مدرسوں کی فکر کیجیے مگر صاحب …

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

1830ء میں برطانیہ کا بادشاہ ’’ولیم چہارم‘‘ تھا اس نے ’’وائسرائے ہند‘‘ کے ذریعے ’’لارڈ میکالے‘‘سے پوچھا کہ ہم کس طرح سےہندوستان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتے ہیں؟ جواب میںاس نے لکھا’’میری تجویزہے کہ برٹش گورنمنٹ فوری طورپر مسلمانوں کا تعلیمی نظام تبدیل کرے، کچھ عرصے میں خود بخود ان کا کلچر بدل جائے گا، مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جدید کلچر کو فروغ دیا جائے، غیر محسوس طریقے سے ایسے اقدامات کیے جائیںکہ مسلمان یہ سمجھنے لگیں کہ ان کا مذہب، کلچر اور ثقافت پسماندہ ہے،وہ انگریزی طرزِ معاشرت پر فخر کرنےکے ساتھ اپنی ثقافت، معاشرت کو گھٹیا تصور کرنے لگیںگے‘‘۔
چنانچہ یہ منصوبہ برطانوی حکومت کو پسند آیا اور اس نے یہ ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ڈال دی، یہ شخص جلد ہی ہندوستان کے لئے نصابِ تعلیم بنانے میں مصروف ہوگیا۔ برطانیہ کے اس قانونی مشیر نے کہا کہ ’’میں ہندوستان کے لئے ایسا نظامِ تعلیم بنارہا ہوں جس کو پڑھنے کے بعد مسلمان بچے اگر عیسائی اور یہودی نہ بن سکیں توکم از کم وہ مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔‘‘
اس پس منظر میں مسلمانوں کے ایمان اور مذہبی تعلیم کے تحفظ و بقا کیلئے علماء کرام نے مدارس کی بنیاد رکھی ،پھردھردھیرے پورے ہندوستان میں مدار س کا جال پھیلتا گیا۔انہیں مدرسوں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی صدا بلند کی گئی،علماء کرام نے انگریز حکومت کی کھل کر مخالفت کی،جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ان علما ء کی بڑی جدوجہد اور قربانیوںکے بعد ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی۔
جب بہار آئی، تو کہتے ہیں تِرا کام نہیں
اس حقیقت سے انکار کی قطعی گنجائش نہیں کہ مابعد آزدی انہیںمدارس پر مختلف حیلوں اور بہانوں سے حکومتوں نےڈنڈے برسانے شروع کردیے ،کبھی قدامت پسندی ، کبھی جہالت کبھی تو دہشت گردی کی تعلیم دیے جانے کا اڈہ کہہ کرکے مدارس کی عظمت کو پامال اور اس کی تاریخ کو داغدار کرنے کی مہم چل پڑی،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ہر دور میںطریقہ وہی اپنایا گیا جو انگریزوں نے اپنا یا تھا ۔ظاہر سی بات ہے جب سوچ اور فکر وہی ہے تو ارادہ نیک کہاں سے آئے گا۔ہندوستان میں حکومتچاہے جس پارٹی کی بھی بنی ہو دینی مدارس کے طالبان علوم نبوت ان کے نشانے پرسیاست کی چکی میں پستے رہے ہیں،حالانکہ آزادی کے بعد بھی ہندوستان ایسے نابِغَۂِ روزْگار علمی شخصیات سے کبھی خالی نہیں رہا جنہوں نے پوری دنیا میں ملک کا بہترین تعارف پیش کرکے نام روشن کیا۔ایسے مدارس کے فارغین کی طویل فہرست ہے۔
حکمراں طبقہ کی نیت پر شک اس لیے ہوتا ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دورکرنے کی بات کی جا تی ہے تو ان کی ساری توجہ مدارس پر مرکوز ہو کر وہیں پر ختم ہوجاتی ہے ۔الگ سے اسکول وکالج کے قیام ، اساتذہ کی کمی، تعلیمی اداروں کے ساتھ متعصبانہ سلوک ،برسوں سے معمولی مشاہرہ پر کھٹنے والے اساتذ کو مستقل کرنےمیں عدم توجہی،ایسے بہت سے مسائل ہیںجن پر توجہ دینے کے بجائے حکومتوں کی ساری توانائی مدارس اسلامیہ کو سدھارنے پر صرف ہو جاتی ہے۔پہلے یہ انتظامات کیے جاتے اس کے بعد اگر مسلمانوں کی تعلیمی حالت نہیں سدھرتی توکچھ بہانے بازی کی جاسکتی تھی۔ شک کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ مسلم بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوششوں میں بہت سنجیدگی سے لگی ہوئی حکومتیں مسلمانوں کے نمائندہ تعلیمی اداروں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، عثمانیہ یونیورسٹی اور دیگر جامعات جہاں مسلم طلبہ خاصی تعداد میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان اداروں کے حقوق کو سلب کر رہیہے ۔ چار فیصد سے بھی کم طلبا پرموڈرائزیشن کی آڑ میں مدارس اسلامیہ پر قدغن لگانے کی ناپاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد شروع ہو چکی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تو ہمیشہ فرقہ پستوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہی ہے۔ حکومت ایسے لوگوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ،اس لیے مسلمانوں کی یہ عظیم درسگاہ آج بھی اپنے وجود اور حق کیلئے سیاست دانوں کی مہربانیوں کے سبب عدالت کے چکر کاٹ رہی ہے۔بی جے پی حکومت بننے کے بعد اس ادارے پر حملے تیز ہو گئے ہیں۔ حکمراں جماعت کے لیڈر سے لے کر ریاستی اور مرکزی وزراء تک نے مسلم یونیورسٹی کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے ۔ ابھی کچھ دنوں قبل سنٹرل یونیورسٹیوں کا آڈٹ کر نے والی ایک ٹیم نےمر کزی حکومت سے یہ سفارش کی کہ علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے نام سے لفظ ’مسلم کو ‘ ہٹا دیا جائے، تا کہ یو نیو رسٹی کا سیکولر کر دار بر قرار ہو سکے۔ بھلا یہ سب کیا اوریہ سوچ کس فکر کی عکاس ہے؟
انصاف اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ پہلے چھیانوے فیصدمسلمان بچوں کے تعلیم اور ان کے روشن مستقبل کی فکر کی جائے، ان کے معاش و مفاد اور خوشحالی کیلئے مختلف تدبیریں اپنائی جائیں کچھ جتن کیے جائیں لیکن حکومت کو ان کی کوئی پروا نہیں، اسے فکر ہے تو صرف مدرسوں میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے بچوں کی ۔مسلمانوں کو روزگار دینے کی نہیں، بیوروکریسی کا حصہ بنانے کی نہیں۔حکومت پہلے اپنے اس رویہ کو تبدیل کرے اور مسلمانوں کو ان کا حق دےتو شک کی کو ئی گنجاش نہیں رہے گی۔
اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کے حالیہ کئی فیصلے کو اسی نظریہ سے دیکھنے کی ضرورت ۔یوگی کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی سب سے پہلے مدرسوں میں قومی ترانہ وپرچم کشائی کا حکم دیا، پھر مدرسوں کاآن لائن رجسٹریشن کرانے کی بات کہی گئی اور اب مدرسوں کے نصاب کو لیکر اہم و بڑا فیصلہ لیاگیا ہے۔یوپی حکومت نے مدارس میں این سی ای آرٹی کورسیز کو شامل کرنےکا من بنا لیا ہے جس کے تحت مدرسوں کواپنے نصابمیں این سی آرٹی کی کتابیں نصاب میں شامل کرنی ہوگی۔ دراصل یہ بھی چور دروازے سے مدارس میں مداخلت کی ایک کوشش ہے جسے تعلیم میں سدھار کا نام دیا جا رہا ہے۔آج اتر پردیش تو کل مدھیہ پردیش پھر راجستھان اور مہاراشٹر اس کے بعد دھیرے دھیرے دوسری ریاستوں کے مدرسوں میں جدید علوم وفنوں سے طلبہ کو آشناکرانے کے نام پر یہ تجربہ کیا جا تا رہےگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تویقینامدارس کے قیام کا مقصد یکسر فوت ہوجائے گا۔مدارس کے نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے تو اس کا حل بھی علماء کرام ہی نکالیں گے کوئیمذہب بیزار شخص یا حکومت نہیں۔ اس سچائی کا اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیںکہ مسلم طلباءکے اتعداد و صلاحیت کی بات کریں تو آج بھی مدارس کے فارغین عصری تعلیم حاصل کرنے والوں سے پیچھے نہیں ،ہر شعبے میں انہوں نے اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے مدارس اسلامیہ کے خلاف اٹھنے والی فتنہ انگیز آوازپر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:’’ جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مدرسوں کو اسی حال پر رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کو اِنہیں مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ مدرسوں کے اَثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں کی گئی۸؍ سو سالہ اسلامی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروکاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی۸؍ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔
مضمون نگار روزنامہ انقلاب دہلی کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں