حنان الحروب:مقبوضہ فلسطین میں روشنی کی کرن
خالد المعینا
ورکی فاؤنڈیشن کی جانب سے بہترین عالمی معلمہ (ٹیچر) کا انعام پانے والی حنان الحروب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی بچے بھی دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح امن اور محبت سے رہیں۔
حنان الحروب ال بیرح میں واقع سمیحہ خلیل ہائی اسکول میں عربی پڑھاتی ہیں۔انھوں نے مزید کہا ہے کہ یہ اساتذہ اور معلمات ہی ہیں جو نہ صرف تعلیمی منظرنامے بلکہ دنیا کو تبدیل کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔نیا نصاب اور ٹیکنالوجی تعلیم میں اہمیت کے حامل ضرور ہیں اور اچھی چیزیں ہیں لیکن اگر استاد کو اولیت نہ دی جائے تو ان کی کچھ اہمیت باقی نہیں رہتی ہے۔
حنان الحروب نے پاپائے روم پوپ فرانسیس کی جانب سے اعلان کردہ دس لاکھ ڈالرز کی رقم کو ان طلبہ کی جامعہ کی ٹیوشن فیس ادا کرنے کا عزم کیا ہے جو تعلیم سے فراغت کے بعد معلم بنیں گے۔
وہ دوسرے فلسطینیوں کے ساتھ مقبوضہ سرزمین میں ایک ایسے ماحول میں رہ رہی ہیں جہاں اسرائیلی ’’آباد کاروں‘‘ (سیٹلرز) کے گینگ کم وبیش روزانہ ہی اسکولوں ،گرجا گھروں اور مساجد پر حملے کرتے ہیں اور ان سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ان فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجی اشک آور گیس کے گولے پھینکتے اور براہ راست گولیاں چلاتے ہیں اور پھر اس پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
حنان الحروب نے اسی ماحول میں زندہ رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا:میں ان کے ماحول کو کنٹرول نہیں کرسکتی ہوں یا اسکول کے باہر ان کے تحفظ سے قاصر ہوں۔اس لیے میں انھیں اسکول کے اندر خوشیوں بھرا اور محفوظ ماحول مہیا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
حنان الحروب سوجے ہوئے چہروں والے کم سن بچوں کو اسکول میں داخل ہوتے دیکھتی ہیں،یہودی آبادکاروں نے ان کے چہروں پر تھپڑ مارے ہوتے ہیں یا اسرائیلی فوجیوں نے گھونسوں سے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا ہوتا ہے جس سے ان کے چہرے سوج کر کُپا ہوجاتے ہیں۔
وہ ان کی دل جوئی کرتی ،ان سے محبت سے پیش آتی ہیں،ان کا خیال رکھتی ہیں اور ہمدردرانہ انداز میں انھیں پڑھاتی ہیں۔انھیں خود بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس سے ان کے عزم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔
جبروتشدد کے اس ماحول میں ان کی کامیابی فلسطینیوں کی فلسطین کی تاریخ کے سیاہ اور الم ناک مرحلے پر قابو پانے کے عزم کی آئینہ دار بھی ہے۔وہ ایک فلسطینی مہاجر کیمپ میں پلی بڑھیں،خود بھی تشدد کا شکار ہوئیں مگر حنان آہ وبکا نہیں کی بلکہ وہ مضبوط رہیں اور چیلنجز سے نمٹنے کا عزم کیا۔
ان کی بنیادی تشویش بچے تھے، جو اسکول آتے ہوئے اپنے ہم جولیوں کے قتل پر صدمے سے دوچار تھے۔گذشتہ تین مہینوں کے دوران اسرائیلی فورسز اور قابضین نے دو سو سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔بچے جب روزانہ اس طرح تشدد کے واقعات دیکھتے ہیں تو ان میں غم وغصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔اسرائیل کے ظالمانہ اور سفاکانہ قوانین کے تحت اس وقت آٹھ سال کی عمر تک کے بچے بھی جیلوں میں ہیں لیکن ان مظالم اور سفاکیت کے باوجود امید زندہ ہے اور حنان الحروب نے تشدد کا سامنا کرنے والے بچوں کی مدد کے لیے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔
فلسطینی عوام ایک کم زور اور بے یارومددگار عرب دنیا،صہیونیوں کے امریکی کانگریس پر کنٹرول،یورپیوں کی منافقت اور اخلاقی جواز سے عاری اقوام متحدہ کی وجہ سے مصائب جھیل رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اب تک فلسطینیوں کو درپیش چیلنجز کے بارے میں شلجم سے مٹی جھاڑنے کے مترادف بیانات ہی داغے ہیں۔
فلسطینی اب اسرائیل کی غیر انسانی اور جابرانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ان پالیسیوں کی بدولت فلسطینی اداروں کو بڑے منظم انداز میں تباہ وبرباد کیا جارہا ہے۔
حنان الحروب ان لوگوں میں سے ہیں جو مصائب ومشکلات کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ معلمی کا پیشہ جاری رکھیں گی۔تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے کام کریں گی اور وہ نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا بھر کے معلمین اور معلمات کے لیے ایک رول ماڈل بنیں گی۔(بشکریہ العربیہ )