ممبئی کے ہاکروں کا معاملہ: ’وکاس پاگل ہوگیاہے‘

صادق رضا مصباحی، ممبئی

۲۹؍ستمبرکوہوئے ممبئی کے الفنسٹن روڈ اسٹیشن بریج کے حادثے کے بعد مہاراشٹر کی مقامی سیاسی پارٹی ’مہاراشٹر نو نرمان سینا‘ کے سربراہ راج ٹھاکرے کی ہاکروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم گوکہ اپنے اندر یک گونہ تعمیر کاپہلورکھتی ہے مگراس میں تخریب کا پہلوزیادہ ہے اور تخریب سے زیادہ شوق خود نمائی، بلکہ ان سب پریہ شوق حاوی ہے۔ الفنسٹن روڈ حادثہ مسافروں کی بھگدڑ کا پیش خیمہ تھا مگر اس بھگدڑ کا ٹھیکرا اسٹیشن کے آس پاس اپنی دوکانیں سجانے والے بے چارہ غریب ہاکروں کے سر پھوڑنا کہاں کا انصاف ہے مگر ہمارے برصغیر کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ۔ بامبے ہائی کورٹ سے لے کر، مقامی میونسپل کارپویشن ،حکومت مہاراشٹر اور ریلوے تک سبھی نے ہاکروں کے خلاف مہم چلانی شروع کردی ہے۔ایسا لگتاہے کہ ریلوے کے سارے حادثات انہی کی وجہ سے رونما ہوتے ہوں ۔راج ٹھاکرے چوں کہ سیاست داں ٹھہرے اس لیے ان کاشوق خود دنمائی ہمیشہ ہل من مزید کی تلاش میں سرکرداں رہتاہے اس لیے آج۶؍نومبرکو انہوں نے سرکاری افسران کو بھی دھمکی دے ڈالی ہے ۔ انہوں نے متنبہ کیاہے کہ اگر افسروں نے ہاکروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تو پھر ان پر توہین عدالت کا کیس دائر کرایا جائے گا۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن نے فیصلہ کیاہے کہ اسٹیشن کے احاطے کے ۱۵۰؍میٹرکے دائرے کے اندرہاکروں کوآنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اوراس پربامبے ہائی کورٹ نے بھی صاد کردیاہے۔کیاوہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ اسٹیشنوں کے آس پاس سے ہاکروں کو ہٹانے کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو وہ بے روزگار ہو جائیں گے یا پھر دوسری جگہ ’’غیرقانونی ‘‘ طریقے سے اپنی دوکانیں سجالیں گے اور پھر ایک دن وہاں سے بھی انہیں بھگادیا جائے گا اور یوں مسائل پرمسائل کا انبار لگتا جائے گا اور یہ مسائل حکومت کے لیے ہی دردسربنے گا مگر حکومتیں اور انتظامیہ کے افسران کوکوئی فکر نہیں۔ افسران کو وقت پر تنخواہ مل جاتی ہے ،ان کی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں ، دوسرے جائیں چولہے بھاڑ میں ، چاہے ضرورتیں پوری ہوں یانہ ہوں ،ان کی بلا سے ۔
اس پورے مسئلے میں بالی وڈ اداکار نانا پاٹیکر نے حقیقت بیانی سے کام لیاہے۔ا ن کا کہنا ہے کہ ہاکروں کوہٹائے جانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ہاکروں کوپہلے متبادل جگہیں فراہم کی جانی چاہیے تھیں اس کے بعدہی ان پر کارروائی کی جاتی ۔انہوں نے اس مسئلے کاذمے دار ممبئی میونسپل کارپوریشن کو ٹھہرایا ہے۔ ظاہر ہے نانا پاٹیکر کابیان حقیقت پسندی پرمبنی ہے مگرچوں کہ سیاست دانوں کوحقیقت پسندی سے خدا واسطے کا بیر ہوتاہے ۔ انہیں صرف اپنی سیاست چمکانی ہوتی ہے ۔ حالاں کہ اصل مسئلہ کیاہے اوراس مسئلے کاحل کیاہے اس سے سیاست داں بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگرووٹ بینک محفوظ کرنے ،اخبارات کی شہ سرخیوں تک پہنچنے اور خود کوزندہ رکھنے کےلیے ان کویہ سب کرنا پڑتاہے اس لیے یہ بے چارے ’’مجبورِ محض‘‘ہوتےہیں۔ان پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی ۔اس لیے میری یہ سطور محض میرے دل کی بھڑاس ہیں، کسی کو تلقین کرنے یا وعظ و نصیحت کے لیے نہیں ۔اس پورے کیس میں مجھے حیرت توبامبے ہائی کورٹ کے معزز ججوں پرہے۔آخر انہوں نے بے چارے ہاکروں کو ہٹانے کافیصلہ کیوں سنادیا۔ کیوں ایسانہ ہواکہ وہ سب سے پہلے انتظامیہ کو متبادل مقامات فراہم کرنے کی ہدایت جاری کرتے، اس کے بعدہی ہاکروں کو غیر قانونی قرار دیتے مگر افسوس ایسانہ ہوسکا۔ عدالتیں کبھی توبہت بہترفیصلہ سناتی ہیں کہ دل سے واہ واہ کی صدائیں بلندہوتی ہیں مگرکبھی ایسے بھی فیصلے دے دیتی ہیں کہ سوائے آہ آہ کے کوئی اورآوازدل سے نکلتی ہی نہیں ۔ اکروں کے متعلق بھی ہمارے دل سے کچھ ایسی آوازیں آئی تھیں ، ممکن ہے کہ آپ نے بھی اپنے دلوں کی صدائیں سنی ہوں ،بس حساس دل شرط ہے۔ہمیں عدالتوں کے فیصلوں پر اعتراض تو ضرور ہوتاہے مگرہم عدالتوں کے فیصلے تسلیم اس لیے کرلیتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کے وفادار ہیں ،ہم مسلمان ان برادران وطن کی طرح نہیں ہیں جواپنی مرضی کے خلاف فیصلوں سے جارحیت پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔کیا بامبے ہائی کورٹ ،بی ایم سی ،راج ٹھاکرے اوران کے حامیوں نے یہ سوچاہے کہ اب ان ہاکروں کا کیا ہوگا ؟ان کے گھروں کے چولہے کیسے جلیں گے ۔ہمیشہ وکاس، وکاس اور وکاس چیخنے چلانے والی بی جے پی حکومت کو کیا لگتا ہے کہ’ وکاس‘ یوں ہی آجائے گا۔؟ انہیں کیسے کوئی سمجھا جاسکتا ہے کہ وکاس یوں ہی نہیں آجاتا، اس کے لیے بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کرنی پڑتی ہے اورجہا ں بنیادی ضرورتیں ہی پوری نہ ہوں وہاں صرف وکاس کےخواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بی جےپی صرف اور صرف وکاس کے خواب دیکھ رہی ہے ۔ سچ کہاہےکسی نے: ’وکاس پاگل ہوگیاہے۔‘‘

رابطہ نمبر: 0961903419