گجرات الیکشن کے بعد ہماری ذمہ داریاں

چاہت محمد قاسمی

گجرات الیکشن ایک مرتبہ پھر بی جے پی جیت گئی ہے، اور ہماچل الیکشن میں بی جے پی نے حسب توقع کانگریس کو شکست دے کر جیت درج کرائی ہے، مسلمانوں نے نہ کچھ جیتا ہے اور نہ کچھ ہارا ہے، ہاں مسلمانوں میں ٹیم ورک اور اتحاد کافی حد تک بہتر نظر آیا ہے، جس کی تعریف کرنی چاہیے اور اس میں مزید سدھار کی کوشش بھی کرنی چاہیے، یہ سوال بہت اہم ہے کہ بی جے پی جیت کر مسلمانوں سے کیا چھینے گی؟ اور کانگریس جیت جاتی تو مسلمانوں کو کیا دے دیتی؟ ہاں اتنا ضرور ہوتا کہ پٹیلوں کو مل جاتا آرکشن اور مسلمانوں کے ہاتھ لولی پوپ کے سوا کچھ بھی نہ آتا، پٹیل برادری کے مضبوط ہونے سے مسلمانوں کو مستقبل میں بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی اور اب بی جے پی کے جیت نے سے جہاں پٹیل بی جے پی کو پریشان کریں گے وہیں بی جے پی پٹیلوں کو حد میں رکھنے کے لیے شکنجہ کسے گی، ہاردک پٹیل کو میں نے سنا بھی ہے اور اسکا انٹرویو بھی دیکھا ہے، جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ ایک ایسا نوجوان ہے، جس کو اگر کبھی موقع ملا تو وہ مسلمانوں کے لیے درد سر ضرور بن جائے گا، اس کے متعلق اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس کے خیالات و نظریات مل جل کر رہنے والے نہیں ہیں۔
ہاں بی جے پی کے جیت جانے سے اتنا ضرور ہوتا ہے کہ مسلمان ذہنی دباؤ، دماغی انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ بھی چل ہی رہا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس میں سے کچھ ہمارے سامنے ہے، کچھ رازداری کے ساتھ کیا جارہا ہے اور کچھ کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے لیکن اس میں ہمیں دوسروں پر الزام سے زیادہ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آخر آزادی سے لیکر اب تک ہم نے اپنے بچاؤ کے لیے کیا کیا؟ ہم نے کونسے ایسے قلعے تعمیر کیے ہیں جن میں بیٹھ کر ہم اپنا دفاع کر سکیں؟ ہم نے اپنے بچاؤ کے لیے آخر ایسی چھاونیاں کیوں نہیں بنائی جہاں دشمنوں کی یلغار سے ہم محفوظ رہ سکیں؟ آخر ہم نے اپنے اور اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے کیا سوچا ہے؟ اس بات کا جواب کچھ لوگ اہل مدارس سے مانگ رہے ہیں اور کچھ لوگ اس کا ذمہ دار صرف علما کو ٹہرا رہے ہیں لیکن در حقیقت ہر طبقہ کا ہر شخص اس کا ذمہ دار ہے، مسلم سیاست دانوں میں بہت سے خاندانی سیاست داں ہیں جنہوں نے آزادی سے لیکر آج تک مسلمانوں کے ووٹ بٹور کر اپنا الو سیدھا کیا ہے، نئے پرانے سبھی سیاست دانوں سے پوچھا جائے کہ انہوں نے سیاسی میدان سے مسلمانوں کے لیے کیا کیا کارنامے انجام دئے ہیں ہیں؟ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی کٹہرہ ميں ہے کہ آخر ان کا کارنامہ کیا ہے، علما، صحافی، خطیب، مصنف، ادیب اور شاعر سبھی سوالات کے نرغے میں ہیں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو ہوا اور ہورہا ہے یہ امید اور توقع کے خلاف نہیں ہوا ہے، جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے اس کا سبھی کو اندازہ تھا، گزرے ہوئے دانا اور سمجھدار لوگوں کی تقاریر اور مضامین سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ آئندہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل روشن نہیں ہے اور نہ آزاد بھارت میں مسلمانوں کے لیے زندگی گذارنا آسان ہوگا، لیکن کسی نے بھی مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی خاص اقدام نہیں کیا ہے، کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہے اور ابھی بھی مسلمانوں کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے، کوئی پلاننگ نہیں ہے، کوئی بھی طریقہ کار نظر نہیں آتا ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ اس پر چل کر مسلمان کامیاب ہوسکتے ہیں، اگر کچھ لوگ انقلاب پیدا کرنے کے لیے آگے آتے ہیں تو وہ اس انداز سے ہُلّم گلّہ مچاتے ہیں کہ پوری قوم کو ہُرلا جاتے ہیں، سبھی کو ہوپلیس کر دیتے ہیں۔
خاص طور سے عملی میدان میں کچھ کر گذرنے کا ارادہ رکھنے والے انقلاب پسند نوجوان طبقے کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کام کسی کو بُرا کہنے سے نہیں کیا جاتا ہے، اور نہ ہی ایک دم پوری قوم کو بدلا جاسکتا ہے، بلکہ آپ کو عملی میدان میں آکر بہت محنت کرنی پڑے گی اور بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی یہ ایک دو دن یا سال دو سال کا کام نہیں بلکہ اس انقلابی کام کے لیے بہت سی مرتبہ زندگیاں بھی تھوڑی پڑ جایا کرتی ہیں، اس انقلاب کے لیے نسلوں کو کام کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر انقلاب نظر آتا ہے۔
شور شرابا، پبلسٹی، جلسوں اور اجتماعات میں مجمع جمع کرنے والے لوگوں کو بھی اب خاموش رہ کر زمینی سطح پر پلاننگ سے بہت کچھ کرنا چاہیے، اور سمجھنا چاہیے کہ حکومت پر ہمارے جلسے جلوس، اجتماعات، احتجاجات اور ریلیوں کے کچھ اثر نہیں ہوتا ہے، ہمارا یہ سوچنا کہ ان ہنگاموں سے غیروں پر رعب اور دبدبہ قائم رہتا ہے،. سراسر غلط ہے، بلکہ آپ کا ایک خاموش احتجاج اور امن پسند جلسہ دوسروں کو ہنگامی کارروائی پر ابھارتا اور اکساتا ہے، یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ ہم خاموش اور امن پسند احتجاجات پر مجبور ہیں اور انہیں اپنے جلسے جلوس اور احتجاجات میں سب کچھ کرنے کی کھلی چھوٹ اور آزادی مل جاتی ہے، اس لیے اب شور شرابا، پبلسٹی، جلسوں اور اجتماعات کو چھوڑ کر عملی میدان میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور سب کچھ اس طرح ہونا چاہیے کہ دائیں ہاتھ سے کریں اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو، ٹیوی چینل، اخبارات، میڈیا سوشل میڈیا، وکیلوں کی ٹیم، عدالتوں میں کیس کرنے والے افراد، کالجوں یونیورسٹیوں میں انقلاب پیدا کرنے والے انسان ، انصاف پسند پولیس آفسر اور طاقتور سیاست داں اگرچہ ہمارے نہ ہوں لیکن ہم ان کے پیچھے کھڑے ہوں، اور یہ سپورٹ صرف ایک راز ہی ہو، حال یہ ہو کہ ہم پوشیدہ مخفی طاقت بن جائیں۔
ان شاء اللہ تعالی پھر امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل اس ہندوستان میں روشن ہوجائے گا، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے نفس پر اور پبلسٹی کی خواہش پر بہت کنٹرول کرنا پڑے گا اور یہ ہمارے لیے آسان نہیں ہوگا، لیکن کوشش کرکے دیکھیے ایک بار یہ انقلابی کیفیت پیدا ہوجائے تو پھر آنے والی نسلیں اسی انقلابی نہج پر کام کریں گی آور آپ کا کردار تاریخ میں ایک سنہرا باب بن جائے گا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں