عمرفاروق قاسمی
مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ جناب اسد الدین اویسی اپنے ایک بیان کی وجہ سے سوالات کے گھیرے میں ہیں غیر تو غیر اپنے نام نہاد مسلمان رہ نما بھی ضرورت سے زیادہ روشن خیالی کا اظہار کرتے ہوئے ایک صحیح ردعمل کو بھی غلط ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں،سوال یہ نہیں ہے کہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانا اسلامی اعتبار سے صحیح ہے یا نہیں،اگر اسلامی اعتبار سے یہ غلط نہ بھی ہو اور اس کے گانے کے سلسلے میں شریعت اسلامی حرام یا ناجائز ہونے کا فتوی نہ بھی دے تو زیادہ سے زیادہ یہ اک جائز اور مباح عمل ہوگا،اور مباح عمل پر نہ تو شریعت جبر کرتی ہے اور نہ ہی ہمارا ہندوستانی آئین اسکے گانے کو ضروری قرار دیتا ہے،ہمارے آئین کے مطابق زیادہ سے زیادہ اپنے ملک کے لئے اچھے جذبات، اس کی عظمت وشان اور محبت کا اظہار ضروری ہے، اور عظمت وشان اور محبت کے اظہار کو ایک محدود الفاظ میں منحصر کرنا یہ ایک بخیل والا عمل ہوگا،ہندوستان ایک تکثییری ملک ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہیں، عظمت و محبت کے اظہار کا ہر ایک کے یہاں الگ الگ طریقہ رائج ہے،مسلمان اپنے بڑے ماں باپ دادا دادی استاد وغیرہ کا احترام سلام پیش کرکے کرتے ہیں، ہندو ہاتھ جوڑ کر اور پاؤں چھو کر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں،عیسائی صلیب کا نشان بنا کر اپنی محبت و عظمت کو ظاہر کرتے ہیں، اسی طرح الفاظ میں بھی کافی فرق پایا جاتا ہے، مسلمان السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے ہیں، ہندو پرنام اور نمستے کہتے ہیں، عیسائی گڈ مورننگ کہتے ہیں، اس میں کسی کو اپنے طور طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے پر مجبور کرنا یہ اسکے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے،جس کی اجازت ہمارا آئین نہیں دیتا ہے،اسی طرح اپنے ملک کے تئیں عظمت و محبت کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، کوئی ھندوستان زندہ باد کہتا ہے کوئی سارے جہاں سے اچھا ھندوستاں ہمارا کہتا ہے، کوئی جے ہند کہتا ہے اور کوئی اس سے بھی بڑھ کرسرزمین ہند کو معبود مان کر وندے ماترم کہتا ہے،ایسے ہی کوئی ہندی میں اپنی بھاؤنا کا اظہار کرتا ہے اور کوئی اردو زبان میں اپنے جذبات کو پیش کرتا ہے، بنگالی بنگلہ میں اور مراٹھی مراٹھا میں اظہار کر سکتے ہیں، اس میں کسی کو ایک مخصوص طبقہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنی محبت اور عظمت کے اظہار پر مجبور کرنا نہ صرف یہ کہ آئین میں ملے ہوئے اس کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے بلکہ ملک سے محبت کے اظہار میں بخیلی بھی ہے،اس تناظر میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا یہ کہنا کہ بھارت کے تمام لوگوں کو بھارت ماتا کی جے کہنا ہوگا یہ اک غیر آئینی بات ہے اور اس کے جواب میں مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کا یہ کہنا کہ میرے گردن پر چھری چلا دو تو بھی میں بھارت ماتا کی جے نہیں کہوں گا در اصل یہ اسی جبریہ نعرے کے خلاف جنگ ہے،اور اویسی صاحب کا یہ بروقت احتجاج اک دم صحیح ہے، دیش بھگتی کو ھندی بھاشا کیاس خاص جملے میں منحصر کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ پارلیمنٹ یا اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے جب ہندی زبان کا جاننا ضروری نہیں ہے،پارلیمنٹ یا اسمبلی کی راز داری کا حلف لینے کے لیے ہندی ضروری نہیں ہوتو ملک سے محبت کے جذبات کے اظہار میں ھندی بھاشا کے اس خاص جملے کا ہونا کیوں ضروری ہے,؟ ہم سے حب الوطنی کی سرٹیفکیٹ مانگنے والے کو غور کرنی چاہئے کہ ہم اس دیش سیاس قدر محبت کرتے ہیں اور اس قدر پوتر مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی غسل کر کے اس کی کوکھ میں سوتے ہیں۔
مذہب کی آڑ میں ظلم و ستم ہم نہیں کرتے
وفا کی آڑ میں ۔۔۔۔۔ سیاست ہم نہیں کرتے
زمیں کی کوکھ میں بھی جاتے ہیں تو غسل کرکے
وطن کی مٹی کو ۔۔۔۔۔۔ ناپاک ہم نہیں کرتے
(مضمون نگارقومی اہلیتی ٹسٹ (نیٹ) پاس ہیں اور پلس ٹو ہائی اسکول بسفی میں استاد ہیں)