تین طلاق : الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں

  محمد نافع عارفی

ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم ہمارا ابدی دستور ہے؛ جو قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اپنے اندر سمو ئے ہوئے ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود اس کتاب الٰہی سے وابستہ ہے، نبی کریم علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہی قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے قوانین و احکام کو روئے زمین پر نافذ کرنا تھا، آپ صل اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ حکم خدا وندی کی تر ویج واشاعت اور قانون الہی کو خدا کی سر زمین پر نافذ کرنے میں گزرا آپ کی حیات طیبہ اس کا آئینہ ہے۔
  اسلامی قانون نے انسانی زندگی کے کسی شعبہ کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ ہر ہر جگہ انسانیت کی دستگیری کی ہے خواہ اس کا تعلق عائلی اور معاشرتی قانون سے ہو یا فوجداری اور دیوانی اصول و ضوابط سے ہو، اس کا معاشیات سے سیاسیات سے، انہیں قوانین میں  قانون طلاق ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طلاق ایک بدترین چیز ہے؛ اور اسلام نے اس کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھا ہے نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے،أبغض الحلال إلى الله الطلاق (ابو داود 2177)کہ اللہ کی نظر میں حلا ل چیز وں میں سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے، اسلام نے  طلاق کی حوصلہ شکنی کی ہے، لیکن یہ ناگزیر ضرورت بھی ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے کسی عضو کا جسم سے الگ کر دینا ناپسندیدہ ہونے کے باوجود کبھی کبھی ضرورت بن جاتی ہے۔
ایک ہی مجلس میں ایک ساتھ  تین طلاق بدترین عمل اور اللہ اور اس کے رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے؛ اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑانا ہے، ایک ایسا عمل ہے جو قابل مواخذہ جرم ہے، سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا کرنے والے کو کوڑے لگایا کرتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیا کرتے تھے علامہ کاسا نی نے اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع نقل کیا ہے، (بدائع الصنائع ج:3ص:154) ،
وہی ہوا جس کا ڈر تھا،ہندوتوا کی راہ پر گامزن بے جے پی کی حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پاس کردیا، اسد الدین اویسی کے علاوہ کوئی بھی اس بل کی مخالفت میں کھڑا نہیں ہوا، افسوس تو ہے کہ مولانا اسرارالحق قاسمی سمیت تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ نے خاموشی میں اپنی عافیت سمجھی، مولانا قاسمی پارلیمنٹ میں تو خاموش رہے اور ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے لیکن باہر آتے ہی ایک بیان داغ دیا کہ بے جے پی کی شازش ہے، اگر کسی نے مخالفت کی تو چند ہندو ممبران پارلیمنٹ نے۔
اس بل نے جہاں کانگریس کے سیکولر ازم کا نقاب اتار دیا وہیں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد ولی رحمانی کی انا اور ہٹ دھرمی بھی کچل دی گئی – ولی رحمانی صاحب کی اناہی تھی جس نے ایک خالص قانونی مسئلہ کو سڑک کا مسئلہ بنا دیا، آپ کو یاد ہو گا کہ جنرل سکریٹری صاحب نے ہی دہلی میں منعقد پریس کانفرنس میں لات جوتے سے اپنی اپنی بات منوانے کی بات کی تھی، جس پر بڑی لے دے ہوئ، آخری وقت میں جبکہ بل پارلیمنٹ آنے کو تیار تھا پرسنل لا بورڈ نے وزیراعظم سے ملاقات کا وقت مانگا، یہ کام پہلے ہی کر لیا گیا ہوتا تو شاید نتائج مثبت آتے ، لیکن ایک شخص کی انا نے سارے معاملات بگاڑ دئیے۔
اب یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ جمہوریت کے عددی کھیل میں احتجاجی مظاہرے جلسے اور جلوس کی کوئی حقیقت نہیں، پرسنل لا بورڈ جلسوں کے سراب سے باہر نکلے اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کر ے، عددی قوت کے حصول پر توجہ دی جائے کیونکہ

تقدیر کے کاتب کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات 

تین طلاق پر حکومت جو قانون لائ ہے اس میں بہت سی خامیاں ہیں جس پر حکومت کو ضرور غور کرنا چاہیے، اس میں تین سال تک قید کی سزا بھی ہے، اور تین طلاق بے اثر بھی بنایا گیا ہے، یہ کھلا ہوا تضاد ہے، لیکن تین طلاق پر سزا کی گنجائش ہے جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا، مجھے سمجھ میں نہیں آتا سزا کو ماننے میں کیا قباحت ہے، تاہم یہ صحیح ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔
(مضمون نگار المعہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور دربھنگہ کے مہتمم ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں