مولانا حافظ ہاشم قادری مصباحی
اسلام شانتی کا مذہب ہے۔ رب العالمین کا آخری دین ہے۔اللہ رب العزت اسے پسند فرماتا ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامْ ۔ترجمہ: بے شک ا للہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔ دین اسلام کامل(سمپورن) بھی ہے۔ انسانی زندگی کی تمام ضرورتوں کی تکمیل(پُرتی) اسلام میں ہے۔ اسلام کی فطرت میں سلامتی اور صلح کا جوہر موجود ہے۔ نابرابری ، خوف و دہشت کو ختم کرنے کے لئے مذہبِ اسلام آیا۔ انسان قابلِ احترام ہے۔ انسانیت کے ناطے ہر آدمی کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق(ادھیکار) ہیں اور ہر آدمی ایک دوسرے کے لئے قابلِ احترام اور لائقِ عزت ہے۔ تمام انسان اللہ کی عیال (کٹمبھ)ہیں اور تمام مخلوق میں خدا کا سب سے زیادہ وہ پیارا ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے۔ (طبرانی جلد۳، صفحہ ۶۵، مطبوعہ قاہرہ) فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : الناس کلھم عیال ۔ سارے لوگ ایک کنبہ ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب العتق، صفحہ ۶۱۶، اسلام اور امن عالم صفحہ ۱۹، ۳۴) بلاوجہ کسی انسان کو تکلیف نہ دی جائے گی اور کسی کی جان ومال کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔ کسی شرعی جواز (ادیش)کے بغیر کسی سے سخت کلامی، کٹھور ویہوار نہیں کئے جائیں گے۔ شرعی(دھارمک) سزاؤں یا جنگوں کے جواز کے سوا کسی حال میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی۔ انسانوں پر رحم و مروت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم اسلام دیتاہے۔ اسلام میں تعصب و تشدد(ہنسا) نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: جو بلا وجہ جنگ کرے اور تعصب کی جانب بلائے یا تعصب کی بنیاد پر غصہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(سنن ابن ماجہ جلد۲،صفحہ ۴۷۲) ابن ماجہ کتاب الفتن میں ہے ،حضرت فسیلہ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں۔ ان کے والد نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا :یا رسول اللہ !کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی تعصب ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، بلکہ ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرنا تعصب ہے۔ ان فرامینِ مصطفوی نے اسلامی معاشرہ سے فاسد اور جاہل تعصب کو باطل قرار دیا ۔ بیسویں صدی میں اقوام متحدہ (UNO) نے اسلامی اثرات کے تحت جن قوانین کو بنایا وہ تو اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی بنا دیاتھا۔ جبکہ تشدد ، قتل و غارتگری کااسلام میں آگ پانی جیسا بیر اور دوری ہے ۔ جہاں تشدد ہو وہاں اسلام کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جہاں اسلام ہو وہاں تشدد نہیں ہوسکتا۔ اسلام امن و سلامتی کا سر چشمہ اور انسانوں کے مابین محبت اور خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔ خود رب کریم اس بابت ارشاد فرماتا ہے:یَااَیُّھَا لَّذِیْنَ آمَنُواْ اُ دْ خُلُوْفِی السِّلْمِ کَافَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ شَّیْطٰنِ اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوُّ مُّبِیْنْ۔ترجمہ: اے ایمان والو، اسلام میں پورے داخل ہواور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ بے شک وہ تمہار کھلا دشمن ہے۔ (القرآن، سورۃ البقرہ، آیت ۲۰۸)دوسری جگہ اس طرح حکم دیتاہے۔وَلَا تُفْسِدُوْفِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا۔ترجمہ: اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اس کے سنوارنے کے بعد(القرآن سورۃ الاعراف ، آیت ۵۶،کنزالایمان)یعنی حضور نبی کریم ﷺ کی برکت سے زمین میں ایمان و تقویٰ عدل و انصاف قائم ہوگیا تو اب جھگڑا نہ کرو۔معلوم ہوا اگرچہ فساد پھیلا نا بہر حال برا ہے۔ مگر جہاں اصلاح ہوچکی ہووہاں فساد پھیلانا زیادہ برا ہے۔
اسلام کسی پر زور زبردستی مذہب نہیں تھوپتا قرآن میں ہے۔ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ لْغَیْ…..الخ ۔ ترجمہ: کچھ زبردستی نہیں دین میں ، بے شک سیدھی راہ غلط راہ سے الگ کرکے دکھائی جاچکی ہے۔ (القرآن ، سورہ البقرہ ، آیت ۲۵۶) اسی طرح اسلام دوسرے مذاہب کے رہنماؤں کو برا کہنے کو منع کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَلَا تَسَبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتے ہیں انہیں گالی مت دو کہ وہ اللہ رب العزت کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے۔ (القرآن سورہ الانعام ، آیت ۱۰۸)اسلام مذہبی عقائد اور اشاعت دین کے سلسلے میں نہایت انسان دوست اور برد بار ہے۔ جبراً کسی پر مذہب نہیں تھوپتا ہے۔ اسلام زور زبردستی ، اذیت پسند اور فساد انگیزی کو نہ پسند کرتاہے اور نہ ہی بڑھاوا دیتاہے بلکہ بین الاقوامی(انترراشٹریہ استر) سطح پر زمین پر بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی اعلیٰ درجہ کے حسنِ اخلاق کی ہدایت دیتا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے والا منصفانہ اور اچھے برتاؤ کرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(القرآن سورہ ممتحنہ، آیت ۸)اسلام کے اچھے برتاؤ اور عدل و انصاف کا یہی وہ حقیقی تصور تھا جس کی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے لڑکے کو (جس نے ایک ریس کورس(گھوڑ سواری مقابلہ) میں ایک غیر مسلم کو اس بنا پر ماراتھاکہ اس کا گھوڑا گورنر کے گھوڑے سے آگے نکل گیا تھا) کوڑے لگوائے تھے اور پھر بھری محفل میں مصر کے گورنر کوبھی،اس غیر مسلم کو حکم دیا گیا تھا کہ انہیں بھی کوڑے لگائے۔ اس لئے کہ لڑکے کو باپ کی وجاہت (حکومت کا دبدبہ) کی وجہ سے جرأت ہوئی تھی۔وہ غیر مسلم مدعی یہ سن کر شرم سے پانی پانی ہوگیا ۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلیغ خطبہ دیا ۔لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاتھا ،تم نے ان کو غلام کب سے بنا لیاہے، ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد پیدا کیا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہِ خلافت میں مصر سے ایک خاتون نے آپ کو خط لکھاکہ میرے گھر کی چہار دیواری نیچی ہے جس کی وجہ سے اجنبی لوگ میرے گھر میں جھانکتے ہیں اور چور سامان اٹھا لے جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے مصر کے گورنر کو خط لکھا کہ عورت کے گھر کا جائزہ لیا جائے اور گورنر اپنی نگرانی میں اس کے گھر کی تعمیر کرائیں اور گھر کی چہار دیواری کو اونچا کر دیں۔ وہ عورت ایک حبشی تھی اور غیر مسلم بھی تھی۔مصر کے گورنر خود کھڑے ہوکر اپنی نگرانی میں اس کے گھر کی تعمیر کرائی۔ مذہب اسلام امن و صلح ، بھائی چارگی کی نہ صرف تعلیم دیتاہے بلکہ عملی طور پر اس کو کرکے انجام تک پہنچاتا ہے۔
اسلام میں انسانی عظمت کا تصور:
مشہور بزرگ الرفاعی علیہ الرحمتہ رضوان اپنے منقولات (پروچن )میں فرماتے ہیں : اے فرزند دلبند! پانچ چیزیں آخرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اللہ کا ڈر ، اس کے لئے عاجزی، خاکساری، حسنِ اخلاق اور دل میں راج کرنے والا زہد۔یعنی اے برادر عزیز!اللہ کی مخلوق کے ساتھ جس قدر آداب و محبت کے ساتھ پیش آسکتے ہو ،پیش آیا کرو۔اپنے والدین کریمین(ماتا پیتا) پر شفقت و رحمت کی بھرپور نگاہ ڈالا کرو۔رشتہ داروں کے بندھن جوڑے رکھو۔ پڑوسیوں کو ٹوٹ کر چاہو، رحمت و مہربانی کا پیکر بنے رہو۔دیکھنے والا کہے کہ یہ تو اخلاصِ مصطفی کا نمونہ معلوم ہوتاہے۔ یعنی اے (میرے عزیز ، بار دیگر کہتاہوں کہ ) اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھائی و بھلائی سے پیش آنا۔ مصطفی جانِ رحمت کی فرمان عظمت ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھ پر پڑوسیوں کے بابت اتنی وصیت و تاکید کی مجھے محسوس ہونے لگا شاید انہیں وراثت میں شریک کر دیا جائے گا۔ یہ ہے اسلام ۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ اسلامی تاریخ ، روایات اور مزاج اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے کبھی دہشت گردی اور تشدد کی اجازت نہیں دی ہے اور دنیا میں جو اس نے عظیم انقلاب برپا کیا وہ اپنے اخلاق حسنہ کے زور پر کیا ہے، جسے ہم صالح اور پر امن انقلاب کا نام دے سکتے ہیں۔ تمام مسلمانوں خصوصاً اہلِ علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ساتھ ساتھ دوسروں تک اسلام کو پہنچائیں۔ یہ ہماری دینی و سماجی دونوں ذمہ داری ہے۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین!!۔(ملت ٹائمز)
(نوٹ یہ مضمون آل انڈیا ریڈیوپر بھی نشر کیا گیا ہے )