فضلائے ندوہ نے مولانا رابع صاحب کو لکھا خط، تین طلاق پر مولانا سلمان ندوی کو بیان بازی سے دور کھنے کی اپیل

 مظفرنگر: 19؍دسمبر (ملت ٹائمز ؍ بلال بجرولوی )
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو کے استاذ مولانا سلمان ندوی کے بیان پر ہنگامہ کم نہیں ہورہا ہے اور فضلائے مدارس دانشوران اور اہل علم کے درمیان بے چینی بڑھتی جارہی ہے، دوسری جانب مولانا بھی اپنے بیان پر اٹل ہیں اور میڈیا سے صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ تین طلاق کے خلاف مودی سرکار کا مجوزہ بل بالکل درست ہے اور تین طلاق دینے والوں کو کریمنل ایکٹ کے تحت جیل کی سزا ہونی چاہیئے ، اس سلسلے میں ندوہ کے فضلاء بھی بیحد ناراض ہیں اور مغربی یوپی کے ندوی فضلاء نے ندوہ العلماء کے ناظم اعلیٰ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا محمد رابع حسنی ندوی کو خط ارسال کرکے کہا کہ تین طلاق دینے پر جمہور علماء طلاق کو واقع مان رہے ہیں ، بس اختلاف عدد میں ہے۔ اس لیے متعلقہ استاد کو ایسی بیان بازی سے روکا جائے۔ مولانا محمد سلمان ندوی کے آبائی وطن منصور پور ( مظفرنگر) کے اہل علم نے بھی اُن کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جس میں تین طلاق والے حالیہ بل کی تائید کی گئی ہے۔ پریس کو جاری بیان میں حافظ عبد الوکیل نے کہا مرکز کی بی جے پی سرکار نے یہ صاف کردیا ہے کہ وہ تین طلاق کو پوری طرح بے اثر مانتی ہے ۔کوئی شخص ایک ہی وقت میں ۳ طلاق دے دیتا ہے تو اس طرح ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یہ سرکار کا واضح موقف ہے۔ سوئے اتفاق کہ ہمارے گاؤں کے مولانا سلمان حسنی ندوی نے حالیہ سرکاری بل کی حمایت کرکے ہمارا سر شرم سے جھکادیا ہے۔ اسی گاؤں کے قاری محمد عبد اللہ نے کہا حیرت ہے کہ مولانا جیسا زیرک انسان کس طرح عجلت میں بل کو بغیر پڑھے ہی تائید کربیٹھا اور ساتھ ہی یہ کیا کہ اس بل کی حمایت میں حضرت عمرؓ کے کوڑے مارنے کی مثال پیش کردی ۔ انھوں نے کہا ہمیں مولانا سے قطعی ایسی امید نہیں تھی۔منصور پور کے ہی مولانا عبد القادر کہتے ہیں کہ تین طلاق کے واقع ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے ، البتہ عدد میں اختلاف ہے کہ چاروں فقہ کے مشہور امام تین کو تین ہی مانتے ہیں اور اہل حدیث اس کو ایک مانتے ہیں ۔مولانا کو اس قدر جلد بازی میں بل کی حمایت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مولانا کہتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند اور ندوة العلماء لکھنؤ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے حالیہ میٹنگ میں بل کے مطالعہ کی بات کہی ہے۔ دریں اثنا نامور مؤرخ مولانا عبد الرحمان قاسمی نے کہا ہے کہ ۳ طلاق دیتے ہی وقوع میں تو کسی ایک مسلک کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ ایسی طلاقوں کو ایک مانا جائے یا تین۔ اس لحاظ سے مولانا سلمان ندوی کا یہ نظریہ جمہور علماءاور اجماع کے سراسر خلاف ہے ۔