جماعت اسلامی ہند – تحریک یا تنظیم ؟

یاور رحمان 

اللہ کے دین کے لئے اٹھنے والی تحریک جماعت اسلامی ہند کے ٣٢ ارکان کا بیک وقت اپنی رکنیت سے استعفی دے دینا ہمارے نزدیک ایک عظیم سانحہ ہے۔ ایسا سانحہ جس کی چاپ ایک عرصے سے سنائی دے رہی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ تقریباً آٹھ ہزار ارکان کی بھیڑ سے ٣٢ ارکان کا اٹھ جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے ، مگر جو لوگ ایسا کہہ رہے ہیں وہ اسلامی انقلاب کے لئے برپا ہونے والی تحریکوں کے نیچر سے واقفیت نہیں رکھتے، وہ نہیں جانتے کہ ایسی تحریکیں اس وقت تک کامیاب ہو ہی نہیں سکتیں جبتک کہ اس کے ارکان ایک دوسرے میں پیوست ہوکر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ بن جائیں، یہاں عقیدے اور مقصد میں کامل اتفاق اگر جسم کی حیثیت رکھتا ہے تو محبّت، اخوت اور ایک دوسرے پر آخری درجے کا اعتماد اس رشتے کی روح ہے . ورنہ یہ وہ لڑی ہے جو درمیان سے ذرا بھی ٹوٹ جائے تو بے شمار موتیاں یکبارگی بکھر جاتی ہیں اور نقصان ہو کے رہتا ہے۔

بہر حال، اپنی قیادت سے غیر مطمئن ان اراکین کے بیک دم استعفی دے دینے سے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل مچ گئی ہے۔ انہیں اپنے دریا سے پیاس کی شکایت ہے، ان کو شکایت ہے کہ لہریں بے سمت ہو رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دریا اپنی اخلاقی شفافیت کھوتا جا رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اصلاح کی کوششیں بے سود ہو رہی ہیں، جو بھی ہو اس تکلیف دہ واقعے میں کچھ باتیں بڑی مثبت ہیں، ایک یہ کہ اپنی موجودہ قیادت سے خفا یہ ‘ سرپھرے ‘ اپنی نیتوں میں بڑے مخلص ہیں، ان کی بغاوت اصلاح حال کے لئے ہے قیادت کی حرص کے لئے نہیں، دوسری بات یہ کہ ہماری اطلا ع کے مطابق خود قیادت آج بھی ان کے لئے اپنا ایک گوشہ نرم رکھے ہوئی ہے اور اپنے خفا اراکین کی ‘ گھر واپسی’ کی خواہشمند بھی ہے، مگر ابھی اس کا عملی اظہار باقی ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ یہ افتراق مقصد میں نہیں بلکہ ‘مذہب’ میں ہے، یعنی منزل آج بھی ایک ہی ہے ، راستے جدا ہوئے ہیں اور یہ خود اپنے آپ میں کسی ملّی نقصان کی بات نہیں بلکہ فائدے کی بات ہے۔ غور کیا جائے تو اس میں بھی خیر کے کئی پہلو ہیں، اب سے پہلے بھی کچھ دیوانے تحریک سے جدا ہوئے ہیں اور ان کی جدائی نے تحریک کی اساسی فکر کو مزید وسعت ہی دی ہے کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔
ان تمام خوش گمانیوں کے با وجود دو باتوں کا جاننا بہت اہم ہے، ایک بذات خود تحریک کو، دوسرے ان عوامل کو جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں یا ہوئے ہیں۔

جماعت اسلامی کی تشکیل اصلاً ١٩٤١ میں ہوئی۔ یہ انقلابات کا دور تھا، قوموں کی تقدیریں خدائی حکم کے ‘تبادلوں’ کی زد پر تھیں، کسی کو معزول کیا جا رہا تھا تو کسی کو مامور۔ امّت مرحومہ بھی جرم ضعیفی کی سزا یافتہ ہو کر خلافت کی ایک ایک انچ سے محروم کی جا رہی تھی۔ اس خانہ خرابی کو ٹھیک کرنے کے لئے پورے عالم میں امّت کے فکرمند اکابرین اپنے اپنے طور پر احیائے اسلام کی منظّم کوششوں میں لگے تھے. انہی کوششوں کا ایک ٹھوس نتیجہ جماعت اسلامی کا قیام بھی تھا۔
بیسویں صدی کی یہی وہ جولانگاہ عمر تھی جس نے خود ہمارے ملک غیر منقسم ہوندستان میں بھی ایک زبردست انقلابیت برپا کر رکھی تھی. اور یہاں بھی خوے محکومی میں طاق ہو چکے کروڑوں مسلمانو ں کا ‘قبلۂ قیادت’ تبدیل ہو رہا تھا۔ انگریزوں کی جبریہ سلطنت اپنے استخوانی ڈھانچے کو سمیٹ کر برطانیہ کی واپسی کا ٹکٹ خرید چکی تھی اور آزادی کا فرحت انگیز احساس جہاں عام دلوں پر پھوار بن کر برس رہا تھا وہیں سنجیدہ اور فکرمند ذہنوں میں اندیشے بھی سر ابھار رہے تھے، پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، انگریز چلے گئے مگر جاتے جاتے تقسیم ملک کا وہ ‘پن بم’ لڑھکا گئے جو پھٹا اور اس شان سے پھٹا کہ اک عرصۂ دراز تک مٹی کی سوندھی خوشبو انسانی لہو کی بساندھ میں تحلیل ہوتی رہی۔
یہ زمین کی تاریخ کا اندوہناک واقعہ تھا. سرحدوں کی تقسیم نے ‘ بہت سے محب الوطنوں’ کو ‘محب الشیطان’ بنا دیا تھا. ہندو مسلم قومیت کی دو پتنگیں آپس میں کچھ اس طرح لڑی تھیں کہ ان کے دھاگوں کے ‘ مانجھے’ انسانی سروں کو ان کے تن سے جدا کرنے کی گویا ولایتی مشین بن گئے تھے، بیشک تقسیم ملک کی یہ بھاری قیمت اس قوم کو زیادہ چکانی ہی تھی جو اپنی نا اہلی کی دیرینہ روایات پر ڈٹے رہنے کے ساتھ ساتھ ایک نئی مسلمان ریاست لے بیٹھی تھی. آخرش جن کو جانا تھا وہ تو چلے گئے. وہ جو لکیر کے اس پار ہی رہ گئے تھے انکا حال ویسا ہی تھا جیسا فسادیوں کی بے قابو بھیڑ میں پھنس جانے والے کمزور دلوں کا ہوتا ہے . مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے سامنے مسائل کی بارش تھی. اور وسائل کے نام پر جو کچھ بھی تھا اسکی حیثیت کاغذ کے ناؤ سے زیادہ نہیں تھی، مختلف جماعتیں ، ادارے اور افراد اپنی سی کوششوں میں مصروف تھے، ہر ایک کی حکمت عملی اس کی فراست علمی جیسی تھی . ایک طرف فسادات کے لاکھوں متاثرین کی باز آباد کاری کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کی حاجت تھی تو دوسری طرف ڈرے سہمے عام مسلمانوں کے اندر اعتماد اور حوصلے کی تخم ریزی بھی ضروری تھی۔
پست حوصلوں اور ٹوٹی ہوئی امنگوں کے اس سخت موسم میں جب دین کی اقامت اور اس کی دعوت کا تصور بھی مخالف دلوں میں انگارہ بھر دینے جیسا تھا ، زمینی تقسیم میں دو لخت ہو چکی جماعت اسلامی ہند پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی، اس نے سوچا، مسلمانوں کے فوری اور ضمنی مسائل کے حل کی کوششوں میں اور بھی افراد اور جماعتیں لگی ہوئی ہیں تو کیوں نہ جماعت ایک مکمّل غیر جانبدار داعی گروہ کی حیثیت سے اپنے اسی مشن کے ساتھ از سر نو اٹھے جس کے لئے وہ سات سال پہلے ہی رخت سفر باندھ چکی تھی، لہذا قران و سنّت کی رہنمائی میں عام انسانوں کی یہ جماعت مکّے کی پہلی ‘اسلامی جماعت’ کی پیروی میں اٹھ کھڑی ہوئی. اس نے صدا لگائی، اسلام ایک مکمّل نظام زندگی ہے. اسی کے پاس انسانوں کے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل ہے. اسی میں خدا کے تمام بندوں کی نجات کی گارنٹی ہے. یہ نظام نظام کہنہ نہیں بلکہ تمام زمانوں پر محیط، وقت کے تمام خانوں میں فٹ اور تہذیب کے ہر دور میں جدید ترین ہے. دراصل یہی وہ بانگ درا تھی جو شاعر اسلام علامہ اقبال کی شاعری کا ‘مطلع’ بھی تھی اور ‘مقطع’ بھی. یہی وہ صداۓ جرس تھی جو تحریک کے پہلے قائد اور بانی سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے رشحات قلم کا نقطۂ آغاز بھی تھی اور سر گرمئ حیات کا نقطۂ انجام بھی۔
تحریک اسلامی کا مزاج ہمیشہ اصولی ہوتا ہے۔ حق سے اس کی دوستی ہوتی ہے اور باطل سے سخت دشمنی، اس کی بنیاد ی فکر و نظر ہی باطل افکار و نظریات سے براہ راست متصادم ہوتی ہے. چاہے وہ نظریہ خود اسلام کے خوبصورت جزدان میں لپٹا ہوا کیوں نہ ہو. یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے علمبرداروں کو قیام پاکستان کے پر جوش حامیوں کی گالیاں بھی سنی پڑیں اور خود اس ملک میں بھی روایت پسندوں کی جانب سے طعنہ و دشنام ملے اور دار و رسن کے انعام سے بھی انھیں نوازا گیا. کیونکہ یہ بیچارے ‘زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکے قند’. تقسیم ملک کے بعد کا نقشہ ہر آنکھ کھنچ سکتی ہے. ١٩٤٨ میں جب جماعت اسلامی ہند کی تشکیل ہوئی تو اس کی اس وقت کی کیفیت کو اکبر الہ آبادی کے اس شعری اسکرین پر منعکس کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا ………..   اس زمانے میں

یہ ایک المیہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو پہلے دن سے ہی الجھا کے رکھ دیا گیا. بجائے اس کے کہ وہ اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن کر اس ملک کی تعمیر و تشکیل میں ایک ایکٹو پارٹنر کا رول ادا کرتے، فسادات کے لامتناہی سلسلوں اور پھر بعد میں دہشت گردی کے بھیانک مایا جال میں انھیں ایک زبردست سازش کے تحت پھنسا دیا گیا. ان حالات نے بتدریج جماعت کو بھی الجھا کے رکھ دیا. یا یوں کہئے کہ الجھی ہوئی اس ڈور کو سلجھانے کی کوششوں میں تحریک اسلامی خود ہی الجھتی چلی گئی. تحریک سے روحانی وابستگی رکھنے والے کچھ بزرگوں کا خیال ہے کہ تحریک کی Clinical death ہو چکی ہے اور اب اسکے پاس سواۓ مٹھی بھر گرد راہ کے اور کچھ نہیں بچا ہے ۔ جبکہ امیدوں کی آس جگا ے بیٹھے مثبت رویوں کے حامل کچھ خوش گمان ایسے بھی ہیں جو تحریک کی اس ‘تحلیل نفسی’ کو وقت اور حالات کے مطابق ایک کامیاب اسٹرٹیجی سمجھتے ہیں۔ بظاھر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب ایک عرصے سے امّت وسط کا یہ مبارک گروہ اپنی تمام تر نیک کوششوں اور کاوشوں کے با وجود دیگر روایتی تنظیموں اور اداروں کی طرح محض خدمت قوم کی ایک ‘مذہبی انجمن’ بنتا جا رہا ہے۔
یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ ملک و معاشرے کے نامساعد حالات نے اس کی مثبت انقلابیت کو سست روی کا شکار ہی نہیں کیا بلکہ کسی حد تک تحریک کو اسکے اصل ٹریک سے ہٹا کر تنظیمی شاخ پر بٹھا دیا . اب ایسا لگتا ہے جیسے عقابوں کی بلند نگاہی اپنے اطراف کے ذرّات میں کھو کے رہ گئی ہے.تنظیم کی دفتریت پر زور بڑھتا چلا گیا اور تحریک کی اساس پر گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی.اصول سمٹنے لگے، فرو ع کا دائرہ پھیلتا گیا اور ‘ویلفیئر کی چکّی’ اقامت دین کے محورسے کھسک کر ‘سیاست قومی’ سے جا لگی. یقیناً یہ سارے کام ایک تحریک کی مشنری کا حصّہ ہوتے ہیں مگر ترجیحات تو طے ہونی ہی چاہیے. یہ طے کرنا ہی پڑےگا کہ اصل پہیوں کی جگہ کہاں ہونی چاہیے اور ‘ اسٹپنی’ کہاں فکس ہوگی؟
ہمیں اس حقیقت سے قطعی انکار مجال نہیں کہ تحریک نے مسلمانان ہند کی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں. اس نے مسلکی تشدد کے طوفان کو کم کرنے، قرآن و سنّت کی تفہیم کا عمومی مزاج بنانے اور مذہب کے پیرہن میں ملبوس دین اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر ذہنوں میں بٹھا دینے کی کامیاب کوشش کی ہے . اس کا علمی کارنامہ بے مثال ہے. اپنے خالص اسلامی لٹریچر سے اس نے انگنت جدید ذہنوں کو معمور کیا ہے. با الخصوص ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت اس کا ایک لا زوال کارنامہ ہے. برادران وطن کے درمیان بھی اس کی محنتیں خدا کے آسمانی ریکارڈ میں یقیناً درج ہونگی . اس کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ مخلصین کی ایک بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے بھی اس کے فکر و نظر کی بلندی ہنوز تشنہ کام جنوں ہے . طلوع اسلام کے تمام تمہیدی قافلے اس کی گرمئ نفس کو ٹٹول رہے ہیں اور ریت پر تھک کے بیٹھ جانے والوں سے ہوا پوچھ رہی ہے کہ آخر اس دشت میں وحشت کے بغیر آے کیوں تھے ؟؟؟
جماعت اسلامی ہند ایک تحریک ہے، نری تنظیم نہیں ہے۔ اس کا دائرہ عمل محدود نہیں لا محدود ہے . یہ اگر مسلمانوں کو اتحاد و اصلاح کی طرف بلاتی ہے تواسکا فرض ہے کہ بلائے مگر اس کی امارت، اس کی شوریٰ، اس کے نمائندگان مرکزی مجلس، اس کے ارکان، کارکن اور متعلقین یہ نہ بھولیں کہ ان کی اصل حیثیت جسکی ذمداری انہوں نے اپنے سر لی ہے، ایک ‘ مسلم ویلفیئر تنظیم’ کی نہیں بلکہ ایک ایسے دا عی گروہ کی ہے جو بے لاگ اور بلا کم و کاست اللہ کے دین کی دعوت، اسکی اقامت اور اس کے غلبے کے لئے ایک ہمہ جہت، ہمہ وقت اور لا متناہی جد و جہد کا پابند ہے.
تحریک کی قیادت کی نگاہ میں بھی یہ نکتۂ خاص یقیناً تر و تازہ رہنا چاہیے کہ موسم سخت ہو یا نرم، حالات موافق ہوں یا مخالف … تحریک کے سفر کی سمت بھی، رفتار بھی اور اس کی زندگی بھی اس کے فیصلوں پر منحصر ہو گی . اسے ضرور دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس کی قیادت میں چلنے والے لوگ کس قدر اس کے ساتھ ہیں. ان کے قدم اس کی رفتار سے کتنے ہم آہنگ ہیں اور ان کا اعتماد اسے کس قدر میسّر ہے. تحریک کا قائد ہو یا کارکن اسے یہ نکتۂ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ

مکتبۂ عشق کے انداز ….. نرالے دیکھے

چھٹی اس کو نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
(نوٹ : یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں