عادل سلیمان
بیت المقدس عالم اسلام ہی نہیں دنیائے عیسائیت کے لیے بھی غیرمعمولی مذہبی اور روحانی اہمیت کا حامل مقام ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت اس لیے بھی دو چند ہے کہ یہ شہرمعراج مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سفر اور مسلمانوں کی مذہبی علامت ہے۔ عیسائی القیامہ چرچ کی وجہ سے بیت المقدس مذہب کی علامت قرار دیتے یہں۔ مگر گذشتہ نصف صدی سے یہ شہر غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز تسلط میں ہے۔ صہیونی دشمن نے جون 1967ء کی جنگ میں مشرقی بیت المقدس پرقبضہ جمایا جب کہ مغربی بیت المقدس پر صہیونی فوج نے سنہ 1948ء کی جنگ میں تسلط جمالیا تھا۔
سنہ 1967ء کی جنگ میں صہیونی فوج نے نہ صرف بیت المقدس پر قبضہ کیا بلکہ شام کےوادی گولان، مصر کے جزیرہ نما سیناء صنافیر اور تیران جزیروں، اردن کی مزارع شعبا اور جنوبی لبنان کے الغجر قصبے اور مغربی کنارے پر بھی غاصبانہ تسلط جما لیا۔
یہ درست ہے کہ بیت المقدس کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا اور اس کی آزادی اتنی آسان بھی نہیں مگر ناممکن ہرگز نہیں۔
سنہ انیس سو ستاسٹھ کی جنگ کے بعد عرب ۔ اسرائیل کشمکش وسعت اختیار کرگئی۔ بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر غاصبانہ تسلط جمانا عالمی صہیونی تحریک کا مقصد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بیت المقدس کے مغربی اور مشرقی دونوں حصوں پر تسلط کے بعد فلسطین کے دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا۔
پڑوسی ملکوں کی اراضی پرقبضے کے بعد صہیونی ریاست ماضی کی نسبت زیادہ ناقابل قبول ہوگئی اور اسے مشرق وسطیٰ کا بہت بڑا مسئلہ قرار دیا جانے گا۔ عالمی برادری کی طرف سے بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے کوئی کوثر کوشش نہ کی گئی اور نہ ہی فلسطینی قوم کے مفاد میں کوئی موثر قدم اٹھایا گیا۔
عرب ممالک کی طرف سے ایک بے معنی سی القدس کمیٹی قائم کی گئی جس کی قیادت مراکش کے فرمانروا کو سونپی گئی اور اس کا دفتر رباط میں بنایا گیا۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد بیت المقدس پر اسرائیلی ریاست کے غیرقانونی قبضے کے معاملے کو زندہ رکھنا، اس کے لیے کوششیں کرنا، شہر کی عرب اور اسلامی شناخت کا تحفظ کرنا، اسے یہودیانے اور صہیونی عبرانی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں کا سد باب کرنا تھا۔
بیت المقدس پراولاد صہیون کے پچاس سالہ تسلط کے دوران عربوں نے الدس کے حوالے سے سیکڑوں ترانے اور نغمے تیار کیے اور گائے۔ ان گنت نعرے تیاربنائے اور لگائے گئے کہ ہم لاکھوں مسلمانوں کا لشکر لیے القدس پہنچ رہے ہیں۔
مسلمانوں کی کوششیں نعروں، بیانات اور کمیٹیوں تک محدود رہے جب کہ صہیونی ریاست بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے عملی سازشوں میں دن رات سرگرم عمل رہی۔
اسرائیلی قبضہ صرف مشرقی بیت المقدس کے علاقوں پر نہیں بلکہ اس میں موجود تاریخی دینی مقامات جن میں مسجد اقصیٰ، قبۃ الصخرۃ، کنیسہ القیامہ پر قبضہ کرنے کے ساتھ دسیوں یہودی کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور نام نہاد ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے دوران مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کمزور کی جا رہی ہیں۔
بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں اور نئے گھر بنانے کی اجازت نہیں۔ انہیں کاروبار کرنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اب فلسطینیوں کے پاس چند ایک پرانی کالونیاں رہ گئی ہیں۔
اسرائیلی ریاست کی ناروا پابندیوں کے باعث مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی بھی نماز کے لیے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں نہیں جاسکتے۔
یہاں تک کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں کو بھی یہودیانے کے لیے ’یہودا اور سامرا‘ کی اصطلاح استعمال کیا جاتا ہے۔
اکتوبر سنہ 1973ء کے بعد صہیونی ریاست نے مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے مسئلے سے خود کو نکالنے میں مصر کے ساتھ سمجھوتے اورسنہ 1993ء میں عارضی فلسطینی اتھارٹی کے قیام اور اوسلو معاہدے کے ذریعے اردن کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کےقیام کی راہ ہموار کرلی۔
ایک طرف عرب ممالک نے صہیونی ریاست کے سات جنگ بندی اور مصالحت کی راہ اپنائی تو اس کےساتھ ہی فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ جیسی دوسری فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے سراٹھایا۔ سنہ 2006ء میں صہیونی ریاست نے غزہ کی ناکہ بندی شروع کی اور ایک عشرے میں تین جنگیں مسلط کرکے تباہی اور بربادی کی نئی مثالیں قائم کی گئیں۔ حتیٰ کہ معاملہ آج ’صدی کی ڈیل‘ نامی ایک نئی اور انتہائی خطرناک سازش تک پہنچ چکا ہے۔ قضیہ فلسطین کے تصفیہ کے لیے غزہ کی پٹی کو رام اللہ اتھارٹی کے زیرانتظام لایا جا رہا ہے۔
بیت المقدس کی آزادی نہ تو آسان تھی اور نہ ہی آسان ہوگی مگر یہ ناممکن ہرگز نہیں۔ جب تک القدس پر صہیونی ریاست کا ناجائز تسلط قائم ہے فلسطینیوں کی روح مزاحمت بھی زندہ ہے۔ گوکہ مزاحمتی قوتوں کو محصور کرکے صدی کی ڈیلیں طے کی جا رہی ہیں۔ کیا القدس کوآج کسی اور صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے جو جہاد کی روح بیدار کرے اور اللہ کے حکم سے القدس کو آزاد کرتے ہوئے اس میں داخل ہوئے۔
غزہ کی پٹی کا محاصرہ اور حماس کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ خطے کے دوسرے ممالک اور فلسطینی اتھارٹی بھی اس کار شرمیں برابر کے شریک رہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب خطہ کھا جانے والے بحرانوں کا شکار ہوگیا۔ حماس پر دباؤ بڑھا تو اس نے غزہ کی پٹی سے دست کش ہونے اور انتظامی امور محمود عباس کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ حماس نے اپنی کم سے کم قومی امنگوں اور مطالبات پر قائم رہتے ہوئے حکومت سے الگ رہ کر اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس سارے کھیل تماشے میں بیت المقدس کہاں ہے۔ کیا بیت المقدس کی آزادی کا مطالبہ قائم ہے؟ اور کیا القدس کی آزادی ممکن ہے؟ اس سے بھی اہم ترین سوال یہ ہے کہ بیت المقدس کو کون آزاد کرائے گا۔ جہاں تک عرب ملکوں کا تعلق ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔ عرب حکمران اپنے اقتدار اور کرسیاں بچانے کے چکروں میں ہیں۔ اور رہے عرب ملکوں کے عوام تو انہیں روس میں 2018ء میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریوں سے فرصت نہیں۔
کیا ہم صلاح الدین ایوبی کی واپسی کا انتظار کریں جو ہمیں بیت المقدس صلیبیوں کے بعد اب ایک بار صہیونیوں سےبھی آزاد کرا کے دے۔ اگر یہ محض وھم اور خواب ہے توہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صلاح الدین ایوبی اور اس کے ہاتھ سے بیت المقدس کی آزادی ایک حقیقت تھی۔ صلیبیوں نے ایک صدی تک القدس پر قبضہ جمائے رکھا اور کوئی وہاں مسلمان فاتح نہیں جا سکا یہاں تک کہ معرکہ حطین میں دو جولائی 1187ء کو صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے اور بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ 20 ستمبر سے 2 اکتوبر 1187 ء تک جاری رہا۔
اس کے بعد صلیبیوں جنگجوؤں نے صلاح الدین ایوبی نے مذاکرات کیے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے شہر میں موجود تمام آبادی کو ان کی جان ومال کی امان بخشی۔ اس کے بعد یورپی بادشاہوں نے برطانوی شہنشاہ رچرڈ اول فرانسیسی فیلپ اگسٹس نے ستمبر 1191ء میں بیت المقدس کی طرف بڑھنے اور اس پر دوبارہ قبضے کی ناکام کوشش کی مگر صلیبیوں کی یہ پیش قدمی ناکام رہی۔
یہ لڑائی ایک سال تک جاری رہی جہاں تک کہ ستمبر 1192ء میں صلیبیوں کو ایک بار پھر مذاکرات پرمجبور ہونا پڑا اور القدس کو تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے کھول دیا گیا۔
(بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین)