قومی یکجہتی قلبی یکجہتی میں کب بدلے گی
ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
ان دنوں دہلی میں کانفرنسوں کی بہار آئی ہوئی ہے ویسے بھی جنوری سے مارچ تک مختلف سرکاری ادارے اور یونیورسٹیاں، محکمے کانفرنسیں کر تے ہی رہتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ موسم بہت خوشگوار ہوتاہے لوگوں کو آنے جانے میں اور ٹھہرانے میں آسانی ہوتی ہے۔لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مارچ کے مہینے میں مالی سال ختم ہوتاہے تو تمام اداروں کو اپنا بجٹ خرچ ہی کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر ادارہ جلدی جلدی کسی نہ کسی عنوان سے ضروری یا غیر ضروری طوپر کانفرنسیں منعقد کر کے ان پیسوں کو اونے پونے ٹھکانے لگانے میں مصروف ہوجاتاہے۔ یہ حال تو اکثر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کا ہوتاہے لیکن غیر سرکاری اداروں اور خصوصاً ملی تنظیموں کیلئے بھی مارچ کے مہینے میں اس تکلف کی نوبت آئے گی اس کا اندازہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔ اب لگنے لگا ہے کہ بہر حال ملی تنظیموں کو بھی مالی سال مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حسابات آڈٹ کرانے کی فکر ہونے لگی ہے اسی لیے مارچ سے پہلے پہلے ملک و ملت کی فلاح وبہبود کے نام پر جمع شدہ فنڈ کا خرچ کیا جانا ضروری ہوتاہے۔ دلی میں جو قابل ذکر کانفرنسیں فروری کے آخری دو ہفتوں اور مارچ کے اوائل میں ہوئیں ان میں بریلوی ،جمعیۃ ، اہل حدیث اور دانشوروں کی کانفرنسیں شامل تھیں۔ گویا ہر مسلک کی تنظیمیں ان ایام میں اپنے معطین کو خوش کرنے اوراپنی طاقت کے مظاہرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہتی تھی ان کانفرنسوں سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا اور امت کی فلاح کتنی مضمر ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ کسی نے جمہوریت کو بچانے کی دہائی دی ،کسی نے انصاف کے حصول کا شکوہ کیا اور کسی سیکولرزم کو بچانے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کی پیش کش کی۔ ہر تنظیم نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہال بک کئے اور اپنی اپنی پہنچ کے مطابق لیڈران کو اسٹیج پر رونق افروز کیا۔اور اردو اخبارات نے بھی موصولہ اشتہارات کی شرح کے مطابق ان کانفرنسوں میں شریک ہونے والوں کی تعداد اوراہمیت کا تذکرہ کیا۔ ان سب ملی کانفرنسوں کے درمیان دلی میں ایک اور دلچسپ مظاہرہ جمنا کے تٹ پر دیکھاگیا۔ جہاں دنیا کے بیشتر ممالک سے آئے ہوئے مندوبین کی موجودگی میں لاکھوں لوگوں نے اکٹھا ہوکر ایک سفید پوش سادھو کی قیادت میں ثقافتی میلہ منعقد کر کے امن عالم کا پیغام دینے میں سینکڑوں کروڑ روپے خر چ کردیئے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو کہ جس دن سادھووں کے اس جم غفیر میں کل عالم کو ایک پریوار کا درس دینے والا آرایس ایس کا نظریہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا تھا ٹھیک اسی دن ملک کی ایک معروف ملی تنظیم دلی کے ایک اسٹیڈیم میں قومی یکجہتی کو استوار کرنے کے لیے اپنی طاقت کا مظاہرہ کانگریسی لیڈروں کے روبرو کر رہی تھی۔ بیس ہزار نفوس کی گنجائش والے کھچا کھچ بھرے اس ہال میں موجود حضرات کی تعداد کو اگلے دن اردو کے اخبارات نے لاکھوں اہل ایمان کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر بتاتے ہوئے اسے ایک ایمان افروز منظر قرار دیا۔اس کانفرنس میں سونیا گاندھی ،راہل گاندھی مدعو تھے لیکن کانگریس نے غلام نبی آزاد سے زیادہ بڑے کسی چہرے کو اس کانفرنس میں بھیجنا مناسب نہیں سمجھا۔
دلی میں منعقد ہونے والے ہندو ثقافتی میلے کی تفصیلات پر بعد میں گفتگو کریں گے پہلے ملی تنظیموں کی اس جست وخیز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بات واضح رہنی چاہیے تقریباً ہر مسلکی تنظیم نے الگ الگ پلیٹ فارم سجاکر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرانے کی کوشش کی ہے جس سے ملت کا انتشار صاف معلوم ہوتاہے کسی بھی کانفرنس کی کوئی نئی تجویزنہیں تھی سب پرانے مطالبے اور گیدڑ بھبھکیوں سے زیادہ کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہر تنظیم نے حکومتِ وقت کو مسلم دشمن قرار دیا اور اس متنبہ کیا کے دستور سے کھلواڑ نہ کریں۔ورنہ۔۔۔۔۔ ہر کانفرنس میں ملک کے موجودہ حالات کا شکوہ ضرور کیا گیا لیکن ان حالات کے پیدا ہونے کی وجہ کا تجزیہ اور ان سے نبردآزمائی کی حکمت عملیوں پر کوئی سنجیدہ غور وخوض کرنے کے بجائے محض رسمی تجاویز پاس کرنے پر ہی اکتفا کیاگیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملت کے نمائندہ تنظیمیں اس سخت ترین اور پر آشوب دور میں بھی کس قدر غیر سنجیدہ ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ موجودہ فسطائی حکومت کے متبادل کے طورپر ایک دوسری فسطائی قوت کو تقویت دینے کی کوشش کی جارہی ہے بی جے پی اور آرایس ایس کی فسطائیت اظہرمن الشمس ہے۔ ظاہر ہے کہ ان جماعتوں کی حکومت پربھی فسطائیت کا بھرپور اثر ہوگا۔ یہ وجہ ہے کہ آر ایس ایس اور اسکی حلیف سخت گیر ہندتوا جماعتیں اپنے اپنے فسطائی انداز سے ملک میں بے چینی اور بد امنی کا ماحول پیدا کرنے میں مصرو ف ہیں۔ انہیں نہ دستو ر کی پرواہ ہے نہ ملک کی سلامتی کی پرواہ ہے نہ ملک کے اقتصادی حالات ان کے نظر میں ہے نہ غیر ممالک میں ملک کی شبیہہ کی پرواہ ہے ان کے نزدیک بس یہ غنیمت موقع ہے کہ وہ حب الوطنی کو ہندوحب الوطنی کے ساتھ مشروط کر دیں اور اسی کو قانونی درجہ دیدیں۔ جو اس ہندوتوا کے نظریہ کو نہ مانے اس کو مختلف معاملات میں ماخوذ کر کے راستے سے ہٹا دیاجائے یا قتل کرد یاجائے۔ ملک بھر میں بدامنی کا ماحول برپا کرکے دستور اور قانون کی عمل داری کو مطلقاً ختم کردیاجائے۔اس صورت حال کو ملک کا دانشور طبقات بخوبی محسوس کر رہے ہیں اور اکثر سنجیدہ طبقات ان حالات کو بدلنے کی حکمت عملی پر بھی غور کر رہے ہیں ظاہر ہے کہ ان حالات کی مار ملک کے دلتوں قبائلیوں اور پسماندہ طبقات پر تو پڑے گی ہی لیکن اس سے بھی زیادہ ملک کے مسلمان نشانے پر ہوں گے۔چنانچہ یہ مسلمانوں کا فرض اولین ہے کہ حالات کو اس آخری نہج پر پہنچے سے پہلے کو ئی موثر حکمت عملی اختیار کرلیں اور خود اپنے پلیٹ فارم سے کوئی ایسی تحریک بپا کریں کہ جس میں دیگر طبقات شریک ہو کر ایک متحدہ جدو جہد کی صورت اختیار کرلیں۔ایسا کرنے کے بجائے مسلم تنظیمیں ان قوتوں کی طرف ہی دیکھ رہی ہیں کہ جنہوں نے موجودہ حالات پیدا کرنے کی راہ خود ہی ہموار کی ہے۔ بجا طورپر کہا جاسکتاہے کہ ان دیگر گوں حالات کی ذمہ داری سے کانگریس بچ نہیں سکتی ساٹھ سال تک ملک میں حکمراں رہنے والی اس پارٹی نے ہی ملک کی مقننہ،منتظمہ ،عدلیہ اور میڈیا میں اس زعفرانی ٹولے کو راہ دینے میں مدد کی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر ملک میں جنگ آزادی کے تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے اور اس کے علی الرغم ہندتوا تحریکوں کی ترویج وفروغ کا مرحلہ وار مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ ان خطرناک تنظیموں کی تشکیل میں کانگریس نے سب سے بڑا رول انجام دیا ہے۔اپنے ساٹھ سالہ دور حکومت میں بھی کانگریس درپردہ ان طاقتوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے ملک کے مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کی زبوں حالی کی بڑی وجہ بھی کانگریس کی پالیسیاں ہی رہی ہیں۔ ایسے میںآسمان سے گر کر کھجور میں لٹکنے کے مترادف مسلم تنظیموں کا کانگریس کو تقویت دینا یہ ظاہر کرتاہے کہ یہ تنظیمیں خود اپنے آپ میں کوئی حکمت عملی نہیں رکھتیں۔
ایک عجیب وغریب پہلو یہ بھی ہے کہ پچھلے چند مہینوں سے جمیعت علماء ہند کے دونوں حصوں کے انضمام کا ذکر بڑے زورو شور کے ساتھ سنا جاتا رہا ہے در حقیقت دونوں کے رہنماایک دوسرے کی ذاتی تقریبات ، ملی دعوتوں اور کانفرنسوں میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے رہے ہیں لیکن باضابطہ انضمام آج تک نہیں ہوا الگ الگ پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کو مدعو کرنے کی روایت البتہ قائم کردی گئی ہے ایسا محسوس ہوتاہے کہ دل تو مل گئے ہیں لیکن ہاتھ کے ملنے میں کچھ اقتصادی مسائل در پیش ہیں۔ ویسے اگر باضابطہ انضمام ہو بھی جائے تو ملت کو کیا فرق پڑے گا پہلے جب ایک ہی جمعیت تھی تب بھی اس کے شب وروز اور فعل وانفعال ایسے ہی تھے جیسے اب دو جمیعتوں کے ہیں اور اب دو کا مزہ چکھ لینے کے بعد ایک ہوجانا مسائل تو پیدا کر سکتا ہے حل نہیں۔
اب آئیے ان مسلم دانشورانہ و عالمانہ میلوں سے الگ ہندوثقافتی میلے پر نظر ڈالیں۔ اس میلے کی تیاری کم از کم چھ ماہ سے جاری تھی لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی آخر میں جب ایک این جی او نے جمنا کے ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر شکایت درج کی تو پرت در پرت عقدے کھلنے شروع ہوئے۔ لیکن جن حضرات نے بھی اس پر تنقید کی وہ اس کے اصل حدف پر تنقید کرنے میں ناکام رہے۔ اور محض جمنا کے ماحولیاتی آلودگی کے پردے میں اصل حقیقت کو لپیٹ دیا گیا اس میلے میں راقم بھی مدعو تھا اور شرکت بھی کی اس کا دعوت نامہ ہی کم ازکم دوہزار روپے کی مالیت کا تھا۔جو انتظام وانصرام موجود تھے انہیں دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ اس کے پیچھے کونسی طاقت کار فر ما ہے ناقدین نے صر ف اس پر اکتفا کیا کہ یہ آر ایس ایس کا شو ہے در حقیقت یہ آر ایس ایس کے آقاؤں کا شو تھا۔ جس میں بحالت مجبوری حکومت ہند براہ راست سامنے نہیں آسکتی تھیں اس لیے ایک سفید پوش سادھو کو آگے کرکے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک تو اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرلی اور دوسرے سری سری روی شنکر اور بابارام دیو کے مابین طاقت کے توازن کا اظہار بھی کردیاگیا۔ اس میلے کا مقامی مقصد تو دنیا کے سامنے ہندو ثقافت کا اظہار تھا لیکن اس کے اثرات ملکی حد تک محدو دنہیں رہے بلکہ عالمی سطح پر ہندو بھکتی تحریک کا تعارف کرواکے مذہب کے اس حصے کو نمایاں کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس میں مذہب کا معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو۔بلکہ محض روحانیت اور تصوف کے نام پر گوشہ نشینی اور تلذذ کی حد تک محدود کرنا ہو۔ واضح رہے کہ فی زمانہ اسلا م میں بھی اسی قسم کے تصوف کی تبلیغ اور فروغ کی دانستہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسی طرح ہندو مذہب اور دیگر مذاہب کے بھی ان حصوں کو نمایا ں کیا جارہا ہے کہ جن کے ذریعے ان مذاہب کے معتقدین مذہب کو محض ایک ذاتی معاملہ سمجھ کر کاروبار جہاں میں اس کی مداخلت کا انکار دیں۔ مذکورہ ثقافتی میلہ مذہب کے اسی حصے کی سب بڑی عالمی تشہیر کا نام ہے۔جس نے ملک کے دو بظاہر سیاسی دشمن نظر آنے والے فریقوں کو ایک اسٹیج پر ا کٹھا کر کے ایک دوسرے کا ہمنوابھی بنا دیا۔
مسلمانوں کے الگ الگ مسلکی پلیٹ فارم اس ہندوثقافتی میلے کے سامنے ماند دکھائی دیئے۔اپنی ہیئت کے اعتبار سے بھی ،اپنے موضوع کے اعتبا ر سے بھی اور اپنی طاقت کے مظاہرے کے اعتبار سے بھی۔جب کہ سر ی سری روی شنکر نے ہر اعتبار سے یہ ثابت کیا کہ ملک پر ہندو ثقافت حکمراں ہے اور وہ ثقافت اب بڑھ کرعالمگیر ہوا چاہتی ہے اور پوری کی پوری مرکزی کابینہ اس سفید پوش سادھو کے پیچھے کھڑی ہے جب کہ مسلمانوں کے اجتماع میں کانگریسی قیادت کی دوسری صف کا محض ایک مسلم چہرہ ہی موجود ہے جو اپنے کچھ جملوں کے ذریعہ اس اجلاس کو تو کچھ نہیں دیتا لیکن اپنی پارٹی کی عروق مردہ میں گرم لہو کی روانی کی ایک کوشش ضرور کرلیتاہے۔ کاش قومی یکجہتی کی یہ قدیم اور فرسودہ کانفرنسیں ملک کے تمام طبقات کے مابین ایک حقیقی اور قلبی یکجہتی کے پیش نظر منعقد کی جائیں تو شاید ہم حقیقی آزادی سے بھی ہمکنار ہوجائیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )