شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(۵) پیغمبروں کا تعلق براہ راست اس کے خالق و مالک سے ہوتا ہے ، اس پر اللہ کا کلام اُترتا ہے ، اور واضح طورپر منشاءربانی کا اظہار ہوتا ہے ؛ چنانچہ بعض دفعہ منجانب اللہ اطلاع کی بنیاد پر وہ پیشین گوئی کرتا ہے ، یہ پیشین گوئی جیوتشیوں اور نجومیوں کی سی نہیں ہوتی ، جو اندازے اور تخمین پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں ؛ بلکہ انبیاءجو پیشین گوئی کرتے ہیں ، اس کا سرچشمہ خدائے علام الغیوب کی اطلاع ہوتی ہے ، اس لئے یہ بالکل یقینی اور سچی پیشین گوئی ہوتی ہیں اور دوپہر کی دھوپ کی طرح واضح طور پر انسان ان کو سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ۔
مرزا صاحب نے بہت سی پیشین گوئیاں کی ہیں ، جو عام طورپر وہ پوری نہیں ہوپائیں اور ان کے ماننے والوں نے اس کی ایسی توجیہ وتاویل کی ، جن کو ایک عام سمجھ کا آدمی بھی قبول نہیں کرسکتا ؛ لیکن اس وقت چند ایسی پیشین گوئیوں کا ذکر کیا جائے گا ، جو بالکل واضح اور متعین ہیں اور جن میں بعض کو انھوںنے اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار بنایا ہے ۔
٭ مرزا صاحب کے ایک عزیز احمد بیگ ہوشیار پوری تھے ، مرزا صاحب نے ۸۸۸۱ءمیں جب ان کی عمر پچاس سال تھی ، ان کی لڑکی محمدی بیگم سے نکاح کا پیغام دیا ، مرزا احمد بیگ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے ، مرزا صاحب اس پر سخت ناراض ہوئے ، ان کا کہنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور انھوںنے اس پیشین گوئی کے ظاہر ہونے کو اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار قرار دیتے ہوئے کئی اشتہارات جاری کرائے؛ چنانچہ ۰۱ جولائی ۸۸۹۱ءکو اپنی الہامی پیشین گوئی کے اشتہار میں انھوںنے دعویٰ کیا کہ اگر لڑکی والوں نے اس رشتہ کو منظور نہیں کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا ، دوسرے : جس شخص سے اس کی شادی کی جارہی ہے ، وہ شادی سے ڈھائی سال کے اندر مرجائے گا ، تیسرے : لڑکی کے والد کا اس کے نکاح سے تین سال میں انتقال ہوجائے گا ، یعنی باپ اپنی بیٹی کی بیوگی کو دیکھ کر دنیا سے جائے گا ، چوتھے : ہر رکاوٹ دور ہوکر وہ لڑکی ضرور ہی مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی ، اس اشتہار کے اخیر میں مرزا صاحب نے یہ بھی لکھا ہے :
یہ خیال لوگوں کو واضح ہوکہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئیوں سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا ۔ (مجموعہ اشتہارات : ۱۷۵۱-۹۵۱)
لیکن ہوا یہ کہ مرزا احمد بیگ نے ۷ اپریل ۲۹۸۱ءکو اپنی صاحب زادی کا نکاح اپنے ایک اور عزیز سلطان محمد سے کردیا ، مرزا صاحب کی پیشین گوئی کے لحاظ سے ۶ ستمبر ۴۹۸۱ءتک سلطان محمد کا انتقال ہوجانا چاہئے تھا اور محمدی بیگم کو بیوہ ہوجانا چاہئے تھا ؛ لیکن سلطان محمد کا نہ صرف ڈھائی سال میں انتقال نہیں ہوا ؛ بلکہ وہ شادی کے بعد ۷۵ سال زندہ رہے اور ان کا انتقال ۹۴۹۱ءمیں ہوا ، اگرچہ مرزا احمد بیگ کا انتقال عمر طبعی کو پہنچ کر تین سال کے اندر ہوگیا ؛ لیکن ان کو اپنی بیٹی کی بیوگی دیکھنے کی نوبت نہیں آئی ؛ بلکہ وہ اپنی بیٹی اور داماد کو خوش و خرم چھوڑ گئے ، ایسا بھی نہیں ہوا کہ محمدی بیگم کا انجام برا ہو ؛ بلکہ انھوںنے ۰۹ سال کی عمر پائی ، ۶۶۹۱ءمیں ان کی وفات ہوئی اور ۷۵ سال اپنے شوہر کے ساتھ خوش گوار زندگی بسر کی ، مرزا صاحب نے صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اپنی پیشین گوئی میں یہ اضافہ کردیا کہ ” محمدی بیگم کنواری ہونے کی حالت میں یا بیوہ ہوکر ضرور ان کے نکاح میں آئیں گی “ مگر یہ پیشین گوئی بھی پوری نہیں ہوئی اور ۶۲ مئی ۸۰۹۱ءکو خود مرزا صاحب کا انتقال ہوگیا ، یہ نہ صرف مرزا صاحب کی پیشین گوئی تھی ؛ بلکہ انھوںنے اس کو اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار بنایا تھا ، یہاں تک کہ محمدی بیگم سے نکاح کے پہلے اشتہار (۰۱ جولائی ۸۸۸۱ء) کی پیشانی پر یہ اشعار تحریر کئے تھے :
پیشین گوئی کا جب انجام ہویدا ہوگا
قدرتِ حق کا عجب ایک تماشا ہوگا
سچ اور جھوٹ میں ہے فرق وہ پیدا ہوگا
کوئی پاجائے گا عزت اور کوئی رسوا ہوگا
( مجموعہ اشتہارات : ۱۳۵۱)
٭ ۳۹۸۱ءمیں امرت سر میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم امرت سری سے — عیسائی تھا — توحید و تثلیث کے عقیدہ پر مرزا صاحب کا مناظرہ ہوا ، مرزا صاحب مناظرہ سے تو فریق مخالف کو قائل نہیں کرسکے ؛ لیکن آخری دن ۵ جون ۳۹۸۱ءکو پیشین گوئی کردی کہ اگر پندرہ مہینے کے اندر عبد اللہ آتھم نے تو بہ نہیں کی اور اسلام قبول نہیں کیا تو وہ ہاویہ میں گرادیا جائے گا ، یعنی مرکر واصل جہنم ہوجائے گا ، اس پیشین گوئی کو بھی مرزا صاحب نے اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار قرار دیا ، یہاں تک کہ مرزا صاحب نے لکھا :
میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلے ، یعنی جو فریق خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ ۵۱ ماہ کے عرصے میں آ ج کی تاریخ سے بہ سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں ، مجھ کو ذلیل کیا جائے ، رو سیاہ کیا جائے ، میرے گلے میں رسا ڈال دیا جائے ، مجھ کو پھانسی دیا جاوے ، ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ، ضرور کرے گا ، ضرور کرے گا ، زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہیں ٹلیں گی ، اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو ۔ ( جنگ مقدس : ۹۸۱)
آخر آتھم نے عیسائیت سے توبہ نہیں کی ، اس لحاظ سے ۵ ستمبر ۴۹۸۱ءکو آتھم کو مرجانا چاہئے تھا ؛ چنانچہ مرزا صاحب کے ایک مرید ماسٹر قادر بخش قادیانی کا بیان ہے کہ ۵۱ ستمبر کو مرزا صاحب قادیان میں تھے اور کہتے تھے :
آج سورج غروب نہیں ہوگا کہ آتھم مرجائے گا ، مگر جب سورج غروب ہوگیا تو لوگوں کے دل ڈولنے لگے ۔ ( قادیانی مذہب : محمد الیاس برنی ، ضمیمہ : ۳ ، ص : ۲۷۵)
غرض کہ مرزا صاحب کی یہ پیشین گوئی بھی پوری نہیں ہوئی اور عیسائیوں نے اس دن آتھم کا زبردست جلوس نکالا ۔
٭ مولانا ثناءاللہ امرتسری اہل حدیث مکتب ِفکر کے بڑے علماءمیں سے تھے ، انھوںنے قادیانیت کا بہت مو ¿ثر تعاقب کیا اور اس فتنے کی سنگینی سے لوگوں کو واقف کرایا ؛ چنانچہ مرزا صاحب نے مولانا امرتسری کے خلاف ۵۱ اپریل ۷۰۹۱ءکو اشتہار چھپواکر تقسیم کرایا کہ وہ مرزا صاحب کی زندگی میں طاعون ، ہیضہ وغیرہ بیماری میں مبتلا ہوکر مرجائیں گے ، ( تبلیغ رسالت ، جلد دہم ، پہلا ایڈیشن ، مجموعہ اشتہار : ۰۲۱ ) پھر مرزا صاحب نے ” مولوی ثناءاللہ صاحب سے آخری فیصلہ “ کے زیر عنوان اشتہار شائع کیا اور اس میں اس طرح اللہ سے دُعاءکی :
اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں تو اے میرے پیارے مالک ! میں عاجزی سے تیری جناب میں دُعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناءاللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر ۔ آمین
اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد قادیانیوں کے اخبار بدر (۵۲ اپریل ۱۹۰۷ء) میں مرزا صاحب کی ڈائری شائع ہوئی جس میں لکھا گیا :
ثناءاللہ کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری ( یعنی مرزا صاحب کی ) طرف سے نہیں ؛ بلکہ خدا کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔
لیکن ہوا یہ کہ مرزا صاحب کا تو ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء میں انتقال ہوگیا ؛ لیکن مولانا ثناءاللہ صاحب اس کے بعد بھی عرصہ تک زندہ رہے اور اللہ نے ان سے دین کی بہت ساری خدمتیں لیں ۔
اس کے علاوہ بھی مرزا صاحب کی بہت ساری پیشین گوئیاں ہیں ، جو انھوںنے اپنی عمر ، اپنی اولاد ، کنواری اور بیوہ بیویوں ، اپنے متعلقین کی صحت اور اپنے مخالفین کی موت وغیرہ کے سلسلے میں کی ہیں ، جو غلط نکلیں ؛ لیکن ابھی جن پیشین گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، یہ ان پیشین گوئیوں میں سے ہے ، جن کو خود مرزا صاحب نے اپنے لئے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار بنایا تھا ، جو لوگ مرزا صاحب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو نبی مانتے ہیں کتنی ناانصافی کی بات ہوگی کہ وہ خود مرزا صاحب کے اس معیار پر توجہ نہ دیں اور مرزا صاحب کے سچے ہونے پر اصرار کرے !
(۶) کچھ درجات وہ ہیں جن کو کسب اور محنت کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے ، کوئی بھی مسلمان عبادت اور زہد و تقویٰ کے ذریعہ اولیاء اُمت میں شامل ہوسکتا ہے ، علمی جدوجہد کے ذریعہ مفسر و محدث اور فقیہ بن سکتا ہے ، ان میدانوں میں آہستہ آہستہ ترقی ملتی ہے ؛ لیکن نبوت ایک وہبی چیز ہے جو منجانب اللہ عطا کی جاتی ہے ، نبی کو نبی بنائے جانے تک اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی ، رسول اللہؐ پر نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا ؛ لیکن جب نبوت کا سلسلہ جاری تھا ، جب بھی ایسا نہیں تھا کہ علمی اور عملی ریاضتوں کے ذریعے آدمی نبوت کا مقام حاصل کرلے ، قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے کہ وہ ایک سرد رات میں اپنی زوجہ مطہرہ کے ساتھ سفر پر تھے اور انھیں آگ کی ضرورت پڑی ، دُور سے ایک روشنی نظر آئی تو وہ یہ سوچ کر قریب پہنچے کہ وہاں آگ بھی مل جائے گی اور شاید کوئی ہم نفس بھی مل جائے ؛ لیکن جب وہاں پہنچے تو ایک درخت میں سے روشنی پھوٹ رہی تھی ، وہیں ان پر پہلی بار اللہ کا کلام اُترا اور نبوت سے سرفراز کئے گئے ، ( طٰہٰ : ۹-۴۱) انھوں نے اس سے پہلے اشارہ و کنایہ میں بھی نہ نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ کسی اور غیبی منصب کا ، پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ اکی نبوت کا واقعہ تفصیل سے حدیث میں موجود ہے ، نبی بنائے جانے سے پہلے بھی آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ، جس میں اشارہ ہو کہ آپ اس منصب پر فائز ہونے والے ہیں ، اچانک غارِ حرا میں آپ اپر پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپؐ گھبرائے ہوئے گھر واپس تشریف لائے ؛ کیوںکہ نبوت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر ملا کرتی تھی ، جب تک کوئی شخص نبی نہیں بنایا جاتا تو خود اس کو بھی اس کا کوئی گمان نہیں ہوتا تھا کہ اس کو نبوت ملنے والی ہے ۔
لیکن مرزا صاحب نے آہستہ آہستہ مرحلہ وار دعوے کئے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک دعوے کے لئے زمین ہموار ہوگئی تو اس سے آگے کا دعویٰ کردیا ، ایک زمانہ وہ تھا کہ مرزا صاحب اسی عقیدے کا اظہار کرتے تھے ، جو تمام مسلمانوں کا ہے ؛ چنانچہ ۳ اکتوبر ۱۹۸۱ءکو انھوںنے ایک اشتہار طبع کرایا ، جس میں صاف صاف لکھا :
میں ان تمام اُمور کا قائل ہوں ، جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیساکہ سنت جماعت کا عقیدہ ہے ، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن و حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیؐ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب و کافر مانتا ہوں ، میرا یقین ہے کہ وحی ، رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفیؐ پر ختم ہوگئی ۔ ( مجموعہ اشتہارات ، تبلیغ رسالت :۲ ۰۲-۱۲ ، پہلا ایڈیشن ۸۱۹۱ئ)
اس زمانے میں مرزا صاحب کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسی گول مول باتیں کیا کرتے تھے ، جس سے لوگوں میں چہ مہ گوئی ہونے لگے ، کہ یہ نبوت کا دعویٰ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں ، اوپر اشتہار کا جو اقتباس نقل کیا گیا ہے ، اس کا مقصد اس سلسلہ میں اپنی صفائی پیش کرنا تھا ، آخر وہ اپنے اندرونی داعیہ کو چھپا نہیں سکے اور شعبان ۴۱۳۱ھ میں اشتہار چھپواکر تقسیم کیا کہ وہ خود مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں اور اپنے بارے میں کہا ” صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے “ ( تبلیغ رسالت : ۶۲-۳ ، ایڈیشن : ۲۲۹۱ئ) حالاں کہ ولایت اور مجددیت کوئی ایسا منصب نہیں ، جس کا دعویٰ کیا جائے ، ولی اور مجدد کو خود اپنے بارے میں خبر نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کا ولی اور مجدد ہے ، اُمت میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ سے بڑا ولی اور مجدد کون ہوگا ؟ جنھوں نے ختم نبوت کے انکار کے فتنے کا مقابلہ کیا اور روم اور ایران تک اسلام کی فتح مندی کا جھنڈا لہرایا ؛ لیکن یہ قدسی صفت حضرات دعویٰ تو کیا کرتے ، ان پر خشیت کا ایسا غلبہ تھا کہ ان کو اپنے آپ پر نفاق کا ڈر ہوتا رہتا تھا ، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔
اب مرزا صاحب نے ایک نیا عہدہ مُحدَّث کا پیدا کیا اور کہا کہ انھیں محدث بنایا گیا ہے ؛ چنانچہ لکھتے ہیں :
نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے ، جو خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے ، اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہو ۔ ( سلسلہ تصنیفات احمدیہ جلد سوم ، ازالہ اوہام حصہ اول ، ص : ۵۶۰۱)
اس کے بعد مرزا صاحب نے مثیل مسیح یعنی اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہ قرار دینا شروع کیا :
یہ بات سچ ہے کہ اللہ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا …. میں اسی الہام کی بناپر اپنے تئیں وہ مدعو مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں ۔ ( تبلیغ رسالت : ۱۲۶۱)
ابھی تک مرزا صاحب نہ صرف نبوت بلکہ مسیح ہونے کے دعوے سے بھی گریز کرتے رہے ؛ لیکن آخر مرزا صاحب نے کھل کر دعویٰ کردیا کہ میں مسیح موعود ہوں ، ( دیکھئے : تحفہ گولڑویہ : ۵۹۱ ، تیسرا ایڈیشن ) اور یہ بھی صاف کردیا کہ جس عیسیٰ بن مریم کی پیشین گوئی کی گئی ہے ، اس سے میں ہی مراد ہوں :
اور یہی عیسیٰ ہے جس کا انتظار تھا اور الہامی عبارتوں میں مریم اور عیسیٰ سے میں ہی مراد ہوں ، میری نسبت کہا گیا ہے کہ ہم اس کو نشان بنادیں گے اور نیز کہا گیا کہ یہ وہی عیسیٰ بن مریم ہیں جو آنے والا تھا ۔ ( کشتی نوح ساتواں ایڈیشن ، ص : ۸۴ ، دسمبر ۳۳۹۱ئ)
لیکن ابھی تک مرزا صاحب کو اس بات کا اقرار تھا کہ مسیح کے لئے نبی ہونے کی شرط نہیں ، ( سلسلہ تصنیفات ، جلد سوم ، حصہ توضیع المرام : ۴۶۸ ) یعنی اب تک وہ اس سے انکار کرتے تھے کہ انھوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ؛ لیکن ۰۰۹۱ءمیں مرزا صاحب کی مسجد کے خطیب مولوی عبد الکریم نے ان کے لئے نبی اور رسول کا لفظ ذکر کیا ، یہ بات بعض دوسرے ساتھیوں کو ناگوار گزری ؛ چنانچہ اگلے جمعہ دوبارہ مولوی صاحب نے مرزا صاحب کے لئے یہی الفاظ استعمال کئے ، مولوی عبد الکریم نے پیچھے سے مرزا صاحب کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا : اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہے تو آپ درست فرمادیجئے ؛ لیکن مرزا صاحب نے ان کی تصویب کرتے ہوئے کہا : ” ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا ہے “ (قادیانیت — تحلیل و تجربہ : ۶۷ ، بحوالہ اخبار الفضل قادیان ) چنانچہ اس کے بعد مرزا صاحب باضابطہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگے ، شروع میں تو انھوں نے کہا کہ پیغمبرِ اسلامؐ پر نبوت کے ختم ہونے سے مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں آئے گا ، پھر دعویٰ کیا کہ شریعت سے مراد امر و نہی ہے اور میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی ، ( اربعین : ۴۷) گویا اپنے آپ کو صاحب شریعت نبی قرار دیا ، اسی طرح پہلے تو کہتے رہے کہ پیغمبر اسلام کی برکت سے آپ کی اُمت میں اور بھی مسیح آسکتے ہیں ؛ لیکن بعد میں کہنے لگے :
نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ۔ ( حقیقت الوحی : ۱۹۱ ، دوسرا ایڈیشن : ۳۲۹۱ءامرتسر )
یہ گویا مرزا صاحب کی طرف سے اس بات کا اعلان ہے کہ محمد رسول اللہ ا آخری نبی نہیں ہیں ،میں آخری نبی ہوں ۔ قادیانی حضرات غور کریں کہ کیا کوئی سچا آدمی اس طرح لوگوں کے دلوں کو ٹٹول ٹٹول کر اور ماحول بنا بناکر متضاد دعوے اور دوراز کار تاویلیں کرکے نبوت جیسے منصب کے لائق ہوسکتا ہے ، ان مرحلہ وار دعووں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ماننے والوں کی آمادگی بڑھتی گئی اور میدان ہموار ہوتا گیا ، مرزا صاحب نئے نئے دعوے کرتے چلے گئے ، یہ تدریج خود اس دعوے کے جھوٹ ہونے کی علامت ہے ۔
اخیر میں قادیانی حضرات سے ایک انسانی بھائی ، ایک خیر خواہ ، ان کی نجات کے لئے فکر مند اور ان کی ہدایت کی طرف واپسی کے جذبے سے سرشار شخص کی حیثیت سے التجا کرتا ہوں کہ خدارا اپنی آنکھوں سے اس سیاہ عینک کو ہٹادیجئے ، جو آپ کو دھوکا دینے کے لئے آپ کے رہنماؤں نے پہنائی ہے ، آخرت کی فکر کیجئے ، دنیا کی متاع حقیر کو خاطر میں نہ لایئے ، سچائی تک پہنچنے کی کوشش کیجئے اور نبوت محمدی اکے شجرۂ طوبیٰ کے سایہ میں واپس آجائیے ، جس کی ٹھنڈک لازوال اور جس کی راحت لافانی ہے ، اور جو اس دنیا سے لے کر میدانِ حشر تک مؤمن کو اپنی پناہ میں لئے رہے گی ، جس کے طفیل ہر صاحب ِایمان کو جامِ کوثر سے نوازا جائے گا اور جس کی شفاعت ، آخرت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے !
اللّٰھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
٭٭٭