نئی دہلی ۔27دسمبر
حفظ الرحمن قاسمی ملت ٹائمز
حکومت ہند کا طلاق ثلاثہ بل مسلسل تنازع کا شکار ہوتا جارہا ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ملک کے تمام ماہرین قانون، دانشوران اور سلیم الطبع حضرات اس بل کو غیر ضروری اور لایعنی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کررہے ہیں، گزشتہ 24 دسمبر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ بھی ہوئی تھی جس مین مجوزہ بل کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا جائے اور حکوت بورڈ کے ساتھ مل کر طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنائے۔ بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی نے گذشتہ کل وزیر اعظم کے نام خط لکھ کر بھی انہیں مسلمانوں کے احساسات و خیالات سے آگاہ کیا ہے ۔
اس دوران ملت ٹائمز نیوز پورٹل نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر قارئین کی رائے جاننے کیلئے ایک سروے کیا ہے، فیس بک پیج پر پول میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فیصلے کے ساتھ ہیں یا نہیں؟۔ اس پول میں تقریبا 2200 سے زائد لوگوں نے شرکت کی اور 96 فیصد لوگوں نے بورڈ کے اس فیصلے سے اتفاق کیا کہ مجوزہ بل شریعت میں مداخلت اور نامنظور ہے وہیں 4 فیصد قارئین نے بورڈ کے اس اقدام نے عدم اتفاق کرتے ہے نہیں کے آپشن کو کلک کیا ۔ جن لوگوں نے بورڈ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ہے ان میں ایک نمایاں جمعیۃ علماء ہند کے میڈیا کو ڈینیٹر مولانا عظیم اللہ صدیقی قاسمی کا بھی ہے ۔ ایک جگہ انہوں نے کمنٹ میں لکھاکہ عنوان یہ قائم کیا جائے ” کیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کے ساتھ ہے؟“ ۔
ملت ٹائمز کے فیس بک پیج پر 30 ہزار سے فلوورز ہیں، پول تقریبا 24 ہزار لوگوں تک پہونچا تھا جس میں سے 2200 لوگوں نے شرکت کی، 98 افراد نے نہیں کا آپشن دبایا جو کل چار فیصد ہوتا ہے بقیہ نے ہاں کا بٹن دباکر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے مجوزہ بل کی مخالفت کی جو کل 96 فیصد ہوتا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ نہیں کے آپشن پر کلک کرنے والوں میں ایک بھی خاتون نہیں جبکہ ہاں کے آپشن پر کلک کرکے جن لوگوں نے بورڈ کے فیصلہ کی حمایت کی ہے ان میں 15 فیصد خواتین بھی شامل ہیں ۔
اس پوسٹ پر قارئین نے کمنٹ میں اپنے ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ جامعہ ہمدرد کے طالب علم عبید الکبیر نے لکھا ”بھارت میں پرسنل لاء کا مسئلہ آئین میں موجود مذہبی آزادی کے ضمن میں آتا ہے، کسی بھی ایسے شخص یا جماعت کو جو بھارتی دستور کی بالا دستی کا قائل ہو اس بنیادی نکتہ کو نظر انداز نہیں کر نا چاہیے، تاہم موجودہ مرکزی حکومت رفتہ رفتہ جس ایجنڈے پر گامزن ہے اسے دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ حکومت خواتین کے مسائل کے تئیں ذرا بھی حساس ہے، چہ جائیکہ اسے مسلم خواتین کی فکر ستائے، ایسے میں بورڈ کو اپنی روش پر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ آیا کن بے احتیاطیوں کی بنا پر آج صورتحال یہاں تک پہنچی ہے،ہمارے خیال میں بورڈ کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ خود بورڈ اپنے حقوق فرائض اور آزادی کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ کہاں کھڑا ہے۔
ارریہ بہار سے روزنامہ انقلاب کے نمائندہ عبد الغنی لبیب نے لکھا ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو ہڑبڑانے کے بجائے فقہ و شریعت کے مطابق بہت سلیقہ سے اپنے موقف کو حکومت اور عدالت کے سامنے رکھنا چاہیے تھا اسلامی اسکالر مولانا کبیرالدین فوزان کی مندرجہ ذیل تحریر ارباب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے ”لہذا مسلم معاشرہ کو یہ حق ہے کہ کثرت طلاق کے وقوع اور حلالہ جیسے قبیح امر کی روک تھام کے لئے طلاق سے قبل تحکیم یعنی ثالثی کو لازم قرار دے اور تحکیم سے قبل دی گئی طلاق کو غیر واقع، غیر نافذ ، فضول اور لغو قرار دے ایسا قانون بنانے میں کوئی دینی قباحت یا شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہے اس سے خدائی حکم پر عمل کی صورت نکل آتی ہے“۔
محمد رستم نام کے ایک فیس بک یوزر نے لکھا ”ہاں میں ہر حال میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہوں، یقیناً مسلم پرسنل لا بورڈبہت ہی فعال متحرک اور مضبو ط ہے ، اس کی خدمات قابل تحسین ہیں ہر نازک وقت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے شریعت کی حفاظت و دفاع کیلئے اہم رول ادا کیا ہے۔ محمد طارق نے لکھاکہ ہمارے عظیم مذہب کیلئے یہ بہت خطرناک قانون ہے، وقت آگیا ہے کہ تمام مسلمان ایک متحدہ پلیٹ فارم پر آکر مضبوط احتجاج کریں ورنہ ہمیشہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جنید آزاد نے کمنٹ کرتے ہوئے لکھا ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے موقف کو بہت زمانے سے ارباب اقتدار اور قانونی مبصرین کے سامنے رکھ رہا ہے مگر کچھ اپنوں ہی کو بورڈ کی کارکردگی پر شک ہے یہ وہی لوگ ہے جنھوں کبھی درخت کی نگہداشت نہیں کی وہ ملت کی پشت بانی کیا خاک کریں گے ہم مسلمانان ہند طلاق کے مسئلہ میں مسلمانانِ ہند کا سب سے بڑا متفقہ مشترکہ متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں“۔محمد سہیل انصاری لکھتے ہیں ”مسلم پرسنل لا بورڈ پر حملہ اسلام پر حملہ جس کو ہندوستانی مسلمان قطعاً برداشت نہیں کرے گا “۔مفتی عبد اللہ محی الدین قاسمی لکھتے ہیں ”ہاں بالکل ہر مسلمان کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ اگر مسلمان اپنے علماء سے دور ہوئے تو دین سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور پھر نام کا مسلمان ہونے سے کیا فائدہ “۔خواجہ خان لکھتے ہیں ”ہمارے اکابر نے ہم ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق اس ملک ہندوستان میں رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ بائی چانس نہیں بلکہ بائی چوئس کیا تھا اور اس حق آزادی کے ساتھ کیا تھا کہ ہم اس ملک میں اپنے تمام شعائر کو صرف باقی رکھتے ہوئے نہیں بلکہ مکمل عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ اور ہندوستانی قانون کی رو سے پرسنل لاء پر عمل کی آزادی کیساتھ رہیں گے لہذا ہم ہمیشہ سے مسلم پرسنل لاء کے ساتھ تھے اور ہیں اور ہمیشہ رہیں گے انشاءاللہ۔ سیف الرحمن اسماعیل لکھتے ہیں”ہم قرآن و سنت کے ساتھ ہیں ،قرآن وسنت کوآڑبناکر شریعت کےساتہ کھلواڑ کرنے والے کے ساتھ ہم نہیں ہیں“۔
ملت ٹائمز کی منیجنگ کمیٹی اور ایڈیٹوریل بورڈ نے پول میں حصہ لینے والے تمام قارئین کا شکریہ اداکیاہے اور یہ امید ظاہر کی ہے وہ آئندہ بھی ملت ٹائمز کے پول میں حصہ لیں گے ۔ ساتھ یہ ہی یہ گزارش بھی کی ہے کہ ملت ٹائمز کو مزید لوگوں تک پہونچانے میں اپنا تعاون پیش کریں۔ فیس بک پر آفیشیل پیج کا لنک دوستوں کو بھیجیں انہیں انوائٹ کریں اور زیادہ سے لوگوں کو اس پیج سے منسلک کریں۔ یہاں کلک کرکے آپ براہِ راست فیس بک پیج پر پہونچ سکتے ہیں ۔فیس بک پیج