ذاکر اعظمی ندوی
پچهلے دنوں دوارن سفر ہمارى ملاقات ايک ايسے سياه فام امريکى نواجواں سے ہوئى جو امارات کے ايک بينک ميں ملازمت کرتا ہے، دوران گفتگو اندازہ لگا کہ يہ نوجواں بہت زيادہ پڑها لکها نہيں ہے ليکن کام کى حد تک پروفيشنل ہے اور اچهى سوجهـ بوجهـ كا مالک ہے. يہ ايک بديہى بات ہے کہ جب آپ کسى سياه فام امريکى کے ساتهـ محو كلام ہونگے تو ضرور بالضرور نسلى عصبيت (Discrimination) زير بحث آئے گى. دوران گفتگو مذکورہ شخص نے بڑى جرأت کے ساتهـ اس حقيقت کا اعتراف کيا کہ امريکہ ميں بسنے والے سياه فام باشندے جن سماجى واقتصادى محروميوں کا شکار ہيں اسکى مکمل ذمہ دارى گورے امريکى باشندوں پر نہيں ڈالى جاسکتى. يہ ايک ايسا اہم نقطہ ہے جس کو سمجهنے سے اکثريت قاصر ہے. اقليت اور اکثريت کے مابين تصادم ايک ازلى حقيقت ہے، اسکى شکلين اور (Dimensions) بدلتے رہتے ہيں مگر يہ تصادم ہميشہ رہاہے اور رہے گا. اگر ايک طرف ان محروميوں کا ذمہ دار جزئى طور پر اکثريتى طبقہ ہے تو دوسرى طرف ان نسلى تصادم کے فروغ کى ذمہ دارى اقليت مخالف قواںين پر بهى برابر كى عائد ہوتى ہے، جبكہ ان تمام ناکاميوں کا اصلى ذمہ دار خود اقليتى طبقہ ہے، اس ضمن ميں حکمت سے بهر پور عربى کا يہ شعر برمحل ياد آگيا: العلم يرفع بيتا لا عماد لہ والجہل يہدم بيت العز والشرف (علم بغير عمود کے گهر تعمير کرليتا ہے جبکہ جہالت عزت ووجاہت کے فلک بوس ايواںوں کو نيست وںابود کرديتى ہے) عصر حاضر ميں اور کسى حدت قديم زمانے ميں انسانى آباديوں ميں صاحب علم خواہ کسى بهى طبقے سے تعلق رکهتا ہو خاص عزت مرتبہ کا لائق تصور کيا جاتا تها، اگر ہم اسلامى تمدن کى تاريخ پر ايک طائرانہ نظر ڈاليں تو ہم پر يہ حقيقت آشکارا ہوتى ہے کہ وہ علماء وفقہاء جو امراء وسلاطين کے درباروں ميں خاص مقام رکهتے تهے انکى اکثريت کا تعلق عام طبقے سے ہوتا تها اور ان ميں سے بعض تو غلاموں کى نسل سے تهے. اس ميں شک نہيں کى اقليتى طبقے سے آنے والا انسان عزت وشرف اور بلند مرتبہ حاصل کرنے کے لئے بهر پور جد وجہد کرتا ہے اور بالآخر اسکى مراديں برآتى ہيں. اگر ہم امريکہ ميں پائے جانے والے سياه فام افراد کا موازنہ يہوديوں سے کريں تو اس نتيجہ پر پہوںچتے ہيں کہ دوںوں کا ماضى ايک دوسرے سے چندان مختلف نہ تها، مگر آخر الذكر نے اپنى مظلوميت کا ڈهنڈهورا پيٹنے اور احساس محرومى کے حصار ميں قيد رہنے کے بجائے علم ومعرفت کو اپنا ہتهيار بنايا اور اپنى محنت ولگن كے بل بوتے پر امريکى سوسائٹى ميں اہم مقام حاصل کيا. نا انصافى اور پساماندکى اگر ايک طرف سبب محرومى ہوسکتى ہے تو دوسرى طرف کچهـ کر گذرنے کے جذبہ کو مہميز بهى لگاتى ہے. انسانى رشتوں کا بنيادى اصول مصلحت ہے جب کہ تجارتى تعلقات اور تعليم زندگى کے وہ اصول ومبادى سكهاتى ہے جو ہميشہ (Status) کى تبديلى ميں معاوں ثابت ہوئے ہيں. وہ کام جن کى تکميل کا انحصار انفرادى جد وجہد پر ہوتا ہےاس ميں فرقہ واريت، اقليت اور نسل پرستى کا احساس بہت کم پايا جاتا ہے. جب انسان کو کسى حاذق طبيب يا ماہر تجارتى پارٹنر يا قابل اعتماد انجينير کى ضرورت ہوتى ہے تو وہ انکى اصل ونسل کے بارے ميں دريافت نہيں کرتا، بلکہ انکى مہارات اور انکے کارناموں کے بارے ميں جاننا چاہتا ہے. دنيا کى وہ اقليتيں جو شکايت درشکايت کو شيوہ بناکر اپنى مظلوميت کا روںا روتى رہتى ہيں وہ روز بروز پستى کے دلدل ميں مزيد دهستى چلى جاتى ہيں، نتيجہ ميں ان پر نسل پرستى اور فرقہ پرستى کا دباؤ مزيد بڑهتا چلا جاتا ہے، پهر بالآخر فرقہ وارانہ تصادم اور نسلى چپقلش انکا مقدر ٹهہرتا ہے. فرقہ وارنہ تصادم کى تاريخ پر اگر ہم ايک نظر ڈالتے ہيں تو يہ بات واضح طور پر ابهر کرسامنے آتى ہے كہ اقليتى طبقہ کے مذہبى رہنما ہميشہ سے اپنے ذاتى مفادات کے حصول کے لئے عوام كى پساماندگى كو ڈهال بنايا ہے، اور يہى وہ طبقہ ہے جو مذہبى منافرت کى ترويج كا اصل مجرم رہا رہے. يہى وہ مذہبى طبقہ ہے جو اقليتوں کو اپنے جوش خطاب کے ذريعہ اکثريتى طبقہ کے شانہ بشانہ ترقى کى راہ بر کامزن ہوںے کے بجائے “احساس اقليت” يا “نسلى عصبيت” کى ياد دلاکر محروميوں اور نا انصافيوں کى عميق دلدل ميں ڈهکيلتا رہتا ہے. کيا يہ حقيقت نہيں معاشى وسماجى طور بر پسماندہ اقليتوں کے مذہبى رہنما اکثريتى طبقہ ميں فقيد المثال عزت وجاہ سے ہميشہ لطف اندوز ہوتے رہے ہيں؟ اقليتوں کا “احساس محرومى” صرف سياسى جد وجہد يا قانوں سازى کا مطالبہ کرکے ہر گز دور نہيں کىا جاسکتا، بلکہ اکثريتى طبقہ کے ساتهـ مل جل کر ملک وقوم کى ترقى ميں بڑہ چڑہ کر حصہ ليکر اپنے آپ کو ملک وملت پر بوجهـ گرداننے کے بجائے بحيثيت (Contributor) پيش کرکے بہتر مستقبل کى تعمير ممکن ہے. ايک دور انديش مفکر اپنى قوم کى پساماندگى کو دور کرنے کے لئے سياسى مظاہرات، نسلى تصادم، فرقہ وارنہ (Conflict) کى راہ اختيار كرنے کے بجائے قوم كو علم ومعرفت کے سرجشموں سے روشناس کراتا ہے. ہم ہرگز ماضى کو تبديل نہيں کرسکتے ليکن بہتر مستقبل کى تعمير ہمارے اختيار ميں ہے.(ملت ٹائمز)