خبردرخبر(531)
شمس تبریز قاسمی
گجرات انتخابات کے نتیجہ کا رجحان سامنے آگیا ہے ،22 سالوں سے مسلسل بر سراقتدار بی جے پی ایک مرتبہ پھر وہاں حکومت بنانے جارہی ہے ،کانگریس نے ماضی کے مقابلہ میں زبردست ٹکر دینے کی کوشش کی ہے ،ووٹوں کی جب گنتی شروع ہوئی تھی تو دونوں پارٹیوں کی سانسیں اٹکی ہوئی تھی ،کبھی کانگریس آگے بڑھ رہی تھی تو کبھی بی جے پی، تقریبا ساڑھے نوبجے جب کانگریس رجحانات میں 84 سیٹوں پر آگئی تھی اور بی جے پی 80 پر محدود تھی تو کانگریس خیمہ میں جشن کا ماحول شروع ہوگیا تھا ،کارکنان نعرے بازی کرنے لگے تھے ،دوسری طرف بی جے پی میں سناٹا چھاگیاتھا،پارٹی کے ترجمان کچھ دیر کیلئے ٹی وی چینلوں سے غائب ہوگئے تھے ۔ لیکن 11 بجے کے بعد فضاءصاف ہوگئی ہے،یہ واضح ہوگیاہے جیت بی جے پی کی ہی ہوگی۔ہماچل پردیش میں بھی بی جے پی آگے بڑھ رہی ہے اور اس طرح وہاں بھی کانگریس سے اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے گا ۔گجرات اور ہماچل پردیش میں بی جے پی کی جیت کے ساتھ کل 18 ریاستوں میں بھگواپرچم لہراگیاہے ،جبکہ نیلارنگ صرف چھ ایسی ریاستوں تک محدود ہوگیاہے جس کا قومی سیاست میں کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے ۔
گجرات میں کانگریس نے ہار نے کے باوجود اپنی کچھ شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ،ووٹ فیصد بڑھاہے ،بی جے پی کو اس نے کانٹے کی ٹکر دی ہے ۔اس پورے میں راہل گاندھی کی سب سے زیادہ تعریف ہورہی ہے کیوں کہ انہوں نے مودی کا مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کیاہے ،بی جے پی کو کانگریس مکت گجرات بنانے کے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیاہے اور نہ ہی 150 سیٹوں پر جیتنے کا خوا ب پورا ہونے دیاہے جس کا دعوی کیا جارہاتھا تاہم شکست شکست ہے ۔نوٹ بندی جیسی پریشانی،جی ایس ٹی کی مار ،فلاحی اور ترقیاتی کاموں کے فقدان ،غربت کی شرح میں اضافہ ،جی ڈی پی میں کمی اور ہر محاذ پر بحران کے باوجود اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو ملک کے مستقبل کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ، یہ اندازہ ہورہاہے کہ فرقہ پرستوں کا زور ابھی کم نہیں ہواہے ،انتہاءپسندوں اور شدت پسند عناصر کا غلبہ برقرار ہے اور ایک بڑی تعداد ملک میں بی جے پی جیسی انتہاءپسند نظریہ کی حامل پارٹی کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے ۔ اس بنیاد پر اگلے سال 8 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بہت بھی اہم ہوں گے ،ساتھ ہی 2019 کے عام انتخاب میں سیکولر پارٹیوں کی واپسی بہت مشکل اور کٹھن ہوگی ۔
گجرات اور ہماچل پردیش میں ایسے موقع پر کانگریس کو شکست کاسامناکرپڑرہاہے جب کانگریس کی قیادت سونیاگاندھی کے ہاتھوں سے منتقل ہوکر راہل گاندھی کے ہاتھوں میں آگئی ہے جوکسی طرح نیک فال نہیں ہے ،اندرونی ذرائع کے مطابق جگنیش میوانی ،ہاردک پٹیل اور عوامی سطح پر کانگریس کو ملنے والے سپورٹ ،راہل گاندھی کی ہونے والی تعریف اور اس طرح کی چیزوں سے پارٹی کو یہ یقین ہوگیاتھاکہ کانگریس الیکشن جیت جائے گی اور اسی لئے اسی دوران راہل گاندھی کو صدر بنائے جانے کا فیصلہ کیا گیاتاکہ ان کی شروعات شاندار اور تاریخ ساز رہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور 16 دسمبر کوہوئی تاج پوشی کے دو دن بعد راہل گاندھی کو ایک بدترین شکست قبول کرنی پڑی ۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ کانگریس اپنی شکست کے بعد یقینی طو رپر ای وی ایم کو ذمہ دار ٹھہرائے گی لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے اور نہ کوئی معقول وجہ ،اگر ای وی ایم پر اسے یقین نہیںہے تو الیکشن کابائیکاٹ کرنا چاہئے تھا،نتیجہ سامنے آنے کے بعد مشین کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے بہتر یہ ہوگاکہ وہ اسے ختم کرکے بیلٹ پیپر کے استعمال کا مطالبہ کرے اوراس کیلئے ہر ممکن جدوجہد کرے ورنہ سابق چیف الیکشن کمیشن کی یہ بات درست مانی جائے گی کہ ای وی ایم کے تحفظ پر سوال صرف شکست خوردہ پارٹیاں ہی اٹھاتی ہیں ۔
2012 کے گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 182 سیٹوں میں سے 119 حلقوں میں کامیابی ملی تھی جبکہ کانگریس کو 57۔ 2017 کے حالیہ الیکشن بی جے پی کی سیٹیں گھٹ رہی ہیں، کانگریس کی سیٹوں میں اضافہ ہورہاہے ،ووٹ فیصد بھی بڑھے ہیں ، اب تک کے رجحانات میں بی جے پی 104 سیٹوں پر آگے ہے جبکہ کانگریس 78 پر ۔بی جے پی کو 50فیصد ووٹ ملے ہیں اور کانگریس کو 42 فیصد ۔ تاہم یہ شکست ہے اور ایسا لگ رہاہے کہ راہل گاندھی کا 32 مندروں میں جاناکانگریس کے کام نہیں آسکا جبکہ نریندر مودی اس مرتبہ بھی فرقہ وارانہ خطوط پر چل کر الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے ۔بی جے لیڈر سبرامنیم سوامی کے الفاظ میں اگر بی جے پی ہندتو کی سیاست نہیں کرتی تو ہم صرف 20 سیٹوں پرہی محدود ہوجاتے ،اس لئے یہ جیت فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی بنیاد پر ہی ملی ہے ۔