گجرات نے جنگ آزادی کی قیادت کی ہے ، فرقہ پرست طاقتوں کو آگے بڑھنا سے روکنا بھی اس کی اہم ذمہ داری

نقطۂ نظر: ڈاکٹر منظور عالم

گجرات انتخابات کی تاریخ قریب آچکی ہے ، ممکن ہے جس وقت آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں اس کے ایک دن بعد گجرات میں رائے شماری کا سلسلہ شروع ہوجائے، 9 اور 14 دسمبر کو دو مرحلوں میں ووٹنگ ہونی ہے جبکہ 18 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ گجرات کے رواں انتخابات پر پورے ہندوستان کی نظر ہے، خاص طور پر حکمراں جماعت بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی گجرات انتخابات جس انداز سے لڑرہے ہیں اس سے پتہ چل رہاہے کہ یہ صوبائی انتخاب کے بجائے لوک سبھا کا الیکشن ہے ، عام انتخاب ہورہا ہے جس کیلئے معمولی کارکنان سے لیکر پارٹی کے وزیر اعظم بھی دن ورات ایک کرچکے ہیں اور وہ اس طرح انتخابی ریلیوں میں شرکت کررہے ہیں جیسے وہ یہ انتخاب جیت کر خود وزیر اعلی کی کرسی پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔ یا مستقبل میں وہ اس عہدہ کے خواہشمند ہیں ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وزیر اعظم جس پارٹی کا ہوتاہے وہ اپنی پارٹی کیلئے محنت کرتا ہے ، اس کو کامیابی سے ہم کنار کرانے کیلئے اپنی صلاحیت کا استعمال کرتا ہے لیکن جناب نریندر مودی صاحب وزیر اعظم ہونے کے ساتھ جس انداز سے اپنی پارٹی کیلئے ووٹ مانگتے نظر آرہے ہیں ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے اور یوں لگتاہے کہ وہ خود کو وزیر اعظم کے بجائے صرف پارٹی کارکن ہی سمجھتے ہیں جس کی بنا پر تمام اخلاقی حدود پار کر جاتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے الیکشن میںان کا ووٹ مانگنا یہ بھی بتاتا ہے کہ بی جے پی میں اس کے علاوہ کوئی اور چہرہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ ووٹ مانگ سکے۔ بہر حال الیکشن قریب ہیں، گجرات کے اس انتخاب میں متعدد سیاسی پارٹیاں زور آزمائی کررہی ہیں لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہے۔
الیکشن دستور کی روح ہے ، جمہوریت کی بقاء الیکشن پر قائم ہے اور جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوام کی خدمت کی جائے ، ان کی جذبات کی قدر کی جائے، انہیں ہر طرح کی آزادی فراہم کرائی جائے ، اپنے خاندان کا فرد سمجھ کر بہتر سلوک کیا جائے ، اپنی پارٹیوں کی تعریف اور خوبیوں کو اس انداز میں بیان کیا جائے کہ وہ اخلاقی معیار پر قائم ہوں، روداری ہو ، مخالف پارٹیوں کیلئے جذبۂ احترام باقی ہو، شائستہ اور مہذب زبان استعمال کی گئی ہو۔ حسن اخلاق کے پیکر اور باہم روا داری کے جذبہ کو فروغ دینے والے ہمیشہ ان چیزوں کا خیال رکھتے ہیں ، اپنے دشموں کیلئے بھی وہ مہذب زبان استعمال کرتے ہیں، مخالفین کی خامیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کرنے دوران بھی وسعت ظرفی سے کام لیتے ہیں ، ایسے الفاظ کے استعمال سے مکمل گریز کرتے ہیں جو گھٹیا ہوں، اوچھے ہوں ، نفرت آمیز ہوں، دشمنی کو بڑھاوا دیتے ہوں، ماحول کو زہر آلود بناتے ہوں، فرقہ واریت کوجنم دیتے ہوں، شرافت ، عزت نفس کے خلاف ہوں اور جس کے نتیجے میں ہر پل خوف و ہراس کا ماحول قائم رہتاہو ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ گجرات کے حالیہ الیکشن میں ماضی کے مقابلے میں ایسی گھٹیا اور اخلاق سوز زبانیں استعمال کی گئی ہیں جس کی ایک جمہوری ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور دستور کیلئے شرمناک ہے ۔
ملک کے عام حالات دن بدن بدتر ہوتے جارہے ہیں، ہر طرف نفرت اور فرقہ وارانہ ماحول بن گیا ہے ، حساس لوگ مایوسی کے شکار ہوتے جارہے ہیں، ان امور کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہورہی ہے، سوئے اتفاق ہمارے وزیر اعظم بھی ہندوستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں اور وزرات عظمی کے منصب کا لحاظ کئے بغیر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں، ایسے جملوں کا استعمال کرتے ہیں جس سے عالمی سطح پر ہندوستانی عوام کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومت کے قیام کے فوراً بعد آر ایس ایس ، ذیلی تنظیمیں، بی جے پی اور اس سے وابستہ افراد نے جس زہریلی اور گھٹیا زبان کا استعمال شرو ع کیا تھا وہ سلسلہ اب تک باقی ہے ، ہمارا اندازہ تھا کہ حکومت کے قیام اور اقتدار مل جانے کے بعد یہ لوگ اپنے اندر تبدیلی لائیں گے ، مین اسٹریم میں آکر باتیں کریں گے ، اپنی گفتگو ، اپنے انداز اور رویے سے صاحب اقتدار اور حکمراں جیسا رول ادا کریں گے ، تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں گے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اقتدار کر کسی پر فائز ہونے کے بعد بھی ان کے رویے اورطریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، وہی اشتعال انگیزی ، نفرت آمیز باتیں ، زہریلی فضاء آج بھی ان کے ارد گرد نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ امن وآشتی ، میٹھی زبان ، پرامن ماحول اور ان سب کے درمیان تضاد کا رشتہ ہے ، ان کی پروش و پرداخت ہی نفر ت انگیز فضاء میں ہوئی ہے ۔
گجرات میں بی جے پی گذشتہ 22 سالوں سے اقتدار میں ہے ، یہ موقع تھاکہ بی جے پی اپنی 22 سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرتی ، ترقی کے طے کردہ منازل پیش کرتی ، اپنے کئے ہوئے کاموں کی تفصیلات بیان کرتی، عوام کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر یہ کہتی ہے کہ 22 سالوں میں ہم نے یہ کیا ہے ، ریاست کو ترقی یافتہ بنایا ہے ، عوام کی تمام پریشانیاں دور کی ہے ، تمام شعبۂ حیات میں کام کیا گیا ہے لیکن معاملہ برعکس ہے ، حکمراں جماعت کی زبان اپوزیشن سے بھی زیادہ تیز ہے ، کارکردگی کو سامنے لانے کے بجائے فرقہ ورانہ ماحول بناکر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیر اعظم بھی ترقی اور فلاح و بہبود کی باتیں کرنے کے بجائے فرقہ ورانہ خطوط پر گامزن ہیں۔ الزام تراشی سے آگے بڑھ کوئی بات نہیں کررہے ہیں۔
گجرات الیکشن کی یہ پوری تصویر ہے ، بی جے پی کے انتخابی سفر کی یہ داستان ہے جس کے تئیں پورے ملک کی عوام بالخصوص ریاست گجرات کے لوگوں کیلئے فکرمند ہونا ضروری ہے ، گجرات تجارت کا مرکز ہے، آزادی کی جنگ میں یہ ریاست قیادت کا فریضہ انجام دے چکی ہے ، یہاں کے باشندوں نے غلامی کے خلاف صدائے اجتجاج بلند کرکے آزادی کی آواز بلند کی تھی، تعلیم، ٹیکنا لوجی اور دیگر شعبہ میں یہ بھی یہ ریاست آگے ہے، ایسے میں اس ریاست پر بہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اس صوبہ کی عوام پر ملک میں نفرت کی فضاء کو ختم کرنے اور بھائی چارگی کو فرو غ دینے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا سب اہم ذریعہ ہے کہ اقتدار انہیں سونپا جائے جو فرقہ واریت کی سیاست نہیں کرتے ہیں، ماحول کو زہر آلود بنانے سے گریز کرتے ہیں، ترقی اور فلاح و بہبود کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، ان طاقتوں کو اقتدار سے مکمل طور پر دور کیا جائے جنہوں نے ملک کو بانٹنے کا کام کیا ہے ، مذہب کے نام پر تفریق ڈالنے کا کام کیاہے ، فلاح و بہبود کے بجائے صرف ہَوا ہَوائی سے کام لیا ہے ، خوش کن وعدے اور چکنی چپڑی باتوں کے علاوہ کچھ اور ان کی حکومت میں نہیں ہوسکا ہے ۔
کسی بھی ملک کی مضبوطی اور ترقی کیلئے جمہوریت کا مضبوط ہونا ضروری ہے ،جس ملک کی ہر کڑی اور ہر اینٹ جب دستور کے دائرے میں ہوتی ہے وہاں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ، ایسا ملک ترقی کے شاہ راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ گجرات کی عوام بھی ماضی میں پورے ہندوستان کی قیادت کرچکی ہے، انگریزوں کے خلاف جنگ لڑچکی ہے ، اس کے اندر فرقہ پرست طاقتوں سے لڑنے اور غلط ہاتھوں میں اقتدار کو جانے سے روکنے کا جذبہ موجود ہے اس لئے اس انتخاب میں بھی اس ریاست پر پورے ہندوستان کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں اور بڑی امیدی وابستہ ہیں ۔
دستور ہمارے لئے سب سے اہم ہے، آئین نے موقع فراہم کیا ہے، الیکشن کا فیصلہ دستور کی روشنی میں ہوتا ہے خواہ تاخیر سے ہی سہی، اب یہ عوام کی عقل و فراست پر مبنی ہے کہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست کو بہتر حکومت دینا چاہتی ہے یہ پھر جذبا ت کی رومیں بہ کر ان طاقتوں کو اقتدار سونپے گی جس سے ملک مزید زوال پذیر ہوگا اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوگی۔ ان باتوں کی جانب اپنے گذشتہ کالم میں بھی ہم بارہا توجہ دلاچکے ہیں ، آل انڈیا ملی کونسل کے قومی کنونشن میں بھی دستور بچاﺅ دیش بناﺅ کا نعرہ دیا گیا تھا ، گجرات الیکشن کے موقع پر ریاست کی عوام سے پوری امید ہے کہ وہ دانشمندی سے کام لیں گی، عقل و فراست کا استعمال کرکے فرقہ پرست طاقتوں کو آگے بڑھنے سے روکیں گی ۔
(مضمون نگار معروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)