یہ جہاں اس ملت کیلئے خطرناک بن جاتاہے وہیں ملک کیلئے بھی نقصاندہ ثابت ہوتا ہے ۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اتحاد کی جتنی ضرورت ملت کو ہے ، اتنی ہی ضرورت وطن عزیز کو ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ہے۔ شاید یہی وہ احساس ہے کہ جوکہ ان دنوں مسلم ملت کے اندر پایا جارہا ہے اور اس کا اندازہ مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں اور اکابرین کے موقف ، آراء اور خیالات کو سن کر اور پڑھ کر ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں 20؍ستمبر کو قومی راجدھانی میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے مرکزی دفتر میں یہی رجحانات دیکھنے کو ملے۔ اس میں مختلف مکاتب فکر اور تنظیموں اور اداروں کے اکابرین اور نمائندے نیز ماہرین موجود تھے۔ تعداد کے لحاظ سے تو یہ دو درجن سے بھی کم تھے مگر حلقۂ اثر کے لحاظ سے یہ قابل ذکر تھے۔ خاص بات تویہ تھی کہ اس چھوٹی سی مگر اہم و غیر معمولی نشست میں مشاورت میں شامل تنظیموں ، اداروں اور شخصیات کے علاوہ دیگر گروپوں اور تنظیموں کے سرکردہ افراد بھی اپنی الگ الگ رائے سے اس کی زینت بڑھا رہے تھے۔ اس کی بہترین مثال صدر مشاورت نوید حامد اور سکریٹری جنرل فاروق مجتبیٰ کے علاوہ دونوں جمعیۃ علماء ہند کے اکابرین مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی، جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری اور نائب امیر نصرت علی، انڈیا یونائیٹڈ مسلم مورچہ اور مشاورت کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے موجودہ امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی مدنی، بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم دین اور اتحاد ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خاں، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری مولانا عتیق بستوی ، انڈین نیشنل لیگ کے صدر محمد سلیمان، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، تمل ناڈو مسلم منتر اکشرھگم (ٹی ایم ایم کے ) کے صدر اور سابق رکن تمل ناڈو اسمبلی ایم ایچ جواہر اللہ، سابق رکن راجیہ سبھا (سی پی آئی) سید عزیز پاشا، معروف دانشور اور سہ ماہی رسالہ ’مطالعات‘ کے ایڈیٹر محسن عثمانی، قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ( این سی ایم ای آئی ) کے سابق چیئرمین جسٹس محمد سہیل اعجاز صدیقی، جامعہ ہمدرد کے سابق وائس چانسلر سراج حسین اور قوئیل فاؤنڈیشن کے سربراہ کے کے سہیل کی اس میں فعال شرکت ہے۔