خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
بازگشت :ڈاکٹر زین شمسی
نعرے انقلاب نما ہونے چاہیے، جنگ نما نہیں۔نعرے ہماری زندگی کے شعلے ہوتے ہیں۔ نعرے ہمیں قوت و توانائی بخشتے ہیں ۔نعرے ہم میں جوش پیدا کرتے ہیں ،نعرے ہمیں انقلابی بناتے ہیں ،نعرے ہمیں سمت اور مقصد کی طرف لے جانیمیں معاون ہوتے ہیں۔بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔شروعات اگر بھارت چھوڑو نعرہ سے ہی کی جائے تو اس کا نتیجہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے،پھر انقلاب زندہ بادنے جو آگ لگائی، اس کی چنگاری آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔جے ہند اور ہندوستان زندہ باد کے نعرہ اسپیس سے بھی سنائی دئے۔یہ سارے نعرے بھارت کے لیے بھارت کے ذریعہ بھارت کو وقف ہیں اور رہیں گے۔انہیں نعروں کی بدولت آج بھارت آزاد ہے ،مستحکم ہے ،مضبوط ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔، اور ایسے نعرے دینے والے شہید ہیں ، مجاہد آزادی ہیں اور بھارت کے اصلی سپوت ہیں۔
نعرے کی اپنی نفسیات ہوتی ہے اور نعرے کا اپنا درد بھی ہوتا ہے، اپنی جزئیات بھی ہوتی اور اپنی تاریخ بھی، ہیت بھی۔جب بھارت کے ہاتھوں میں غلامی کی ہتھکڑیاں تھیں،جب بھارت پا بہ جولاں تھا، جب بھارت کی سرحدیں لہولہان تھیں ،جب بھارت کی آنکھوں میں آنسو تھے ،تو اسی نعروں نے نے اس کے آنچل میں آزادی کاچمکتا ہواآفتاب لا کر دے دیا۔ یہی نعرے تھے ،جس نے بھارت کی سونی مانگوں پر بندیاں سجائی تھیں، اور جب بھارت نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سجائی ، ہونٹوں پر مسکانلئے آگے بڑھی تو پھر اس کے سپوتوں نے نعرہ دیاجے جوان ،جے کسان۔ یہ نعرے ہندوستان کے ان جیالوں اور محنت کشوں کے لیے تھے ،جو سخت و سنگلاخ زمین کو چیر کر بھارت کی اولادوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ نعرے سرحد پر تعینات ان جاگتی آنکھوں کے لیے تھے ، جو اگر سو جائیں تو بھارت ایک مرتبہ پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جائے۔ جے جوان ،جے کسان کے نعرے بھارت میں ہریالی اور خوشحالی لاتے ہوئے نظر آئے۔ زمانہ آگے بڑھتا رہا ۔ آزادی کی دلہن اپنے نونہالوں کو جوان کرتی رہی، اور پھر برسوں کے بعد ایک نعرہ آیا۔ جے جوان ، جے کسان اور جے وگیان ۔ یہ نعرہ بھارت کو ٹکنالوجی اور سائنس کے میدان میں سرخرو کرنے کے لیے بھارت کے ہی ایک سپوت نے لگایا۔اس کے بعد بھارت کی اڑان ایک نئی سمت میں چل نکلی۔اس کے بعد بھارت کو نعروں کی ضرورت نہیں رہی ،اب اس نعرے کو جلا بخشنے کا وقت آیا ،ذمہ داریوں کو نبھانے کا دورآیا۔یہ سارے نعرے بھارت کے لیے ہی تھے ، مادر وطن کے لیے تھے ،اسی دھرتی کے لیے تھے ،یہیں کی ہواؤں کے لیے تھے ،یہیں کی فضاؤں کے لیے تھے۔یہ نعرے سیاست کے لیے جتنے ضروری تھے ،اتنے ہی سماجیات کے لیے ضروری تھے ،اتنے ہی اقتصادیات کے لیے ضروری تھے۔اتنے ہی تحفظات کے لیے ضروری تھے، اور یہ نعرے ان سبھی لوگوں نے لگائے ،جن کے لیے خاک وطن کا ہر ذرہ دیوتا ہے اور رہے گا۔وہ سب انڈین تھے ،ہندوستانی تھے اور شاید ہم سب سے زیادہ بھارتیہ تھے ، اور جب یہ نعرے لگائے جاتے تھے لوگ نعروں کا ساتھ دیتے تھے ،فلک شگاف نعروں سے ذرہ ذرہ مست ہو جاتا تھا۔
ان دنوں بھی کچھ ایسے حالات ہیں ۔بات نعرے لگانے کی نہیں ہو رہی ہے، لگانے کے لیے مجبور کرنے کی ہو رہی ہے۔ نعرہ ہے بھارت ماتا کی جئے کا۔ اسی بھارت ماں کی جئے کا جس کی پلکیں سنوارنے کے لیے مذکورہ بالا نعرہ لگائے گئے۔ آج اسی بھارت کو جس کی بنیاد میں ہندؤوں کا خون ہے تو مسلمانوں کا پسینہ بھی ہے۔ اسی بھارت ماتاکو مسلمانوں سے چھیننے کے لیے ایک ایسے نعرے کو بنیاد بنایا جا رہا ہے ،جو مسلمانان ہند کے بغیر مکمل ہی نہیں۔بھارت میں رہنا ہے توبھارت ماتا کی جئے کہنا ہوگا۔یہ نعرہ وہ لوگ لگوانا چاہتے ہیں ،جنہیں ہندوستان مفت میں مل گیا ۔ جنہوں نے کبھی بھارت کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے بھارت کے پتا۔یعنی راشٹر پتا ، یعنی اس عظیم شخصیت کو جس نے اسی بھارت ماتاکے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی،کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ یہ وہ کپوت ہیں ،جنہوں نے بھارت ماتاسیاس کے سب سے لاڈلے بیٹے کو چھین لیا اور اب یہی لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بھارت ماتا کی جئے نہیں بولو گے تو مارے جاؤگے۔ گویا بھارت ماتا کے نام پر بھارت ماتا کے ہی سپوتوں کو قتل کی دھمکی مل رہی ہے۔ تو یہ نعرے انقلاب نما نہیں جنگ نما ہو گئے ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ملک بالکل ہٹلر کے جرمنی والے دور میں پہنچ گیا ہے جہاں ہیل ہٹلر نہ بولنے پر کسی کو غدار وطن قرار دینے میں تاخیر نہیں کی جاتی تھی اور موت تک کی سزا دی جا سکتی تھی۔
کون نہیں سمجھتا کہ بھارت اس کی ماتا ہے۔ بھارت نے کیا نہیں دیا۔ ہوا دیا ،معاشرہ دیا ،اناج دیا ، سوچ دی ،نظریہ دیا،اس نے اتنی چیزیں دیں جتنی ماں بھی نہیں دے سکتی،بھارت کا درجہ تو ماں سے بھی بڑا ہے ،اسے بھارت ماتا کہہ کر محدود کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے ۔دراصل بھارت ماتا کی جئے میں بھارت کو توڑنے کی بو آرہی ہے۔یہ ایک ایساپیچ ہے جو سب کو نظر نہیں آرہا ہے۔۔ شاید جاوید اختر کو بھی نظر نہیں آ رہا ہے اور انوپم کھیر کو بھی۔اس نعرہ میں چھپا وہ پیغام یہ لوگ نہیں دیکھ پا رہے ہیں جو اویسی یا دیگر دیکھ پا رہے ہیں۔ فرقہ واریت اور سیکولرازم کی ایک بڑی اور اہم جنگ بھارت ماتا کی جئے جیسے ایک غیر اہم مسئلے میں چھپا دینے کی سازش شاید کسی کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔بادی النظر میں بھارت ماتا کی جئے کہنے میں کوئی برائی نہیں ہے اور ہم تو پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے۔بھارت مادر وطن ہے، لیکن یہ نعرہ ایک خاص نظریے کے ساتھ جڑ کر آج اپنی معصومیت کھو چکا ہے۔ ایسا دوسرے نعروں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ جیسے جے شری رام یا جئے سیارام ۔ رام جنم بھومی تحریک اور بعد میں گجرات فسادات کے دوران اس نعرہ کاجس طرح کا استعمال ہوا اور پھر اس کا پرچار ہوا، اس سے جے شری رام ہیل ہٹلر کی طرح ایک جنگ نما اور فرقہ وارانہ نعرہ بن گیا۔ بابری مسجد منہدم ہونے کے بعد کئی ہندو نظریاتی کہتے تھے، جے شری رام، ہو گیا کام۔ اسی لئے آج کوئی جے شری رام کہتا ہے تو وہ ایک متشدد اور نفرت بھری نظریات کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ جبکہ کرشن سے منسلک جے شری کرشن یا رادھے-رادھے اب بھی اپنا بے داغ کردار بنائے ہوئے ہے۔یہاں پر یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ ہندوؤں کونعرہ تکبیر اللہ اکبر میں خوف نظرآتا ہے کیونکہ یہ بھی فسادات کے دوران جنگ نمانعرے کے طور پر اکثرہا استعمال کیاجاتا ہے۔
‘بھارت کو اہم ایک مجسم شکل میں کیسے دیکھ سکتے ہیں۔اسے ایک دیوی کی ٹھوس شکل دے دی گئی ہے۔ اسے بھگوان بنا دیا ، ٹھیک اسی طرح جیسے گنگا دیوی ہے، ہوا اور آگ بھی دیوتا ہیں، سورج اور چاند تو ہیں ہی۔ اسی طرز پر ہندوستان کو بھی ایک دیوی کا روپ دے دیا جس کے ہاتھ میں ترنگا ۔یہی نہیں، کئی جگہوں پر تو بھارت ماتا کے ہاتھ میں بھگوا پرچم ہے اور یہیں سے اعتراض کی گنگا بہتی ہے۔ہم اللہ کے علاوہ کسی دیوی دیوتا کی پوجا کیسیکر سکتے ہیں ،چاقو کی نوک پر بھی نہیں کر سکتے ،جیسا اویسی کہتے ہیں۔مسئلہ بھارت ماتا سے نہیں بھارت ماتا کو دیوی ماننے سے ہے۔ اس نعرہ پر اسی طرح سے اعتراض ہے ، جیسے کنہیا کمار کے اس نعرہ پر حکومت کو اعتراض ہے ،جس میں کہا گیا تھا کہ ہم بھارت سے نہیں بھارت میں آزادی چاہتے ہیں۔
آج ہماری جنگ خود سے ہے، غریبی، ناخواندگی، فرقہ واریت، نسل پرستی،فرقہ پرستی ،اندھ وشواس ، غیربرابری ، مہنگائی ،بے روزگاری اوربدعنوانی سے ہے،اس کے خلاف اگر کوئی نعرہ ہے تواسے لگانے میں شایدہم سب سے آگے رہیں گے لیکن معاف کیجئے گا بھارت ماتا کی جئے کے نعرے ایساہی محسوس کراتے ہیں جیسے ہم نے کسی ملک پر یا کسی طبقہ پر یاکسی فرقہ پر جیت درج کی ہو۔یہ نعرے ہمیں بھی جنگ نما ، تشدد نما اور جبر نما لگتے ہیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگارروزنامہ خبریں کے جوائنٹ ایڈیٹرہیں)