محمد اسلم مبارک پوری
یہ جہانِ آب وگل ہمیشہ بے شمار نوابغ روزگار ،اصحابِ علم وکمالات سے منور رہا ہے ۔ اور متعدد عبقری شخصیات نے اپنے وجود اور اپنی ہمہ جہت خدمات سے اس عالم رنگ وبو کی عطر بیزی کی ہے ۔لیکن ایسی ہستیاں بہت کم باصرہ نواز ہوئی ہیں جو تاریخ ساز اور عہد آفریں ہوں ‘ اور جن کے فکر وفہم کی گیرائی اورنبوغ علمی اور ان کے کمالات وصفات کی جامعیت اپنے اندر دور رس اثرات رکھتی ہوں ۔ اور ان کے عظیم کارناموں اور بے مثال کار کردگیوں اور روشن خدمات کی وجہ سے تاریخ کے اوراق اسے اپنے حمائل میں محفوظ رکھے ہوں ۔
انہی اعاظم رجال اور نبیل المرتبت اشخاص میں سے خاندان شریفی کے گل سر سبدمسیح الملک حکیم محمد اجمل خان بھی ہیں جن پر قدرت نے بے پایاں انعام کیا اور اپنے فضل وکرم سے خوب نوازا تھا۔ ان کی شخصیت حشمت وشوکت ،شجاعت وسخاوت، شرافت ونجابت، اعلی اخلاق،عمدہ اوصاف،تحمل مزاج ،وضع دار،حسن کردار، شیریں گفتار، تدبر وتفکر اور تحقیق وتدقیق کے جواہر گراں مایہ سے مزین ہو کر ہماری تاریخ کانقشِ دوام اور بیش قیمت حصہ ہے۔نزھة الخواطر میں ہے:
کان الشیخ ا ¿جمل جمیلاً وسیماً ، حسن الشارة ، حلو المنطق ، لطیف العشرة ، حاضر البدیھة ، خفیف ال ©روح ، بشوشاً مع رزانة ووقار ، وعفة نفس ، لا تعتریہ الحدة ، ولا یغلبہ الطیش ، بعیداً عن التبذل وھجر الکلام(نزھة الخواطر (۸/۸۶۱۱) از مولانا عبدالحی لکھنوی (وفات : ۱۴۳۱ھ) دار ابن حزم بیروت، پہلا ایڈیشن : ۰۲۴۱ھ) حکیم محمد اجمل خان نہایت خوب صورت ،وجیہ رو تھے۔شگفتہ زبان، شیریں کلام ، حاضر جواب ،ہلکے بدن،صاحب وقار تھے۔عفت نفس سے متصف تھے۔نہ آپ میںحدت اور تیزی تھی اورنہ طیش سے مغلوب ہوتے تھے ۔ ابتذال اور ناپسندیدہ گفتگو سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔
یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں تاریخ کسی بھی قوم کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہوتا ہے ۔ اسی پر اس کی تہذیب وثقافت ،معاشرتی شعور ، ماضی کی تابناک روایات ، آنے والے دنوںکا لائحہ عمل اور مستقبل کی پلاننگ کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔اوراس سے اس کی عظمت اور حقیقی مرتبہ کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے ہر قوم اپنی تاریخ مرتب کرنے ،دستاویزی ثبوت فراہم کرنے اور تاریخی آثار ونوادرات کے تحفظ کا بڑا اہتمام کرتی ہے۔چونکہ اس سے فرد اور معاشرہ جذباتی ہوتا ہے اس لیے اسے یک گونہ تقدیس کا درجہ بھی حاصل ہے ۔چنانچہ تاریخی شخصیات سے عقیدت تاریخی کارناموں اور واقعات پر افتخار پرستی کی اولین شناخت سمجھا جاتا ہے ۔اس لیے ملک عزیز کے نوجوان نسل کو ان قائدین سے اور ان کے عظیم کارناموں اور بیش بہا قربانیوں سے متعارف کراناہماری ذمہ داری ہے اور یہی ان سے سچی خراج عقیدت بھی ہے ،کیوں کہ: ”عظیم شخصیتوں کی سوانح حیات اور تاریخ کے مطالعہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ انسان خود اپنی فطرت سے آگاہی حاصل کرتا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ایک ایسا معیار آجاتا ہے کہ نہ صرف اپنے دور کی شخصیتوں کو بلکہ خود اپنی شخصیت کو اس پر پرکھے‘ اور اپنی قدر وقیمت کا عرفان حاصل کرے“(حکیم محمد اجمل خان (ص: ۰۱) از: غفران احمد ، فیضان بک سپلائر ۴۶۴۱،قاسم جان اسٹریٹ، دہلی ۶۰۰۰۱۱)
زیر نظر تحریر میں مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کی دینی اور ملی خدمات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے‘ اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسیح الملک جس طرح انتہائی محنت ولگن اور جانفشانی کے ساتھ تعمیر شخصیت اور علمی ترقی میں ہمہ وقت منہمک رہے ‘اسی طرح ان کی دینی اور ملی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔عربی زبان وادب میںتبحراور کمال نے اس دائرہ کومزید وسعت عطاکی، کیوں کہ حکیم صاحب: ” محض عربی دان نہ تھے ،بلکہ عربی زبان میں وہ ایک قادر الکلام اور فصیح وبلیغ ادیب تھے ۔ عربی نثر ونظم پر پورا عبور حاصل تھا ۔ بعض موقعوں پر جب عربی زبان میں بر جستہ تقریر کرنے کا موقع ہوتا تو کوئی شخص یہ محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ یہ عرب بول رہا ہے یا کوئی دوسرا شخص ۔ وہ ہر ایک عرب اور ہر ایک متبحر عالم وادیب سے عربی زبان میں ہی گفتگو کرتے تھے ‘ ‘(حیات اجمل (ص : ۴۲) شفاءالملک حکیم رشید احمد خان امروہوی، ناشر: عالمی اردو مرکز ۵/۶۷۸۴اسٹریٹ نمبر ۱، پرانا سلیم پورہ ، دہلی ۱۳۰۰۱۱ )
یہ آپ کے اجلہ اساتذہ کا فیضان ‘اورشہنشاہ ادب خلیل عرب کی نظر عنایت تھی۔آپ نے قلیل مدت میں عربی ، فارسی، تفسیر، حدیث ، فقہ، ادب ، منطق اور فلسفہ کی تعلیم سے آراستہ ہوئے ۔آپ کے مشاہیر اساتذہ میںمولانا صدیق احمد دہلوی ،مفسر قرآن مولانا عبد الحق ،صاحبِ تفسیر حقانی،مولانا عبد الرشید رام پوری اور مولانا طیب علی رام پوری جیسے اساطین علم وفن کا نام بڑی عقیدت سے لیا جاتا ہے ۔مولانا عبد الحق صاحب اور مولاناعبد الرشید رام پوری فقہ حنفی میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ مولانا عبد الحی لکھنوی نے دونوں حضرات کو فقہ حنفی کے ماہرین علماءمیں شمار کیا ہے ۔ ان اجلہ علماءسے کسب فیض اور اساطین علم وفن کی خوشہ چینی سے دینی اورفقہی مسائل کے استنباط پر درک اور عبور حاصل ہوا ۔ وہ جس طرح علم طب میں روزانہ نئے نئے انکشافات اور تحقیقات کیا کرتے تھے اوراہل زمانہ کو فیض یاب کرتے تھے اسی طرح فقہی مسائل میں بھی زمانہ کے حالات اور طروف کے مطابق اجتہاد کو پسند کرتے تھے‘اور اس سے استغناءکو مضر اورفقاہت سے محرومی کا سبب قرار دیتے تھے ۔ حکیم صاحب اپنے پیش رو علماءکی طرح اس بات کے قائل تھے کہ اجتہاد ہر دور کی ضرورت ، حیات انسانی اور تمدن ومعاشرت کی تغیر پذیری اور نمو وارتقاءکی صلاحیت اور انسانی ضروریات ، حوادث وتغیرات کے تسلسل کا فطری تقاضا اور شریعت اسلامی کی وسعت اس کے من جانب اللہ ہونے اور قیامت تک انسانوں کی رہنمائی اور معاشرہ کے جائز تقاضوں کی تکمیل کی صلاحیت رکھنے کا ثبوت ہے جس کا اظہار اور ثبوت ہر دور میں ضروری اور حاملین شریعت کا فرض ہے۔ جب کہ اس زمانہ میں بعض علماءنے اجتہاد کے دروازے کو ’شجر ممنوعہ‘ سمجھ کربند کر دیا گیا تھا ۔مسیح الملک حکیم صاحب اپنے ہم مشرب اور اس وقت کے موجود علماءسے ہمیشہ یہ خواہش کیا کرتے تھے کہ موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق فقہ کے مسائل میں دقت نظر اور ژرف نگاہی سے کام لیا جائے ‘ تاکہ فقہ حنفی کو عصر حاضر کے تقاضوں اور مطالبات کے مطابق جدید اسلوب میں پیش کرکے اس کی اہمیت اور معنویت کو دو چند کیا جائے۔ مباحث، جزئیات اورتحقیقات وتجربات کی روشنی میں فقہ کو بہتر بنانے کی شکل میں قدم اٹھایاجائے‘ تاکہ فقہ کے موضوعات پر مختلف اور مفید گوشے آ سکیں‘ کیوں کی اس میں ایسی گہرائی اور گیرائی ہے کہ اس کی روشنی میں ہر زمانہ حتی کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پیش آمدہ مسائل کا بہترین حل پیش کیا جا سکتا ہے ۔یہ صرف خوش کن دعوی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ماہرین شریعت اورفقہاءنے اس کا عملی مظہرہ کیا ہے۔ اسی جذبہ اور لگن کے ساتھ حکیم صاحب نے سب سے پہلے خود فقہی مسائل کابصیرت کے ساتھ عمیق مطالعہ کیا اور تبحرو کمال حاصل کیا کہ مشہور ومعروف اہل علم ان کی فقہی معلومات اور استنباط پر محو حیرت ہو تے اور ان کی مدح میں رطب اللسان ہوتے۔چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی کا بیان ہے کہ : ”ایک بار میرے سامنے حکیم صاحب مرحوم نے فقہ اسلامی پر ایسی مجتہدانہ ومبصرانہ تقریر کی کہ خود مجھے حیرت تھی “(حیات اجمل : حکیم رشید،ص : ۳۲- ۴۲)
یہ تھافقہ کے بارے میں مسیح الملک حکیم صاحب کا نقطہ نظر۔ ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کونہ صرف فقہی مسائل میں عبوراور ملکہ تھا بلکہ فقہ کی دقیق جزئیات میںاجتہاد اور استنباط پر بھی کامل مہارت تھی۔
مسیح الملک کی دینی خدمات کا روشن پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے د ائرہ اسلام کے اندر ہر قسم کی فرقہ بندی ‘ تعصب اور تکفیرکی سخت مذمت کی ۔ملک ہندوستان میںتکفیر کے بارے میں جو نظریہ رائج تھا اس کی بھر پور تردید کی اور اس کے برے اثرات سے آگاہ کیا ۔ مذہب کے متعلق اور خصوصا اسلامی عقائد کے متعلق ان کی وسعت نظر اور افکار کی وضاحت اس خطبہ سے ہوتی ہے جو اسی زمانہ میںانہوںنے ندوة العلماءکے زیر اہتمام دہلی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں فرمایا:
” میرا خیال ہے کہ ابتدائے اسلام سے غدر۷۵ءتک جس قدر تکفیر کے فتوے لکھے گئے ‘انہیں ایک جلد میں جمع کیا جائے تو ہر گز اس جلد کی ضخامت اس جلد کی برابر نہ ہو سکے گی جو ۷۵ءسے لیکر آج تک کفر کے فتووں کی جمع کی جائے ۔یہ وبائے تکفیر صرف اشخاص ہی تک محدود نہ رہی بلکہ وہ ترقی کرکے گروہوں تک بھی متعدی ہو گئی ۔ اس تکفیر نے مسلمانوں میں ایسی منافرت پیدا کردی جس سے ہمیں بے انتہا نقصانات پہنچے“ (حیات اجمل ،از قاضی عبد الغفار(ص: ۰۸ )
تکفیر کی شدت پر بہت افسوس کے ساتھ فرمایا : ” تکفیر کی نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر مکفرین کے مجموعہ فتاوی کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تویہ کہنا مشکل ہو کچھ اس وجہ سے ہے کہ ہندوستان کے حضرات سواد اعظم نے ابھی تک معیار اسلام مقرر نہیں کیا ‘جس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور جس کی وجہ سے صرف ہندوستان غیر اسلامی آبادی ہی پر اس کا اخلاقی اثر خراب نہیں پڑ رہا ہے ۔ بلکہ خو د اسلامی آبادی بھی بہت تلخی کے ساتھ اس ناگوار حالت کو محسوس کر رہی ہے“(حیات اجمل ،از قاضی عبد الغفار( ص: ۷۱۴- ۸۱۴)
دینی تعصب اورآپسی فرقہ بندی کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سلطان ابن سعود اور مکہ کے ظالم حکمراں شریف حسین کے پس منظر میں فرمایا:
”آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ سلطان ابن سعود نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا اور اس ظالم خاندان (خاندان شریف حسین ) کو وہاں سے نکال دیا‘ لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے ان نجدیوں کے خلاف جو توحید کے پوری طور پر قائل ہیں اور جو احادیث پر سب سے زیادہ عامل ہیں کفر کے فتوے صادر کیے جا رہے ہیں اور اسی طرح اسلام میں تفرقہ اندازی کی جا رہی ہے ۔ ان باتوں سے سوائے اس کے اور کوئی بات معلوم نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کی بد بختی کا زمانہ ابھی ختم نہیں ہوامسلمانوںکی سلطنتیں فنا ہو تی جا رہی ہیں۔ وہ ادبار کی حالت میں گرفتار ہیں مگر ان کے آپس کے تفرقے فنا نہیں ہوتے ۔ نجدیوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس میں بعض علماءبھی ہیں اور دوسرے لوگ بھی ۔ مولوی صاحبان مجھے معاف کریں لیکن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ لوگ اس قسم کا پرو پیگنڈا کر رہے ہیں وہ یا تو ناعاقبت اندیش ہیں یا ان کی پشت پر
کوئی اور ہاتھ ہے (حوالہ سابق(ص: ۵۱۳)
مسلمانوں کی پستی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سود کے مسئلہ کو حل کیا جائے اور صاف صاف بتایا جائے کہ اس کے جواز کی شرعی صورتیں کیا ہیں ‘اور بینک کا سود محرمات شرعیہ میں سے ہے یا نہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ علماءنے اب تک اس مسئلہ پر توجہ نہیں کی ہے ۔اسی طرح انہوں نے علماءکو بتا یا کہ جزئیات فقہ میں زمانہ کی ضروریات کے اعتبار سے مناسب تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔
آزادی ¿ وطن کی راہ میں:
مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کا شمار ہندوستان کے ان چندمشاہیرافراد میں ہوتا ہے جنہوں نے ملکی اتحاد اور سیکولرازم کے فروغ میں اہم کرداراداکیا ہے ۔ وہ ہمارے قومی رہنماو ¿ں کی اولین صف میںشامل تھے۔ ہماری قومی وحدت ، مشترکہ ثقافت اور ہندوستانی انفرادیت کے مُظہر تھے۔ بیسویں صدی کے ربع اول میں ہماری قومی سیاست کے نہ صرف علم بردار تھے بلکہ تحریک آزادی کے روح رواں بھی تھے۔ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وطن کو آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی‘ اور اس جدو جہد میں بابائے قوم مہاتما گاندھی اورآزادی کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے شانہ بشانہ رہے ۔راج گوپال اچاری کے بقول :”حکیم اجمل خان ہندوستان کے عظیم محب وطن افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اتحاد کے نصب العین کے لیے کام کیا“ (حکیم محمد اجمل خان (ص : ۶۲)
ہندوستان پر یورپی تسلط کی مسموم ہوائیں تو اٹھارہویں صدی میں ہی چلنا شروع ہو گئیں تھیں ۔ ۷۵۸۱ءکی پہلی جنگ آزادی کا بگل بجنے کے بعد ہندوستانیوں کوجس ظلم وستم اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا اس کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے ۔ ہزارو ں بے گناہ معصوموں کو پھانسی دے دی گئی تو ہزاروں کو بے دریغ قتل کیا گیا ۔ علماءو فضلاءاور اہل حرفہ گوشوں میں سمٹ کر رہ گئے ۔ یہ ایک عظیم سانحہ تھا ‘ جس نے ہندوستان کے تمام طبقوں کو خواب کی دنیا سے نکال کر حقیقت کے سنگلاخ میدان میں کھڑا کر دیا ۔ یہ صرف تسلط اور حکمرانی کی تبدیلی نہیں تھی ‘ بلکہ یورپی تہذیب وثقافت اور معاشرت ومعیشت کا ایک سیل رواں تھا ‘ جس کے سامنے بندھ باندھنا از حد ضروری تھا ۔ اور اس بندھ کے باندھنے میں مسیح الملک نے زعمائے قوم وملت کے ساتھ جو جِدوجَہدکی ‘اسے نوکِ قلم کرنے کے لیے ایک دفتر بے پایاں کی ضرورت ہے ۔
دینی وملی تحریکیں اور مسیح الملک کی مساعی جمیلہ:
قومی اور سماجی خدمات کی طرح حکیم محمد اجمل خان کی دینی ، ملی اورتعلیمی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے ‘ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ اسے اپنا ذاتی فرض سمجھتے تھے ۔۲۹۸۱ءمیں دینی ، ملی اور تعلیمی خدمات کا آغاز رام پور کے قیام کے زمانے سے ہو چکا تھا ۔اس وقت عمر کی ۸۲ ویں بہاریں دیکھ رہے تھے اور اسی زمانے میں ہندوستانی مسلمانوں کی دینی اور ملی تحریک کے اہم رہنماو ¿ںکے وفود ‘جو والیانِ ریاستِ رام پور اور دیگر اہل ثروت حضرات سے امداد حاصل کیا کرتے تھے ‘ حکیم صاحب کے بہت خوش گوار تعلقات ہو گئے ۔ ان تعلقات نے آپ کی اجتماعی سرگرمیوں کو پھلنے پھولنے کا زریں موقع عنایت فرمایا۔ان تعلقات کی پختگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۹۱ءمیں والد ماجد کی وفات کے بعد مسیح الملک جب دہلی آگئے توان رہنماو ¿ں سے روابط برابر استوار رہے اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ۔
رام پورکے قیام کے زمانہ میں مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر سے اس وقت سے واقف تھے جب وہ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے۔یہیںنواب محسن الملک سے پہلی مرتبہ شرف لقاحاصل ہوا۔علی گڑھ تحریک کے مقتدر حضرات سے بھی ملے اور ان کی حوصلہ افزائی کی‘ اوراس تحریک سے وابستہ ہو ئے۔ محنت و لگن سے اسے عروج وارتقاءبخشا۔
۶۰۹۱ءمیں مسیح الملک اور محمد علی جوہردونوں مسلم لیگ کی تحریک میں شامل ضرورتھے ۔لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہوئے۔ ۰۱۹۱ءمیں اول الذکر کی پہلی ملاقات ڈاکٹر مختاراحمد انصاری اور عبد المجید خواجہ سے ہوئی ۔۲۱۹۱ءمیں ڈاکٹر انصاری لندن کو خیرباد کہہ کر دلی آئے اور سماجی وملی کاموں میں مسیح الملک کے رفیق اور دست ِراست بن گئے۔ حکیم محمد اجمل خان، مولانا محمد علی جوہر ،ڈاکٹر انصاری اور عبد المجیدخواجہ چاروں معمار جامعہ اور اس کی بقا کی ضمانت تھے۔اور’ امیر الجامعہ‘ اور’ شیخ الجامعہ ‘جیسے اعلی عہدوں پرفائز رہ کر اپنے خونِ جگر سے آبیاری کرتے رہے۔ حکیم صاحب ان میں سب سے بڑے تھے۔ جامعہ کے قیام کے محض چار سال بعد ۴۲۹۱ءمیں جب جامعہ پر نازک وقت آیا توسایہ دار درخت بن کر خدمت کرتے رہے۔اور ایک سال بعدجون ۵۲۹۱ءمیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو علی گڑھ سے قرول باغ (دہلی) منتقل کرنے کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنایا۔ڈاکٹر مختار احمدانصاری اور عبد المجیدخواجہ نہ صرف حکیم صاحب کے اس فیصلہ سے متفق تھے بلکہ دست گاہ اور معاون ومدد گار تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ارکانِ ثلاثہ ہمت اورحوصلہ سے کام نہ لیتے اورجامعہ ملیہ کو علی گڑھ سے دلی منتقل نہ کرتے تو تعلیم کے وہ نقشے جو دیوبند ، علی گڑھ اور قومی یک جہتی کی تحریکوں کے امتزاج سے بن رہے تھے‘ تشنہ تکمیل رہ جاتے ۔
ہندوستان کی مشہور علمی درس گاہ دارالعلوم دیو بند بھی مسیح الملک کی خدمات سے مستفیض رہی ہے ۔ ۱۱۹۱ءمیں علامہ رشید رضا رحمہ اللہ کی ہندوستان آمد پر ان کے اعزاز میںدارالعلوم میںایک جلسہ کا انعقاد ہوا جس میں علامہ مرحوم نے عربی میں خطاب کیا تھا ۔ اس گراں مایہ خطاب کی ترجمانی مسیح الملک کے حصہ میں آئی۔آپ نے پورے خطاب کی ایسی ترجمانی کی کہ عربی داں طبقہ انگشت بدنداںہو گیا اور ورطہ ¿ استعجاب میں پڑ گیا۔ رام پور کے قیام کے زمانہ میں عربی ادب میں علامہ محمد طیب عرب مکی کی تربیت میں کمال حاصل کیا تھا ۔
دارالعلوم ندوة العلماءسے بھی آپ کا گہراتعلق رہا ہے۔ ۰۱۹۱ءسے ۵۲۹۱ءتک وہ مجلس عاملہ کے رکن رہے ۔مارچ ۰۱۹۱ءمیں اس تعلیمی مرکز کا پہلااجلاس دہلی میں نہایت تزک واحتشام سے منعقد ہوا توحکیم صاحب اس کے صدر رہے ۔ جب کہ اس اجلاس میں مولانا شبلی نعمانی اور نواب وقار الملک جیسی علمی اور سر کردہ شخصیات رونق افروزتھیں۔
ان کے علاوہ جمعیت علماءہند ، علی گڑھ کالج، مسلم لیگ تحریک،انجمن حمایت الاسلام لاہور اور متعدد انجمنیں اور یتیم خانے آپ کی خصوصی توجہ کی رہین منت رہیں (حیات اجمل ، حکیم رشید(ص : ۷۲۱) اور آپ کی جدت پسندی اور ترقی پرور شخصیت سے مناسبت رکھتی تھیں ، اس لیے وہ ان سے گہری دل چسپی رکھتے تھے ۔
جب مولانا شبلی نعمانی اور ندوة العلماءکی مجلس انتظامیہ کے بعض اراکین کے درمیان اختلاف بڑھ گئے اور پیچیدہ ہو گئے اور نزاع کی گتھی سلجھنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو’ اصلاح کمیٹی ‘کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو اس کمیٹی کا اہم رکن منتخب کیا گیا۔ آپ نے اس سلسلہ میں۲۱ مئی ۹۱۹۱ءکودلی میں علماءکی ایک کانفرنس بلائی ‘اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ہمراہ مصالحت کی کوشش کی ۔چنانچہ چند دنوں میں مصالحت کی فضا بن گئی اور نفرت وکدورت کی جمی برف پگھلنے لگی۔اس طرح دونوں بزرگ کی مساعی حمیدہ سے اختلاف وانشقاق ختم ہوا۔
مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کی ملی خدمات کا گوشہ نا تمام رہے گا جب تک طبیہ کالج کا ذکر نہ ہو ۔ طبیہ کالج کا قیام دراصل حکیم صاحب کے بلند خیال او رجحان کا مُظہر،ان کی زندگی کی متاع عزیزاورمدرسہ طبیہ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔جس کی تاسیس ۹۲ مارچ ۶۱۹۱ءکو قرول باغ (دہلی )کے لق دق جگہ میں ہوئی۔یہ دن بڑی مسرت وشادمانی کا دن تھا ۔ اللہ کی رحمت اور قدرت کاملہ سے ان کی برسوں کی محنت رنگ لائی ۔ اور فرہاد کو کوہ کنی سے جوئے شیر حاصل کرنے میں جو خوشی ہو سکتی تھی آج اللہ تعالی نے اس فرحت وانبساط سے ان کوشاد کام کیا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اس کافاو ¿نڈیشن اسٹون( سنگ بنیاد) برطانیہ عظمی کے نمایندے لارڈ ہارڈنگ نے رکھا اور ا فتتاح ۱۲۹۱ءمیںپچاس ہزار انسانوں کے طوفان خیز سمندر میں برطانوی سامراج کے سب سے بڑے حریف گاندھی جی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ یہ کالج طب یونانی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کی تعمیر وترقی کے لیے مسیح الملک نے اپنا ذاتی اثاثہ اور خاندانی سرمایہ وقف کر دیا تھا۔اور مالی امداد کے لیے دل وجان سے جٹ گئے اور پورے ملک کاسفرکیا۔اور اپنے ذاتی تعلقات سے دس لاکھ روپیے جمع کیے۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اچھی سڑکیں نہ تھیں ،نہ آرام دہ گاڑیاںاور نہ ہی دولت کی ریل پیل‘ لیکن مسیح الملک کی لگن اور بلند حوصلے سے راستوں کے نشیب وفراز ہموار ہو گئے۔اور سفر کی صعوبتیںکافورہو گئیں۔
حکیم محمد اجمل خان کی روشن فکر اورجذ بہ ¿ صادقہ نے طبیہ کالج کو ارتقا کے مدارج سے سرفرازکیا ۔ اورآپ کی حقیقت شناسی نے کامل غور وفکر کے بعد علم صحیح پر مبنی جامع تعلیم وتربیت کا نسخہ کیمیا تجویز کیاجو اس میدان میں کام کرنے والوںکے لیے مشعل راہ بنا۔
ہمارے درمیان محترم ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی ہمہ جہت شخصیت بھی محتاج تعارف نہیں ۔آپ دو عظیم دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ کے وائس چانسلررہے ہیں۔اور صدر جمہوریہ ہند کے با وقار عہدے کو زینت بخشی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ ان سطور کا اختتام ڈاکٹر صاحب کے جامع تاثرات کے ساتھ کروں جن کی روشنی میں مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کی شخصیت اور دین وملت کی بے لوث خدمات کچھ اس طرح نکھر کر سامنے آتی ہے:
”ایک اجمل خان کی ذات تھی جس کی جڑیں تمدن اسلامی کی گہرائیوں میں تھیں۔ اور جس کے پھل پھول دیکھ کر نئے باغوں کے پھول بھی شرما جاتے تھے ۔ ہر شعب ¿ہ تمدن میں،طب ہو کہ علم سیاست ، معاشرت ومذہب ہو یا فنون لطیفہ ہوں ،وہ سب میں مقلد بھی تھا اور مجتہد بھی۔ پچھلے جو دے سکتے تھے وہ سب اس نے لے لیا۔ لیکن یہ خیال کبھی ذہن سے نہ ہٹا کہ اگلوں کو کچھ اور بھی دے جائے۔ اس کی غیور طبیعت کو کبھی گوارا نہ تھا کہ ماضی کا قرض بلا معاوضہ حال کی گردن پر رہے۔ اس لیے اس کی نظر ہمیشہ مستقبل پر تھی ۔ طبیہ کالج دیکھو ۔ ندوہ العلماءکے اجلاس میں اس کے خطب ¿ہ صدارت کو پڑھو ۔ جامعہ ملیہ کے تخیل سے آگاہی پیدا کرو ، جو مرحوم کے پیش نظر تھا،اور جس کی تکمیل کی سعی میں ان کی آخری سانسیں گزریں تو معلوم ہو گا کہ یہ دماغ محض کسی بڑے طبیب یا عالم یا سیاسی آدمی کا دماغ نہ تھا۔ بلکہ ایسا دماغ تھا جو صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جن سے قدرت مستقبل تعمیر کراتی ہے “(حکیم محمد اجمل خان (ص :۱۳-۲۳ )۔
(مضمون نگارجامعہ سلفیہ[ مرکزی دارالعلوم ]بنارس میں بحیثیت استاداپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اورجامعہ کے دارالافتاءکے ریکٹربھی ہیں،ساتھ ہی لکھنؤ یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالرہیں جوتکمیل کے مرحلے میں ہے)