گجرات الیکشن: مسکراہٹ کے پیچھے چھپے ہوئے مستقبل کا غم

معاذ مدثر قاسمی
مرکز المعارف،ممبئی
گجرات الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد گرچہ بی جے پی فتح کا شادیانہ بجارہی رہی ہو۔مگر بی جے پی کے اس جشن میں وہ خوشی وہ رونق وہ چمک نظر نہی آرہی ہے جو کسی خوشی کے موقع پر جھلکتی ہے، خود وزیر اعظم نتائج ظاہر ہونے کے بعد جب انتخابی کار کردگی پر اظہارِ خیال کر رہے تھے تب ان کے چہرے پر خوشی نہیں تھی غصہ تھا۔ اور یہ کیونکر نہ ہو؟
بی جے پی نے جس کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اسی کانگریس نے ہندوتوا کی فیکٹری میں بی جے پی کو ایسی دوبدو ٹکر دی کہ اسے چودہ طبق نظر آنے لگے۔
گرچہ کانگریس گجرات اپنے نام نہ کرپائی ہو اور کچھ ہی سیٹوں کے فرق سے حکومت سازی کا موقع نہ مل پایا ہو، مگر فی الحقیقت گجرات الیکشن ہار جانے کے بعد بھی یہ الیکشن کانگریس کے حق میں رہا۔ گجرات جسے بی جے پی اپنا گڑھ سمجھ رہی تھی، ہمیشہ بآسانی جیت جاتی تھی، اس مرتبہ اسے سر کرنے کیلئے کس طرح کی سر توڑ محنت کرنی پڑی وہ عیاں ہے۔ بی جے پی کے تمام وزرائے اعلی، کیبینیٹ وزراء کے ساتھ ساتھ خود وزیر اعظم کو اس میدان کی خاک چھاننی پڑی۔
پھر بھی ماحول سازگار نہ بن پایا تو وزیر اعظم مودی نے وزارت عظمی کے منصب کی دھجیاں اڑاتے ہوے وہ تمام حربے استعمال کیے جو اس منصب کے قطعی مناسب نہ تھا، کبھی پاکستان کی مداخلت کا الزام، کبھی سابق وزیر اعظم پر جھوٹا الزام لگا کر یکطرفہ ووٹ بٹورنے کی کوشش کی، مگر پھر بھی امید بر نہ آئی، بلکہ ہزیمت کی ڈگر پر پہنچ کر کچھ ہی سیٹوں سے کامیاب ہو پائی۔ جہاں پی جے پی نے ایک سو پچاس سیٹوں کے ساتھ جیت کا سنہرا خواب دیکھا تھا محض دو آنکڑوں پر سمٹ گئی جو یقیناً بی جے پی کیلئے زبردست نقصان سے کم نہیں ہے۔
کانگریس جو دو ہزار چودہ کے بعد سے پے در پے شکست کا سامنا کر رہی تھی جس سے یقیناً کانگریس مکت بھارت کا خدشہ ظاہر ہونے لگا تھا، اسی عزم کے ساتھ بی جے پی کا عروج ہوا رہا ، مگر خوش آئند بات یہ ہوئی کہ بی جے پی ہی کے قلعے میں کانگریس نے ایسی سیندھ لگائی کہ بی جے پی کی چولیں ہل گئیں۔ بی جے پی صدر اور وزیر اعظم دونوں اپنے علاقے کی سیٹیں بھی نہ بچا پائے، حتی کہ جہاں وزیر اعظم مودی نے پاکستان کی مداخلت حربہ استعمال کیا اس جگہ کی بھی سیٹ گنواں بیٹھے۔
اگر حقیقت پر نظر ڈالی جا ئے تو کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گجرات تقریباً بی جے پی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بی جے پی کی جیت میں در اصل چار بڑے شہروں سورت، بروڈہ، احمدآباد اور راجکورٹ کا دخل رہا ہے جہاں مجموعی پچپن سیٹوں میں سے چھیا لیس سیٹیں بی جے پی جھو لی میں آئیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ غیر شہری آبادی کا اکثری طبقہ کانگریس کے حق میں ہو گیا ہے۔
کانگریس کو حکومت سازی کا موقع نہ مل پانا بھی مستقبل کیلئے امید کرن روشن کی ہے۔ کیونکہ اگر اسے حکومت سازی کا موقع ملتا تو یقیناً تینوں نوجوان سب سے پہلے آرکشن کے تعلق سے اپنے مطالبات پیش کرتے جس کے دینے کا کانگریس نے وعدہ کر رکھا تھا، اور قانونی اعتبار سے یہ ناممکن ہے، جس کا لازمی اثر یہ ہوتا کہ یہ نوجوان کانگریس کے خلاف اپنا مورچہ کھول دیتے جس کا خمیازہ کانگریس کو آنے والے انتخابات خاص طور پر دو ہزار انیس کے عام انتخابات میں اٹھانا پڑتا۔
بی جے پی کو تھوڑی سی سیٹوں کے اضافے کے ساتھ موقع مل جانا درد سر سے کم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی فتح کے بعد بھی شکست کیفیت محسوس کر رہی ہے، ان کے لبوں پر مسکرا ہٹ ہے مگر تلخی کے ساتھ
کانگریس ہار کے بعد بھی پر ولولہ نظر آنی چاہیے، اس کی پیشانی پر چمک کے آثار ظاہر ہونی چاہیے کیونکہ اس نے تین نوجوان لیڈروں کو ایک ساتھ لا کر آئندہ کی راہ ہموار کر لی ہے جس سے دور رس نتائج ظاہر ہونے کی قوی امید ہے۔
اگر اسی طرح صحیح حکمت عملی کے ساتھ کانگریس اگلا قدم اٹھاتی ہے تو آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو چارو شانے چت کیا جا سکتا ہے۔