مسلمانان ہند کی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن کا اضافہ

خبر درخبر۔(533)
شمس تبریز قاسمی
طلاق ثلاثہ بل آج لوک سبھا سے پاس ہوگیاہے ،بہت جلد اب یہ راجیہ سبھا میں پیش ہوگا اور امیدہے کہ وہاں مزید آسانی کے ساتھ یہ بل پاس ہوجائے گا ،لوک سبھا کی یہ کاروائی میں مسلسل ٹی وی چینل پر دیکھ رہاتھا ،اندازہ تھاکہ آج اس بل کا تعارف کرایاجائے گا لیکن اس پر آج بحث نہیں ہوگی ،چوطرفہ مخالفت کے پیش نظر یہ بھی امید ظاہر کی جارہی تھی کہ یہ بل سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جائے گا یا کم ازکم اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کیاہی جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ،ٹھیک ساڑھے بارہ بجے لوک سبھا میں یہ بل پیش کردیاگیا اور کچھ دیر بعد اس پر بحث شروع ہوگئی ، تقریباساڑھے سات بجے شام تک کاروائی چلنے کے بعد لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن نے بل کے پاس ہونے کا اعلان کردیا ۔بل میں ترمیم کیلئے کئی سفارشات پیش کی گئیں لیکن کسی بھی ترمیمی سفارش کے حق میں دو تین سے زیادہ ووٹ نہیں ملے ،تینوں سفارشات اسد الدین اویسی نے پیش کی جن میں دو تین ووٹ ملا ،ایک ووٹ ان کا اپنا تھا،ایک ووٹ آر جے ڈی کے ایم پی جے پرکاش نارائن کا اور ایک ووٹ ایک مرتبہ پریم چندرن کا ملاتھا ۔ بقیہ 22 مسلم ممبران پارلیمنٹ میں سے کسی نے ووٹنگ کے دوران بھی ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ بل کو اسٹنڈینگ کمیٹی میں بھیجنے کا مطالبہ کرنے والے کانگریسی اور دیگر اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ نے بھی ترمیم کیلئے کی جانے والی سفارشات میں اویسی کا ساتھ نہیں دیا ۔
تقریبا سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے اس بل کی حمایت کی البتہ انہوں نے براہ راست پاس کرنے کے بجائے اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ دوتین ممبران پارلیمنٹ ایسے نظر آئے جنہوں نے بہت زور دار انداز میں بل کی مخالفت کی ،اسے خواتین مخالف بتایا،کانگریس نے بہت زیادہ سرد مہری کا ثبوت پیش کیا اور اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی بھیجنے کیلئے بھی کانگریس نے کوئی خاص دباﺅ نہیں ڈالاتاہم آسام سے کانگریس کی ایم پی سشمیتا دیوی اس سے مستثنی ہیں ،انہوں نے پرزور انداز میں بل کی کئی دفعات کے خلاف آواز بلند کی ،لوک سبھا میں حزب اختلاف کے کانگریسی لیڈر ارجن کھڑگے کی بھی کئی باتوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے صاف انداز میں کہاکہ اس بل کے پاس ہونے کے بعد مسلم خواتین کے مسائل بہت پیچیدہ ہوجائیں گے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کسی طرح کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔آر جے ڈی کے رکن پارلیمان جے پرکاش نارائن اور ایم آئی شنواس نے بھی اہم نکتوں کی جانب نشاندہی کی ،ایم جے اکبر کی تقریر بھی قابل تبصرہ ہے ،آئندہ کل اسی کالم میں ہم ان امور کو سپرد قرطا س کریں گے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ یہ بل بہت جلدبازی میں پیش کیا گیا ہے،یہ بھی یقینی ہے کہ یہ بل ایک سازش کا حصہ ہے ،وزیر قانون روی شنکر پرسادنے لوک سبھا میں واضح طو رپر اس بات کااعتراف کیا ہے کہ حکومت بننے کے فورا بعد ہم طلاق پر قانون بنانا چاہتے تھے لیکن عدلیہ میں معاملہ زیر بحث ہونے کی بنیاد پرہم مجبور تھے جیسے ہی عدلیہ سے معاملہ حل ہوا ہم نے قانون بنانے کا فیصلہ کیااور آج وہ تاریخی دن آگیاہے جب یہ قانون پاس ہوگیا ۔ لیکن دوسری طرف مسلم قیادت نے بھی اس طوفان کا مقابلہ سست روی سے کیا ،بہت دیر بعد عاملہ کے اجلاس میں صدر بورڈ کی جانب سے وزیر اعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس کا پی ایم نے اب تک کوئی جواب بھی نہیں دیاہے ،صدر بورڈ کے خط پر کوئی بھی ایکشن نہ لینے سے ذاتی طو رپر مجھے بیحد افسوس ہواہے ،گذشتہ چند سالوں سے جس طرح مودی کی شبیہ پیش کی جارہی تھی اس سے مجھے کچھ امید تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے اس عظیم اور بزرگ قائد کے خط کو سنجیدگی سے لیں گے ،عمل کریں نہ کریں تاہم کوئی جوا ب دیں گے لیکن اقتدار او رطاقت کے غرور میں مبتلا وزیر اعظم نے ایسا کچھ نہیں کیا جو ایک طر ح سے صرف بورڈ نہیں بلکہ پورے ملت اسلامیہ ہند کی توہین بھی ہے۔
لاءکمیشن ،وزیر اعظم اور وزیر قانون سے ایک وفد کی ملاقات ہونی چاہیئے تھی لیکن اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ،بورڈ کے ایک رکن کے مطابق دہلی میں ہونے والی ایک میٹنگ میں یہ تجویز آئی تھی کہ لاءکمیشن سے بورڈ کا ایک وفد ملاقات کرے لیکن جیسے ہی ایک عظیم قائد نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہمیں کسی کے یہاں جھکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سبھوں کی رائے بدل گئی ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے بہت حدتک کوشش کی لیکن سبھی جدوجہد رائیگاں ثابت ہوئی۔دوسری اہم جماعتوں نے بھی بورڈ کاکوئی خاص تعاون نہیں کیا ،جمعیت علماءہند کی جانب سے بھی سست روی کا مظاہر ہ دیکھاگیاہے ،24 دسمبر کو لکھنو میں ہونے والی بورڈ کی ہنگامی میٹنگ میں جمعیت علما ءہند کے دو نوں قائدموجود نہیں تھے ۔یہ توقع کی جارہی ہے تھی کہ مولانا سید ارشدمدنی اس معاملے میں خصوصی کردار اداکریں گے اور کانگریس سے گہر ے تعلقات کی بنیاد پر اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کیوں کہ یہ بات آئینہ کی طرح صاف تھی کہ بی جے پی حکومت اپنے ایجنڈے کو کبھی واپس نہیں لے گی البتہ کانگریس کی کچھ مخالفت کسی طرح کام آسکتی تھی لیکن مولانا ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں ۔کانگریس کے ایم پی مولانا اسرار الحق قاسمی بھی خاموش نظر آئے ،ہم مانتے ہیں کہ کانگریس پارٹی نے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا ہوگا لیکن جب ترمیم کیلئے ووٹنگ ہورہی تھی اس وقت وہ ضرور ساتھ دے سکتے تھے ۔اے آئی یو ڈی ایف کے ایم پی رادھے شیام بسواس نے بل کی مخالفت کی لیکن پارٹی کے صدر مولانا بدرالدین اجمل بذات خود موجودنہیں تھے ۔این سی پی کے ایم پی طارق انوارصاحب بیمار ہیں دیگر ممبران پارلیمنٹ بھی خاموش نظر آئے ۔اس معاملے پر کم ازکم مسلم ممبران پارلیمنٹ پھی اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرسکتے تھے لیکن 22 میں سے سوائے ایک کے کسی کی آواز پارلیمنٹ میں سنائی نہیں دی ۔انڈین یونین مسلم لیگ،اے آئی یوڈی ایف اور ایم آئی ایم جیسی چھوٹی پارٹیاں بھی ایک ساتھ ہوکرکوئی اتفاق رائے قائم کرسکتی تھی ،ان تینوں کی قیادت وزیر قانون اور وزیر اعظم سے مل کر بل کی خامیوں سے آگاہ کرسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ایم آئی ایم کے سربراہ اویسی صاحب نے اس معاملے میں ہر قدم پر ملت اسلامیہ کی ترجمانی کی ،مسودہ منظر عام پر آتے ہی انہوں نے وزیر قانون کے نام خط لکھ کر بل کی خامیوں سے آگاہ کیا آج پارلیمنٹ میں بھی انہوں نے پرزور انداز میں مخالفت کی اورایوان میں وزیر قانون کو مخاطب کرکے بل کی تمام خامیوں کی مضبوطی کے ساتھ نشاندہی کی ۔(جاری)