گوہاٹی؍نئی دہلی: 24؍نومبر (پریس ریلیز؍ملت ٹائمز)
ہندوستان کے صوبہ آسام میں لوگوں کی شہریت کا مسئلہ بالخصوص مسلمانوں کے لئے انتہائی پےچیدہ رہا ہے۔ لوگوں کو حق شہریت سے محروم کرنے کے لئے ” ڈی ووٹر ” یعنی مشکو ک ووٹر کی کےٹگری بھی ایک خطرنا ک ہتھیار ہے جس کا شکار لاکھوں حقیقی شہری بھی ہوتے آئے ہیں اور ہو رہے ہیں جن کی شہریت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ ہے آسام میں گوالپاڑہ کے ففونگا گاﺅں کی رہنے والی مر ضینہ بےگم کی ہے، جسے پولس نے 29، نومبر 2016 کو آدھی رات کے وقت ‘ڈی ووٹر ‘ کہکر گرفتار کر لےا اور غیر ملکیوں کے لئے بنے detention camp میں ڈال دیا ۔ گرفتاری سے پہلے نہ تو کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ کورٹ کا اس کے خلاف کوئی آرڈر آیا جو ہندوستانی قانون کے بالکل خلاف ہے ۔ بہر حال جب ان کے رشتہ داروں نے جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے پاس فریاد لےکر پہونچے تو انہوں نے آسام اسمبلی میں پارٹی کے اپوزیشن لیڈرحافظ بشیر احمد کی قےادت مےںا پنی پارٹی کے کچھ ممبران اسمبلی اور وکلاءپر مشتمل ایک ٹیم کو ڈیٹینشن کیمپ میں بھیجا جہاں جاکر انہوں نے مرضینہ بےگم سمیت تمام لوگوں سے ملاقات کی۔ اس کے بعد مولانا نے اپنے وکلاء کو ہدایت دے کر گوہاٹی ہائی کورٹ میں مرضینہ بےگم کی گرفتاری کے خلاف پٹیشن دائر کیا ، جس کے بعد جب تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کے اس مرضینہ بےگم کے خلاف کوئی مقدمہ تھا ہی نہیں ، نہ کبھی اس کے خلاف کوئی نوٹس جاری ہوا تھا۔ اس کے پاس شہریت کے دستاویز موجود ہیں ۔ ان حقائق کی روشنی میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے11 ،جولائی2017 کو مرضینہ بےگم کو ضمانت دینے کا اور پھر بعد میں باعزت بری کرنے کا حکم جاری کیا ۔ اس کے بعد مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر وکلاءکی ٹیم نے مرضینہ بےگم کو بغیر ثبوت کے گرفتار کرنے اور کئی مہینہ بغیر کسی جرم کے جیل کی صعوبتوں کے ہرجانہ کے طور پر سرکار اور پولس کے خلاف ایک کروڑ روپیہ کا معاوضہ دینے کے لئے مقدمہ دائر کیا ۔ اب کچھ لوگ پولس کی وردی میں ہتھیار سے لیس ہوکر رات میں آتے ہیں اور مرضینہ بےگم کو دھمکی دیتے ہیں کہ مقدمہ واپس لے لو ورنہ انجام برا ہوگا۔ اس کے علاوہ کچھ دلال قسم کے لوگ آکر اسے کچھ روپیہ لےکر معاملہ ختم کرنے کا دباﺅ دال رہے ہیں ۔ ان سب سے ڈرکر مرضینہ بےگم اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لینے پر مجبور ہے، وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چھپتی پھر رہی ہے۔ جےسے ہی اس کی اطلاع ممبر آف پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل کو کل رات ملی وہ اپنی پارٹی کے کچھ اراکین اسمبلی اور جمعیۃ کے کارکنان کے ساتھ آج مرضینہ بےگم کے گھر پہونچے، اور ایس . پی اور ڈی ایس پی کو بلاکر مرضینہ بیگم کی داستان پورے گاﺅں والوں کی موجودگی میں سنوائی اور اس کے تحفظ کے لئے مکمل انتظام کا مطالبہ کیا ۔مولانا نے کہا کہ جو لوگ بھی مرضینہ بیگم کو دھمکانے میں لگے ہیں یا ان پر دباﺅ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خلاف فوراً کاروائی ہونی چاہئے اور مرضینہ بےگم کو مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے ورنہ ہم پھر کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ڈی ایس پی اور ایس پی نے پورے معاملہ کو سننے کے بعد ملزمین کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کروائی۔ واضح رہے کہ آسام کے لوگوں کی شہریت کی بنےاد 1971 ہو یا پھر 1951 اس سے متعلق مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہاہے، اسی طرح نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں نام رجسٹر کروانے کے لئے Linkage sertificate کے طور پر پنچایت سر ٹیفیکٹ کو تسلیم کیا جا ئے یا نہیں اس پر بھی سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہو چکی ہے اور جلد ہی اس پر فیصلہ آنا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی شہریت کا معاملہ وابستہ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماءہند صوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل کی زیر سرپرستی وکلاء کی ٹیم ان متأثرین کی جانب سے سپریم کورٹ میں ۶/ ۷ مقدمات لڑ رہی ہے، اسی طرح ‘ ڈی ووٹر’ کے ٹیگ سے متأثر ہونے والوں کے بھی درجنوں مقدمات سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، سیشن کورٹ، اور مجسٹریٹ کورٹ میں لڑ رہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران ان سب میں انصاف کے لئے پر امید ہے۔





