مولانا شمیم اختر ندوی
سوشل میڈیا ( فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ وغیرہ) کے مثبت و منفی اثرات سے انسانی معاشرہ حد درجہ متأثر ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ اسکی خوبیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اس سے پیدا ہونے والی برائیوں کے سدّ باب کیلئے غور و فکر کیا جائے اور مفید مشوروں سے عوام و خواص کو آگاہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ممبئی کے معروف اور فعال عالم دین مولانا شمیم اختر ندوی نے گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے فکر و نظر کی ترسیل بہت آسان ہوگئی ہے۔ انگلی کی ایک جنبش اقوام عالم کی سرگرمیاں اور اپنے من پسند مواد تک پھونچنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بلکہ پل بھر میں موبائل پر پورے عالم کی خبریں آ دھمکنے کی وجہ سے لوگوں کی توجہات ٹی وی اسکرین اور اخبارات کی سرخیوں سے بے نیاز ہوتی جارہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا مٹھی میں سما گئی ہے۔ شوسل میڈیا کی یہ تیز رفتار ترقی عجلت پسند انسان کے حق میں بھت سے تقاضوں کی تکمیل کا آسان سامان ہے تو دوسری طرف اس کے منفی اثرات سے بھی پوری انسانی زندگی بے چینی و اضطراب کا شکار ہے۔
ایک دور تھا جب ہمیں اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لئے دور دراز کا سفر طے کرنا پڑتا تھا اور ایک محدود طبقہ شہر یا علاقے تک ہماری بات بمشکل تمام پہونچ پاتی تھی لیکن آج سوشل میڈیا کے ذریعے ہم اپنی باتوں کو جند منٹوں میں ایک عالم تک پہونچارہے ہیں۔ دور موجود میں یہ قدرت کا ایک بڑا انعام ہے۔ اگر ہم دین کا شعور رکھتے ہیں تو دین کی آبیاری اور اسکی پرامن دینی و اخلاقی تعلیمات کی تبلیغ کیلئے اس کا استعمال بخوبی کرسکتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا ذہنی اعتبار سے بڑی کشمکش کی شکار ہے اور لوگ سکون کی تلاش میں در بدر بھٹک رہے ہیں بلکہ معاذ اللہ برائیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اسلام کے دعاة ومبلغین کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام کی پرامن تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ سکون زندگی پیرویِ اسلام میں مضمر ہے۔اسلام کی بطور خاص ان تعلیمات کو عام کریں جن کا تعلق معاشرتی زندگی سے ہے۔ اور الحمدللہ مولانا طارق جمیل۔ مولانا الیاس گھمن۔ مولانا سجاد نعمانی اور بہت سارے اسلامی اسکالرز اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کیلئے کوئی لمبی اور طویل تقریر کے بجائے کسی ایک قراآنی آیت و حدیث کا ترجمہ و تشریح اور حالات کی روشنی میں اسکا انطباق کرکے پانچ سات منٹ کی ویڈیو، آڈیو کلپس بنائی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے نسل نو کی زندگی کا رخ ڈگر سے بھٹک رہا ہے۔ اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ رشتوں کے درمیان حیا کی چادر سمٹتی جارہی ہیں۔تعمیری فکر پروان چڑھنے کے بجائے تخریب کاری کا رجحان غالب ہو رہا ہے بلکہ یہ گھر آنگن میں بیٹھ کر بھی بیگانے لگنے لگے ہیں۔ تعلیم کی طرف توجہ کم ہورہی ہے بس ایک ہی دھن دکھائی دیتی ہے اور وہ سوشل میڈیا سے چپکے رہنا۔انکے ہاتھوں میں انڈرائڈ موبائل خوبیوں کے باوجود صرف خرافات کا ایک مجموعہ بنکر رہ گیا ہے اور بس۔ اس طرح کی صورتحال میں والدین کی ذمہ داریاں نسل نو کی تربیت کے تئیں بھت بڑھ جاتی ہیں۔ مناسب ہے کہ سوتے وقت بچوں کے ہاتھ سے موبائل ضبط کر لیا جائے اور اور دیگر مواقع پر بھی گہری نظر رکھی جائے۔ فرصت کے لمحات میں اخلاقی و تربیتی کتابیں گھر پر پڑھنے کا ماحول بنانے کی کوشش کی جائے۔ بصورت دیگر ان بچوں کا مستقبل آج سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ آج الحمدللہ بہت ساری اسلامک سائٹ موجود ہیں بچوں کے سامنے ان کو استعمال کرکے ان کی دلچسپیاں اس سمت میں بڑھائی جائیں۔ انشاء اللہ اس طرح ممکن ہے کہ بچے بگڑنے سے بچ جائیں۔ اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے ہمارے بچوں کی حفاظت ہوجائے۔
جہاں تک سماج اور خاندان کے درمیان باہم ربط و تعلق کا مسئلہ ہے تو سوشل میڈیا سے زندگی کا یہ شعبہ بھی بہت متأثر ہوا ہے اور اس شعبہ میں محبت کی جو گرمیاں پائی جاتی تھیں وہ ایک رسمی اور مصنوعی بنکر رہ گئی ہیں۔ پھلے یہ ہوتا تھا کہ لوگ وقت نکال کر سماج اور رشتہ داروں کے بیچ بیٹھنے اور ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہونے کو اپنی ایک ذمہ داری تصور کرتے تھے لیکن آج سوشل میڈیا کے وساطت سے گفت و شنید اور خوشی کے موقع پر چند مبارک باد کے جملے اور غم کے موقع پر چند صبر وتحمل کی باتیں لکھ بھیج کر دامن جھاڑ لینے کو ہی بڑی بات سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے اب رشتوں میں وہ خلوص و محبت نہیں جھلکتی جو کبھی جدا ہوتے ہوئے آنکھوں کو چھلکا دیا کرتی تھیں۔ مگر اسی کا ایک دوسرا بڑا خوش گوار پہلو یہ بھی ہے کہ سماج و رشتہ داروں میں وہ لوگ جو روزی روٹی کی تلاش میں گھر سے دور ہی نہیں بلکہ بیرون ملک برسر روزگار ہوتے ہیں اور جن سے عموماً ملاقات کے لیے ایک طویل عرصہ صبر کرنا ہوتا تھا سوشل میڈیا نے اس فاصلے کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے اور الحمدللہ روبرو نہیں تو کم از کم ایمو وغیرہ سے مصنوعی روبرو ہوکر حال دل شیر کرنا آسان ہو گیا ہے۔ خصوصا وہ لوگ بڑی راحت محسوس کر رہے ہیں جن کو اپنی شریک حیات اور اولاد کی ایک جھلک پانے کے لئے کئی کئی سال صبر کرنا پڑتا تھا۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا ہے۔لیکن وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے نہ کتاب لکھ پاتے ہیں اور اگر لکھ بھی لیا تو اسکی طباعت کے لئے مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح ان کی صلاحیتیں انکے ساتھ انکی قبر میں چلی جاتی ہیں لیکن دور حاضر میں ایسے بندوں کیلئے ایک خوبصورت موقع ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال کریں اور اقوام عالم کو اپنی علمی کاوشوں اور صالح خیالات سے مستفید فرمائیں۔ اسی طرح وہ حضرات جو متلاشی علم ہیں اور جنہیں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے کتب خانوں کا چکر لگا نا پڑتا ہے اور بسا اوقات بھت سی مطلوبہ کتابوں سے محرومی ہوا کرتی ہے ایسے لوگ سوشل میڈیا کے وساطت سے ملک و عالم کے بڑے بڑے کتب خانوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور بروقت من پسند کتابوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اور اس طرح سوشل میڈیا کو افادہ و استفادہ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وہ باطل خیالات و تصورات جنکو ملک و معاشرے کے شر پسند عناصر پھیلاکر عدم رواداری کا ماحول بناتے ہیں ان کا تعاقب و دفاع بھی سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے۔ آج ملک کے گوشہ گوشہ میں مدارس اسلامیہ کا ایک مظبوط و منظم جال پھیلا ہوا ہے اور الحمد للہ دین کے یہ قلعے اپنے اپنے حلقے میں دینی تعلیم کی ترویچ و اشاعت میں مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ مدارس کی یہی سرگرمیاں متعصب مزاج برادران وطن کوبے چین کر رہی ہیں۔ چنانچہ یہی لوگ موقع بموقع اسکے کردار کو بدنام کرنے کی ناپاک سازشیں رچتے ہیں اور غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعہ مدارس کے ذمہ داران بخوبی انکا منھ توڑ جواب مثبت انداز میں دے سکتے ہیں، مدارس اسلامیہ کے پر امن کردار اور ملک و قوم کیلئے اس کے سپوتوں کے ناقابل فراموش خدمات اور ملک سے ناخوانگی کو دور کرنے میں مدارس کا رول اور اسی طرح کے دیگر عناوین کو موضوع سخن بناکر سوشل میڈیا کا منظم استعمال کیا جاسکتا ہے، اسی طرح معاشرہ میں پائے جانے والی برائیوں اور خرابیوں کے بروقت ازالہ کیلئے بھی سوشل میڈیا ایک بہترین وسیلہ ہے، اس حوالہ سے مختلف تنظیمیں سرگرم عمل ہیں لیکن مدارس کے ذمہ داران کسی قدر غافل نظر آرہے ہیں۔
(مضمون نگار شہر ممبئی کے نامور عالم دین اور جامعۃ الابرار وسئی روڈ کے مہتمم ہیں )





