نرنجن ٹاکلے
ترجمہ: نایاب حسن
( فلموں میں جب سیاست کو موضوع بنایا جاتا ہے، تو عموماً یہی دکھایا جاتا ہے کہ سیاست داں کس طرح سسٹم اور عدلیہ کا بے رحمانہ استعمال؛ بلکہ استحصال کرتے ہیں، دیکھنے والے ایسی فلم کو محض تفریحِ طبع کے لیے دیکھتے ہیں ،شاید ہی کبھی ذہن اس طرف جاتا ہوکہ حقیقی سیاسی دنیا میں بھی ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں، مگر درجِ ذیل سٹوری کو شروع سے آخر تک پڑھیے، تو حیرت انگیز صورتِ حال سامنے آتی ہے، سیاسی سفاکیت کی خوفناک مثال، عدلیہ کو کوڑھی و اپاہج بنائے رکھنے کا دہشت ناک نمونہ! ” دی کارواں میگزین “ ( انگریزی و ہندی ) کے نرنجن ٹاکلے کی یہ سٹوری متعلقہ سائٹ کے علاوہ دی وائر، انڈیا ویجل، اسکرول ڈاٹ اِن وغیرہ پر بھی شائع کی گئی ہے، معروف صحافی روش کمار نے کل این ڈی ٹی وی پر اپنے خصوصی پروگرام میں اسی کو موضوعِ گفتگو بنایا، کل ہی معروف سماجی تنظیم ”انہد“ کی کال پر ویمن پریس کلب میں پروفیسر اپوروانند، منیشا سیٹھی، سیدہ حمید، ہرتوش سنگھ بال اور شبنم ہاشمی جیسی انٹلکچوئل شخصیات نے پریس کانفرنس کرکے اس معاملے کی سنگینی پر عدالتِ عالیہ کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے، مجموعی طور پر قومی میڈیا اس خبر سے ” بے نیازی “ برت رہاہے، کہ موجودہ وقت میں سیاسی قوت نے ابلاغ کے ذرائع کو اپنی بارگاہ میں جھکا رکھا ہے، نوجوان صحافی نایاب حسن قاسمی نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے جو ملت ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے)
برج گوپال ہری کشن لویا ممبئی میں سی بی خصوصی عدالت کے چیف جج تھے،جن کی موت 2014 میں 30 نومبراور یکم دسمبر کی رات ناگپور کے سفر کے دوران ہوئی،اس وقت وہ مشہور و معروف سہراب الدین انکاو ¿نٹر کیس کی سماعت کررہے تھے،جس کے مرکزی ملزم بی جے پی کے موجودہ سربراہ امت شاہ تھے،اُس وقت میڈیا میں یہ بتایاگیا کہ لویا کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے؛لیکن نومبر2016سے نومبر2017کے دوران اپنی ذاتی تفتیش کے دوران مجھے جو ثبوت و شواہد ملے ہیں،ان کی وجہ سے لویا کی موت کے حادثے پرسنگین سوالات اٹھتے ہیں،ان میں سے ایک سوال توخود لویا کی لاش سے جڑا ہواہے جب وہ ان کے گھر والوں کے سپرد کی گئی۔میں نے جن لوگوں سے بات چیت کی،ان میں ایک لویا کی بہن انورادھا بیانی ہیں،جو مہاراشٹر کے دھولے میں ڈاکٹر ہیں،بیانی نے میرے سامنے ایک دھماکہ خیز انکشاف کیا،انھوں نے مجھے بتایا کہ لویا نے انھیں یہ جا نکاری دی تھی کہ ممبئی ہائی کورٹ کے تب کے چیف جسٹس موہت شاہ نے انھیں ایکFavourable فیصلے کے عوض سو کروڑ کی رشوت دینے کا وعدہ کیا تھا، انھوں نے بتایا کہ یہ بات لویا نے انھیں اپنی وفات سے چند ہفتے قبل اُس وقت بتائی تھی،جب فیملی کے لوگ اپنے آبائی وطن گیٹ گاو ¿ں میں دیوالی منانے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے،لویا کے والد نے بھی مجھے بتایا کہ ان کے لڑکے نے انھیں بتایا تھا کہ ایک موافقانہ فیصلے کے عوض انھیں پیسے اور ممبئی میں ایک مکان کی پیش کش کی گئی تھی۔
برج گوپال ہری کشن لویا کو جون 2014 میں جے ٹی اُتپٹ کے تبادلے کے بعد سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج کے طورپر تقررکیاگیا تھا،اُتپٹ کا تبادلہ اس وجہ سے کیاگیا تھا کہ انھوں نے امت شاہ کی عدالت میں مسلسل غیر حاضری پر انھیں پھٹکارلگائی تھی،”آو ¿ٹ لُک“میں فروری2015میں شائع شدہ ایک رپوٹ کے مطابق”اس ایک سال کے دوران اور اس کے بعد بھی جب تک اتپٹ سی بی بی آئی کی خصوصی عدالت کے کیسز دیکھتے رہے،کورٹ ریکارڈ کے مطابق امت شاہ ایک بار بھی عدالت نہیں پہنچے،حتی کہ بری کیے جانے والے آخری دن بھی وہ عدالت میں نہیں آئے،اس دوران ان کے وکیل نے ہمیشہ یہ کہتے ہوئے زبانی طورپر رعایت دیے جانے کی درخواست کی کہ ”شاہ ذیابیطس کے مریض ہیں،چل پھر نہیں سکتے “یا یہ کہ” وہ دہلی میں مشغول ہیں“۔
”آو ¿ٹ لک“کی رپورٹ میں آگے کہاگیاہے”6جون2014کو اتپٹ نے شاہ کے وکیل کے سامنے ناراضگی کا اظہار کیااور اس دن تو حاضر ہونے سے چھوٹ دے دی،مگر 20جون کو امت شاہ کو حاضرہونے کا حکم دیا؛لیکن وہ(امت شاہ)پھر نظر نہیں آئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اتپٹ نے امت شاہ کے وکیل سے کہاتھا”آپ ہمیشہ بلا کسی معقول وجہ کے عدالت میں حاضری سے چھوٹ چاہتے ہیں“ رپورٹ کے مطابق”اتپٹ نے اگلی سماعت کے لیے 26جون کی تاریخ متعین کی،مگر25جون کوان کا پونے تبادلہ کروادیاگیا“یہ ستمبر2012کو عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کی صریح خلاف ورزی تھی،جس میں کہا گیا تھا کہ ”سہراب الدین کیس کی سماعت شروع سے اخیر تک ایک ہی جج کوکرنا ہے“۔
جسٹس لویا نے شروع شروع میں امت شاہ کی عدالت میں حاضری سے معذوری کی درخواستوں پر نرمی برتی،”آو ¿ٹ لک“کی رپورٹ کہتی ہے”اتپٹ کے جانشین لویا نرمی اختیار کرتے ہوئے ہر تاریخ پر امت شاہ کو عدالت میں حاضری سے چھوٹ دے دیا کرتے تھے“۔مگر ممکن ہے کہ بظاہر نظر آنے والی یہ نرمی عدالتی کارروائی کا ہی حصہ ہو۔”آو ¿ٹ لک“کی سٹوری کے مطابق”قابلِ ذکر ہے کہ ان کی پچھلی Noting کہتی ہے کہ شاہ کو الزام ثابت ہونے تک ذاتی طورپرعدالت میں حاضری سے چھوٹ دی جاتی ہے“،اس سے پتاچلتا ہے کہ اگر چہ لویا نے نرمی دکھاتے ہوئے امت شاہ کو عدالت میں حاضر ہونے سے چھوٹ دی؛لیکن انھیں بری کرنے کی بات یقیناً ان کے دماغ میں نہیں رہی ہوگی۔مقدمہ کرنے والے سہراب الدین کے بھائی رباب الدین کے وکیل مہرڈیسائی کے مطابق جسٹس لویا دس ہزار سے زائدصفحات پر مشتمل چارج شیٹ کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتے تھے،اسی طرح وہ متعلقہ ثبوتوں اور گواہوں کی جانچ کے حوالے سے بھی کافی سنجیدہ تھے“،ڈیسائی کہتے ہیں”یہ مقدمہ حساس اور اہم تھا،جو ایک جج کے طورپر مسٹر لویا کے وقار و اعتبار کو طے کرتا؛لیکن ان پر دباو ¿ تولگاتار بنایا جارہا تھا“۔
لویا کی بھتیجی نوپوربالاپرساد بیانی ممبئی میں ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ کر پڑھائی کررہی تھیں،انھوں نے مجھے اپنے انکل پر ہونے والے دباؤ کے بارے میں بتایا”وہ جب کورٹ سے واپس گھر آتے، تو کہتے ”بہت ٹینشن ہے،یہ ایک بہت بڑا کیس ہے،اس سے کیسے نپٹیں،اس میں ہر کوئی شامل ہے“۔نوپور کے مطابق”یہ سیاسی اَقدار کا سوال تھا“۔
ڈیسائی نے مجھے بتایا” کمرۂ عدالت میں ہمیشہ تناو ¿بھرا ماحول رہتا،جب ہم لوگ سی بی آئی کے ذریعے پیش کردہ کال ڈیٹیلس(جو گجراتی زبان میں تھے) کا انگریزی ترجمہ پیش کیے جانے کا مطالبہ کرتے ، تووکیل دفاع ہمیشہ امت شاہ کو تمام الزامات سے بری قراردیے جانے پر اصرار کرتے“۔ڈیسائی نے بتایا کہ نہ توشکایت کنندہ گجراتی زبان ںسمجھتا تھا اور ناہی لویا گجراتی زبان جانتے تھے۔ ڈیسائی کہتے ہیں”مگر شاہ کے وکیل ہمارے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ شاہ کی براءت کی عرضی پر سماعت کے لیے اصرار کرتے“۔وہ مزید کہتے ہیںکہ ان کے جونیئر وکیل اکثر کورٹ روم میں موجودکچھ اجنبی اور مشتبہ لوگوں کی بات کرتے تھے،جو دھمکی آمیز انداز میں مدعی کے وکیل کو گھورتے اور آپس میں کاناپھسی کرتے رہتے۔ڈیسائی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ31اکتوبر کو ایکHearing کے دوران لویا نے پوچھا کہ شاہ عدالت کیوں نہیں پہنچے؟توان کے وکیلوں نے بتایاکہ خود لویا نے انھیں عدالت میں حاضری سے چھوٹ دے رکھی ہے،تولویا نے کہاکہ یہ رعایت صرف تب ہے،جب امت شاہ ریاست (مہاراشٹر)سے باہر ہوں؛لیکن اس دن تو وہ ممبئی میں ہی تھے،مہاراشٹر کی نئی بی جے پی حکومت کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لیے آئے اور کورٹ سے محض ڈیڑھ کیلو میٹر کی مسافت پر تھے،انھوں نے امت شاہ کے وکیل کو ہدایت دی کہ آیندہ جب امت شاہ مہاراشٹر میں ہوں،توانھیں عدالت میں حاضر کیا جائے اور سماعت کی اگلی تاریخ15دسمبر مقررکی۔
انورادھابیانی نے مجھے بتایا کہ لویا نے انھیں کہا تھا کہ موہت شاہ(جو جون 2010سے ستمبر2015تک بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے)نے لویا کوایک موافقانہ فیصلے کے عوض سوکروڑ روپے کی پیش کش کی تھی،ان کے مطابق”موہت شاہ دیر رات انھیں کال کرکے سول ڈریس میں ملاقات کے لیے بلاتے اورجلد ازجلد موافقانہ فیصلہ دینے کے لیے ان پر دباو ¿ بناتے“۔بیانی کہتی ہیں”میرے بھائی کوایک موافقانہ فیصلے کے لیے سوکروڑ روپے کی پیش کش کی گئی اور یہ پیش کش خود چیف جسٹس نے کی“۔وہ مزید کہتی ہیں”موہت شاہ نے ان کے بھائی سے کہا تھا کہ اگر یہ فیصلہ 30دسمبر سے پہلے پہلے آجاتا ہے،تویہ زیادہ فوکس میں نہیں آئے گا؛کیوں کہ اس دوران (میڈیا میں)ایک اور دھماکہ خیزسٹوری چلنے والی ہے،جس کی وجہ سے امت شاہ کی براءت کے معاملے پر کوئی دھیان نہیں دے گا“۔لویا کے والد ہری کشن نے بھی مجھ سے کہا کہ ان کے بیٹے نے انھیں رشوت دیے جانے کی بات بتائی تھی۔وہ کہتے ہیں”ہاں!اسے پیسوں کی پیش کش کی گئی تھی“،مزید کہتے ہیں”اس سے کہاگیاتھا کہ کیاتمھیں ممبئی میں گھر چاہیے،تمھیں کتنی زمین چاہیے،کتنے روپے چاہئیں؟یہ ایک باقاعدہ آفرتھا،مگر میرے بیٹے نے اسے ٹھکرادیا،اس نے مجھے کہاکہ میںاپنا تبادلہ کروالوں گایا استعفا دے دوں گا، گاؤں جاکر کھیتی کروں گا“۔
لویا کی موت کے بعدسہراب الدین کیس ایم بی گوساوی کے سپرد کیا گیا، گوساوی نے 15دسمبر2014کواس کیس کی سماعت شروع کی۔مہر ڈیسائی کہتے ہیں”انھوں نے وکیل دفاع کے ذریعے امت شاہ کی براءت کے لیے پیش کی گئی دلیلوں کی مسلسل تین دنوں تک سماعت کی،جبکہ پراسکیوٹر کو محض پندرہ منٹ میں نمٹادیا گیا،انھوں نے17دسمبر تک سماعت کی اور اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا“۔30دسمبر کو(لویاکی موت کے تقریباً ایک ماہ بعد) گوساوی نے ڈیفنس کی اس دلیل کی توثیق کی کہ ان کے مو ¿کل کو سیاسی منشاکے تحت پھنسایاگیا اور نتیجتاً امت شاہ کو تمام تر الزامات سے بری قرار دے دیاگیا ۔اس دن ملک بھر کے ٹی وی سکرین پر مہندر سنگھ دھونی کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کی خبر چھائی رہی، بیانی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں”نیچے بس ایک پٹی چل رہی تھی کہ امت شاہ بے قصور ثابت،امت شاہ بے قصور ثابت“۔
لویا کی موت کے لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد موہت شاہ ان کی غمزدہ فیملی سے اظہارِ تعزیت کے لیے پہنچے۔لویا کے اہلِ خانہ سے مجھے ان کے لڑکے انوج کا لکھا ہوا ایک خط ملا،جو ان کی فیملی کے بقول انوج نے اسی دن لکھا تھا،جس دن چیف جسٹس نے لویا کے گھر والوں کی تعزیت کی تھی،اس خط پر18فروری2015کی تاریخ پڑی ہوئی تھی،یعنی لویا کی وفات کے تقریباً اَسی(80)دن بعد۔انوج نے لکھا تھا”مجھے اندیشہ ہے کہ یہ سیاست داں میرے گھر کے کسی بھی فرد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور میں ان سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں“۔موہت شاہ کے حوالے سے انھوں نے لکھا تھا”میں نے انھیں والد کی موت کی جانچ کے لیے ایک انکوائری کمیشن بٹھانے کے لیے کہا ہے، مگر مجھے ڈرہے کہ وہ ہمیں ان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے روکنے کے لیے ہمارے کسی بھی فیملی ممبر کو نقصان پہبنچا سکتے ہیں،ہماری زندگیاں خطرے میں ہیں“۔انوج نے اپنے خط میں دوبار یہ لکھا ہے کہ”اگر مجھے یا میرے خاندان کے کسی فرد کو کچھ ہوتا ہے،تو اس کے ذمے دارچیف جسٹس موہت شاہ اور دوسرے وہ لوگ ہوں گے جو اس معاملے میں ملوث ہیں“۔ نومبر2016کو جب لویا کے والد ہرکشن سے میری ملاقات ہوئی،توانھوں نے کہا”میں اب پچاسی سال کا ہوچکا ہوں اور مجھے موت کا خوف نہیں ہے،میں انصاف بھی چاہتا ہوں،مگر مجھے اپنے بچوں اور ان کی اولاد کی جان کا اندیشہ ہے“۔یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھرآئیں،رہ رہ کر ان کی نگاہ اپنے بیٹے کی اُس تصویر پر جاٹکتی،جو ان کے آبائی گھرکی دیوار پر ٹنگی تھی اور اب اس پر مالا پڑا ہوا تھا۔