شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
قوموں کی بدبختی اور زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی مسائل سے غافل ہوجائیں اور اپنی صلاحیتیں ایسے کاموں میں صرف کرنے لگیں ، جن کا کوئی فائدہ نہیں ، اس وقت ہمارا ملک اسی صورت حال سے گذر رہا ہے ، ملک کی معیشت مسلسل انحطاط پذیر ہے ، شرح ترقی گھٹتی جارہی ہے ، کارخانے بند ہورہے ہیں ، ہمارے وزیر اعظم شاید آدھی دنیا کا سفر کرچکے ہیں ؛ لیکن سرمایہ کاری میں اضافہ تو کجا ، ہمارا سفر تنزل کی طرف جاری ہے ، روزگار کے مواقع گھٹتے جارہے ہیں ، ملک کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی ہے ، بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار بینکوں سے بھاری قرض حاصل کرکے عوام کی گاڑھی کمائی کوڈبو رہے ہیں ، امن و قانون کی صورت حال اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ پوری دنیا ہم پر خندہ زن ہے ، یہ اور اس طرح کی بہت سی ناکامیاں ہیں ،جو دوپہر کی دھوپ کی طرح معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے پر بھی واضح اور عیاں ہیں ۔
بجائے اس کے کہ حکومت ان حقیقی مسائل پر توجہ کرتی ، اپنے نفرت کے ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے اقلیتوں اور دلتوں کو پریشان کرنے اور فرقہ وارانہ بنیادپر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی بے فائدہ کوششوں میں لگی ہوئی ہے ، ایسی ہی نامسعود اور ناروا کوششوں میں ایک مطلقہ خواتین سے متعلق مجوزہ قانون ہے ، جسے ’’مسلم خواتین سے متعلق حقوق کے تحفظ کابل ۲۰۱۷ء‘‘کانام دیاگیا ہے ، بل میں کہا گیا ہے کہ طلاق بدعت ( ایک ساتھ تین طلاق ) اور اس کی مماثل طلاق کی وہ تمام شکلیں جو فوری طورپر اثر انداز ہوں اور جن میں رجعت کی گنجائش نہیں ہو، باطل اور غیر قانونی ہوں گی ، خواہ زبانی طلاق دی جائے یا تحریر کے ذریعہ یا کسی اور ذریعہ سے، اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تواس کو تین سال کی جیل ہوگی اور اس کے علاوہ جرمانہ ہوگا ، نیز اس مطلقہ عورت اور اس کے زیر کفالت بچوں کا نفقہ طلاق دینے والے شخص پر ہوگا اور مجسٹریٹ اس کو طے کرے گا ، نابالغ بچوں کی نگہداشت و پرورش کا حق بھی عورت کو حاصل ہوگا ، نیز مجرم کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوگا اور یہ قابل دست اندازی پولس گا۔
غور کیا جائے تو یہ مجوزہ قانون شریعت ِاسلامی میں مداخلت بھی ہے اوردستور کی روح کے مغائر بھی ، نامنصفانہ بھی ہے اور خود عورتوں کے مفاد کے خلاف بھی، نیز تضادات کا حامل بھی ۔
اس میں ایک پہلو تو شریعت اسلامی میں مداخلت کا ہے اور یہ مداخلت ایک آدھ مسئلہ تک محدود نہیں ہے ؛ بلکہ یہ کئی جہتوں سے شریعت کے عائلی قوانین کو متاثر کرتا ہے ، جس کو درج ذیل نکات میں سمجھا جاسکتا ہے :
(۱) اولاً یہ قانون ’’ طلاق ِبدعت ‘‘جس سے خود اس بل کی توضیحات کے مطابق ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں مراد ہیں، باطل، کالعدم اور غیر مؤثر قرار دیتا ہے ، یعنی تین طلاق دینے کی صورت میں ایک طلاق بھی نہیں پڑے گی ، یہ ایسی بات ہے جس کے غلط ہونے پر مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر متفق ہیں ، ایک ساتھ دی گئی تین طلاق کا کیا اثر مرتب ہوگا ؟ اس میں فقہاء کے درمیان اس بارے میںضرور اختلاف ہے کہ یہ تینوں طلاقیں واقع ہوں گی یا ایک ہی طلاق واقع ہوگی ؟ جمہور اہل سنت کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی ؛ لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں بالکل ہی بے اثر ہوجائیں گی، اور ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی، اور یہ بات عقل عام کے بھی خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے حق طلاق کا استعمال کرتے ہوئے ایک طلاق دے تو وہ تو واقع ہوجائے اور تین طلاق دے تو ایک بھی واقع نہیں ہو۔
(۲) مجوزہ قانون کے مطابق طلاق بدعت کے ساتھ ساتھ اس کے مماثل طلاق کی وہ تمام صورتیں بے اثر ہوں گی ، جن سے فوری طور پر رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہو اور رجعت کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہو،گویاطلاق بائن بھی واقع نہیں ہوگی، اس کے دُور رس اثرات پڑیں گے ، اگر نکاح کے بعد رُخصتی کی نوبت نہیں آئی اور کوئی ایسی صورت پیدا ہوگئی ، جس کی وجہ سے نوبت طلاق کی آگئی ، خواہ یہ صورت لڑکی والوں کی طرف پیدا ہوئی ہو یا لڑکا اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ، تو ایسی صورت میں اگر اس نے ایک طلاق دے دی تو یہ بھی طلاق بائن میں شامل ہے ، قانون کی رو سے یہ طلاق بھی کالعدم ہوگی ۔
(۳) اگر شوہر تین طلاق سے بچتے ہوئے فوری طورپر رشتۂ نکاح ختم کرنا چاہے تو اس کی صورت یہی ہے کہ ایک طلاق بائن دے دی جائے ؛ تاکہ نکاح ختم ہوجائے ؛ لیکن دونوں فریق کی رضامند ی سے دوبارہ نکاح کی گنجائش باقی رہے، اکثر سنجیدہ فیصلہ کے تحت اسی طرح طلاق دی جاتی ہے، اگر باہمی تعلقات خراب ہوگئے ، خاندان اور سماج کے لوگوں نے محسوس کیا کہ اس رشتہ کو ختم کردیا جائے تو شوہر سے یہی طلاق دلوائی جاتی ہے اور عورت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد رہتی ہے ، شوہر اپنی رضامندی کے بغیر اس کو اپنے نکاح میں واپس نہیں لاسکتا ، اس قانون کی رو سے یہ طلاق غیر معتبر ہوجائے گی اور چاہے عورت راضی نہ ہو مرد کو حق حاصل ہوگا ، وہ اس کو واپس آنے پر مجبور کرے ۔
(۴) بعض دفعہ شوہر و بیوی آپسی رضامندی سے’’ خلع‘‘ کا معاملہ طے کرتے ہیں ،خلع کے ذریعہ واقع ہونے والی طلاق بھی طلاق بائن ہے ، مجوزہ قانون میں طلاق بائن کی ایسی صورت کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی صراحت نہیں ہے ، جو عورت کی رضامندی سے دی گئی ہو ،؛اس لئے عدالتیں اس طلاق کو بھی کالعدم قرار دے سکتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت نے اپنے لئے نجات و آزادی کا جو راستہ نکالا تھا، وہ بند ہوکر رہ جائے گا اور اسے ناپسندیدگی کے باوجود اس رشتہ کو باقی رکھنا پڑے گا ۔
(۵) طلاق بائن ہی کی ایک صورت ’’ ایلاء ‘‘ ہے ، یعنی اگر شوہر چار ماہ یا اس سے زیادہ یا ہمیشہ کے لئے بیوی کے ساتھ شوہر و بیوی کے مخصوص تعلقات قائم نہ کرنے کی قسم کھالے اور اس پر عمل کرنے لگے ، یہاں تک کہ چار ماہ گزر جائے تو اس کی بیوی پر آپ سے آپ ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی ؛ تاکہ وہ شوہر کے اس تکلیف دہ عمل سے نجات پاسکے ؛ چوںکہ طلاق کی اس صورت میں بھی رجعت کی گنجائش نہیں ہے ؛ اس لئے بظاہراِس پر بھی اِس قانون کا اطلاق ہوگا ، اس کو بھی کالعدم سمجھا جائے گا اور عورت شوہر کے ظالمانہ رویہ کے باوجود اس کی قید ِنکاح سے آزاد نہیں ہوسکے گی ۔
(۶) اس مجوزہ قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ طلاق کی صورت میں ایک شادی شدہ مسلمان عورت اپنے نابالغ بچوں کی نگہداشت اور پرورش کی حقدار ہوگی ، اسلام نے یقینا حق پرورش کے معاملہ میں ماں کو باپ پر ترجیح دی ہے ؛ لیکن شریعت میں اصل اہمیت بچہ کے مفاد کی ہے ؛ اسی لئے عام حالات میں لڑکی کے بالغ ہونے تک حق پرورش ماں کو دیا گیا ہے ؛ کیوںکہ وہ زیادہ بہتر طور پر بیٹی کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے ، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرسکتی ہے اور اس کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتی ہے ، لڑکے چھ سات سال تک ماں کے زیر پرورش رہیں گے، اس کے بعد باپ کو حق پرورش حاصل ہوگا ؛ کیوںکہ اس عمر کے بعد باپ زیادہ بہتر طور پر بچے کی تربیت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے ؛ اوریہ مشاہدہ ہے کہ لڑکے عام طورپر ماں کے قابو میں نہیں رہتے ؛ البتہ اگر بالغ ہونے کے بعد بھی لڑکی کو باپ کے حوالہ کرنا اس کے مفاد میں نہیں ہو، یا لڑکے کو سات آٹھ سال تک ماں کے پاس رکھنا یا اس کے بعد اس کے باپ کے حوالہ کردینا کسی وجہ سے بچہ کے مفاد میں نہیں ہوتو بچہ کے مفاد کو ترجیح دی جائے گی ، اس اُصول کو شریعت میں اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اگر شوہر و بیوی کے درمیان اس شرط پر خلع ہو کہ بیوی بچہ کے حق پرورش سے دستبردار ہوجائے گی؛ حالاںکہ بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو اور ماں کے بغیر نہیں رہ سکتا ہو ، تب بھی بچہ کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے یہ معاہدہ کالعدم ہوجائے گا اور ماں کو حق پرورش حاصل رہے گا ؛ البتہ بچہ جب بھی ماں باپ میں سے ایک کے زیر پرورش ہو تو دوسرے فریق کو وقتاً فوقتاً بچوں سے ملاقات کا حق حاصل رہے گا ۔
شرعاً حق پرورش بعض دفعہ ماں کے علاوہ باپ ہی کو نہیں ؛ بلکہ دوسرے رشتہ داروں جیسے نانی ، دادی ، بہن ، خالہ اور پھوپھی وغیرہ کو بھی حاصل ہوتا ہے اور جب عورت کسی ایسے مرد سے نکاح کرلے جو زیر پرورش لڑکے یا لڑکی کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو ماں کا حق پرورش ختم ہوجاتا ہے ؛ کیوںکہ ایسی صورت میں بچے کو ماں کے زیر پرورش رکھنا بچوں کے مفاد میں نہیں ہوتا ؛ لیکن اس مجوزہ قانون کے رو سے مطلقاً ماں کو پرورش کا حقدار قرار دے دیا گیا ہے ، اس سے باپ اور دوسرے حقداروں کے حقوق متأثر ہوں گے اور خود بچوں کو نقصان پہنچے گا ۔
(۷) اس مجوزہ قانون میں مطلقہ اوراس کے بچوں دونوں کانفقہ مردپرعائدکیاگیاہے؛حالاں کہ طلاق کے بعدعورت کانفقہ سابق شوہر پر واجب نہیں ہوتا، ہاں، بچے چوںکہ اسی کی اولاد ہیں ؛ اس لئے ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہوگا اور جب تک حق پرورش حاصل ہونے کی بناپر عورت ان بچوں کی پرورش کرے گی تو پرورش کی اُجرت اس مرد کے ذمہ واجب ہوگی۔
(۸) مجوزہ قانون کی دفعہ :۴؍ میں فوری اثر کے ساتھ پڑنے والی ناقابل رجعت طلاق پر تین سال کی جیل کی سزا اور اس کے علاوہ جرمانہ کی بات کہی گئی ہے ؛ایک تواس لئے یہ سزاغیرمنصفانہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا شریعت میں ضرورناپسندیدہ عمل ہے اور یہ گناہ کے دائرہ میں آتا ہے ؛ لیکن طلاق بائن ایسا عمل نہیں ہے جوبہرحال گناہ کے دائرہ میں آتا ہو، یا فقہاء کی اصطلاح میں طلاق بدعت ہو ؛ اس لئے اس پر سزا دینا شرعاً ناقابل قبول ہے ۔
(۹) مجوزہ مسودہ قانون میںاگرچہ مقاصد و اسباب کے تحت بین القوسین طلاق بدعت کے ساتھ ایک وقت اور ایک ہی بار میں تین طلاق کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن عدالتیں عام طورپر قانون کے متن کو پیش نظر رکھتی ہیں ،اس میں اس کی صراحت نہیں ہے،اور صورت حال یہ ہے کہ طلاق بدعت صرف یکبارگی تین طلاق تک محدود نہیں ؛ بلکہ فقہاء نے حالت حیض میں طلاق دینے کو بھی بدعت قرار دیا ہے ،چاہے ایک ہی طلاق دی جائے ، تو عدالتیں اس سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار ہوسکتی ہیں اور وکلاء جو الفاظ کی بازی گری سے اپنے کیس کو ثابت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، وہ ایسے شخص کے لئے بھی اس طرح کی سزا کا مطالبہ کرسکتے ہیں ،جس نے اس دوسرے پہلوسے طلاق بدعت دی ہو۔
یہ تو اس مجوزہ قانون کا شرعی پہلو ہے ، اب اس بات کو دیکھئے کہ از روئے انصاف یہ قانون کس حد تک قابل قبول ہے اور کہیں یہ خود تضادکا حامل تو نہیں ہے، اس سلسلہ میں چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے :
(۱) اس قانون کی رو سے ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں بالکل نامعتبراور کالعدم ہیں ، جن کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا ، یعنی ایک بھی طلاق نہیں پڑے گی تو سوال یہ ہے کہ جوعمل وجود ہی میں نہیں آیا اور قانون کی رو سے عورت اس سے متاثر ہی نہیں ہوئی ، تو پھر اس پر سزا دینے کے کیا معنی ہوں گے ، اگر کسی شخص نے فضاء میں فائرنگ کی اوراس کی فائرنگ سے کسی شخص کی جان نہیں گئی تو کیا ایسے شخص کو قتل کی سزا دی جائے گی ؟
(۲) اس قانون کی روسے ایک طرف مرد کو تین سال کے لئے جیل بھیجا جائے گا اور دوسری طرف اس پر عورت اور اس کے بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری ہوگی، یہ کھلا ہوا تضاد ہے ، جب وہ جیل میں ہوگا اور محنت و مزدوری نہیں کرے گا تو وہ عورت اور بچوں کی کفالت کس طرح کرے گا ؟ خاص طورپر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق دینے کے واقعات زیادہ تر کم تعلیم یافتہ ،غریب ، اور معمولی روزگار کے حامل لوگوں کے یہاں پیش آتے ہیں، جوبے چارے روزکماتے اورروزکھاتے ہیں ۔
(۳) یہ بات بھی نامنصفانہ ہے کہ دنگے فساد میں شامل ہونے والے اورمذہبی مقامات کونقصان پہنچانے والے کو تو دو سال کی سزا ہو ، کرپشن اور چار سو بیسی کرنے والے کو ایک سال کی سزا ہو ؛ لیکن تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دی جائے اور اس کے علاوہ جرمانہ بھی عاید کیا جائے ، یہ نہایت غیر متوازن، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ سزا ہے ۔
(۴) اس سزا کو مزید سخت کرنے کے لئے اس کو ناقابل ضمانت اور قابل دست اندازی پولس قراردیا گیا ہے ؛ حالاںکہ یہ کوئی ایسا جرم نہیں ہے ، جس میں کسی کو جسمانی مضرت پہنچائی گئی ہو ، یا عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالا گیا ہو،کیااس میں کوئی معقولیت ہے؟
(۵) پھر اس قانون میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ عورت کے دعویٰ کرنے پر کارروائی کی جائے گی ، مجوزہ قانون مطلق ہے ، بظاہراس کا تقاضا ہے کہ اگر اس شخص کا پڑوسی یا کوئی بدخواہ بلا کسی ثبوت کے یاعورت اور اس کے گھر کے لوگ مرد کے خلاف پولیس میں شکایت کردیں تو اس بیچارے کو ہتھکڑی لگ جائے ، ایسا بے قید قانون ظلم و زیادتی کے دروازے کو کھول دے گا ۔
(۶) یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ تین طلاق کے کالعدم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب شوہر تین سال کی سزا کاٹ کر آئے گا، تو پھر وہ اس عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرے گا ، غور کیجئے !جو مرد اپنی بیوی کی طرف سے تین سال کی طویل سزا کاٹ کر اور خطیر جرمانہ اداکرکے آیا ہے ، کیا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرسکیں گے اور انھیں بزور طاقت ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا عقلمندی کی بات ہوگی ؟
(۷) اس طرح کے قوانین عورت کے لئے مشکلات پیدا کریں گے ، جو لوگ اپنی بیوی سے علاحدگی چاہیں گے اور ان کے لئے تین طلاق یا طلاق بائن کا راستہ بند ہوجائے گا ، وہ بیوی کو لٹکا کر رکھیں گے ، نہ اس کے حقوق ادا کریں گے اور نہ طلاق دیں گے ، ایسی معلقہ عورت کی صورتِ حال مطلقہ سے بھی بدتر ہوتی ہے ؛ کیوںکہ نہ وہ اپنے حقوق پاتی ہیں اور نہ اپنی ذات کے بارے میں آزاد ہوتی ہیں۔
(۸) یہ تو ان لوگوں کے لئے ہے، جن کے دلوں میں کچھ نہ کچھ اللہ کا خوف ہے ، جن کو حلال و حرام کی فکر نہ ہو، وہ سوچیں گے کہ ساری مصیبت نکاح کرنے اور نکاح کے بعد طلاق دینے سے پیداہورہی ہے ؛ اس لئے نکاح ہی نہ کیا جائے ؛ بلکہ چوںکہ قانون بالغ مرد و عورت کو آپسی رضامندی سے ایک ساتھ زندگی گزارنے اور صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے ؛ اس لئے جب تک جس کے ساتھ موافقت رہے ،زندگی اس کے ساتھ گزاری جائے ،اور جب جی اُکتا جائے، نیا رفیق تلاش کرلیا جائے ، طلاق کو مشکل بنانا ان اہم اسباب میں سے ہے ، جن کی وجہ سے اس وقت مغربی ملکوں میں نکاح کی شرح گھٹتی جارہی ہے ، خاندانی نظام بکھرتا جارہا ہے اور اپنی پہچان سے محروم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ؛اس لئے حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے نام پر بننے والا یہ قانون اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے خود خواتین کے لئے نقصاندہ ہے ۔
البتہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کے چند اہم نکات یہ ہوسکتے ہیں :
(۱) صرف ایک ساتھ تین طلاق دینے پر ایک مناسب اور متوازن سزا تجویز کی جائے، اور وہ سزا ایسی ہو جس سے مطلقہ عورت کو فائدہ ہو ۔
(۲) بچوں کا نفقہ تو شرعاً اس کے باپ پر واجب ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ جب تک عورت بچوں کی پرورش کرے، اس کو سابق شوہر کی طرف سے مناسب اُجرت پرورش بھی دلائی جائے ، جو فقہاء کی تصریحات کے مطابق اتنی ہونی چاہئے کہ اس کے خورد و نوش اور رہائش کا انتظام ہوجائے ۔
(۳) مہر اور نفقۂ عدت جلد سے جلد ادا کرایا جائے ۔
(۴) اس نوعیت کے مقدمات کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جائیں ، جو ایک مقررہ مدت مثلاً تین ماہ کے اندر فیصلہ سنادے ۔
(۵) حکومت ایسی مظلوم عورتوں کی طرف سے وکیل کی ذمہ داری قبول کرے اور متاثرہ عورت پر اخراجات مقدمہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے ۔
ٍ یہ تو اس مجوزہ قانون کے اثرات و نتائج اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو تھی ؛ لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہندوستان کے دستور کی بنیاد کثرت میں وحدت اور اقلیتوں کی مذہبی و تہذیبی آزادی پر ہے ؛اسی لئے دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات میں اس کی ضمانت دی گئی ہے ، حکومت کو ہرگز کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہئے ،جو دستور سے انحراف پر مبنی ہو، اس کی روح کو متاثر کرتا ہو ، اوراس سے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو۔
(ملت ٹائمز)