سید منصور آغا، نئی دہلی
دوہی مہینہ کے اندر مودی سرکار کویہ یقین ہوگیا کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو خلاف قانون قراردینے کا جو فیصلہ ماہ اگست میں صادر کیاتھا، اس پرعمل نہیں ہورہا ہے، حالانکہ ابھی کوئی کیس عدالت میں نہیں پہنچا۔ بل لانے سے پہلے انتظارکرنا چاہئے تھااوردیکھنا چاہئے تھاکہ عدالتیں موجودہ قوانین کی روشنی میں سپریم کورٹ کی اس رولنگ پرکس طرح عمل درامد کراتی ہیں۔لیکن سرکارکوعجلت ہے کہ طلاق بدعت کو جوقطعی سول معاملہ ہے ، فوجداری بنادیا جائے اور تین بار طلاق کہہ دینے والے کو،وہی تین سال کی سزادی جائے جوموجودہ قانون میں ملک سے بغاوت کے مجرم کو دی جاتی ہے۔
شادی ایک سول معاہدہ ہے، جس میں مرد کے اوپر بیوی اوربچوں کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جب کہ بچوں کی پرورش اورگھر گرہستی کی نگرانی و نظم عورت کاذمہ ہے۔ ہندستانی معاشرے میں عام طور پر ایسا ہی ہوتاہے لیکن بعض حالات میں خواتین معاش میں ہاتھ بٹاتی ہیں اورنکھٹومردوں کو نباہتی ہیں۔ اس نظام میں مسلم اور ہندوخاندانوں میں کوئی فرق نہیں۔ فرق یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ زوجین میں کوئی ناچاقی ہوجائے تو بعض شرائط کے ساتھ مسلمانوں میں طلاق کا شرعی قانون موجود ہے ،جب کہ غیرمسلموں میں طلاق کا کوئی تصور نہیں۔ اب جوان میں طلاق ہوتی ہے وہ رسم ورواج اورمذہبی اصولوں سے آزاد ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے قائدین انھی لوگوں سے ’شریعت‘ کی حفاظت کی گزارش کر رہے ہیں، جو خود اپنے مذہبی قوانین پر قائم رہنا اہم نہیں سمجھتے!
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدبات صرف اتنی رہ جاتی ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے، تو بیشک مفتی کی نظرمیں طلاق واقع ہوجائے گی اور بیوی شوہر پر حرام قرار پائے گی۔ لیکن سر زمین ہند پر اس ’طلاق‘ کا کوئی قانونی اثرنہیں ہوگا۔بیوی (یاسابق بیوی) اور اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر برقراررہے گی۔ اب اگرکوئی شخص ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتاتویہ سول معاملہ ہوگا۔ عدالت مردسے بیوی کا حق دلوائے گی۔یہ وصولی مرد کی جائداد یا آمدنی سے کی جاسکتی ہے۔اس صورت میں نہ تو پولیس کا دخل ہوگا اورنہ جیل کی سزا۔لیکن ہماری سرکار چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ایک وقت میں تین طلاق دینے والے مرد کو ’مجرم‘ قراردیکر جیل بھیج دیا جائے ۔اس کی ضمانت بھی نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی نوکری جاتی رہیگی ۔اگر کاروبارکرتا ہے تو وہ ختم ہوجائیگا۔ایسی صورت میں اس بیوی اور بچوں کی کفالت کاذریعہ کیاہوگا؟ گویا وہ سہارا ہی ختم ہوجائے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے تین طلاق کی ماری خاتون کو قانوناًحاصل ہوگیا ہے۔ کیا ایسی صورت میں سرکاران کی کفالت کریگی؟نہیں۔جو سرکارسرحد پرنگرانی کے محافظ فوجیوں اور ڈیوٹی کے دوران مارے جانے والے سرکاری عملے کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نہیں لیتی وہ مطلقہ مسلم خاتون کی کیالیگی ؟ صاف ظاہر ہے کہ خاطی مرد کوجیل بھیج دینا اس کے ظلم کی ماری خاتون اور اس کے بچوں کے لئے کسی راحت کا نہیں بلکہ مصیبت کاسبب ہوگا۔ کیا سرکار مسلم خواتین کے مدد اسی طرح کرنا چاہتی ہے؟
وزیر قانون روی شنکر پرساد نے مجوزہ بل کے مقاصد میں طلاق بدعت کیس میں مسلم پرسنل بورڈکے بیان حلفی کا حوالہ دیا ہے کہ یہ معاملہ کیونکہ ایک مذہبی رواج کا ہے، اس لئے عدالت اس میں دخل نہیں دے سکتی البتہ پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے۔قرارداد مقاصد میں سپریم کورٹ کوبورڈ کی اس یہ یقین دہانی کابھی حوالہ ہے کہ وہ خود طلاق بدعت سے باز رکھنے کے لئے مہم چلائے گی، مگرگزشتہ پانچ ماہ میں کوئی پہل نظرنہیں آئی۔ اس کیس کے دوران اس کالم نویس نے اوربعض دیگرافراد نے بورڈ کویہ مشورہ دیا تھا کہ از خود ایک بل کا مسودہ تجویز کرے۔لیکن بورڈ نے توجہ نہیں فرمائی۔چنانچہ سرکار نے آنافاناً بل پیش کردیا جس میں تین طلاق کو ناقابل ضمانت فوجداری جرم بناکر، تین سال تک کی سزااورجرمانہ تجویز کیا گیاہے جس کاخیرمقدم کانگریس نے بھی کر دیا ہے۔
ہرچند کہ ملک کے سامنے اہم مسائل بہت ہیں لیکن اس معاملہ میں سرکار شاید عجلت اس لئے ہے کہ 2019 کے پارلیمانی چناؤ سے پہلے 8 اسمبلیوں کے چناؤ میں اس اشو سے فائدہ اٹھایاجائے۔ وکاس اور گجرات ماڈل کی ہوانکل چکی۔ اس لئے عوام کو یہ احساس دلانا مفید ہوگاکہ ہم نے مسلم سیاسی لیڈروں کے بعد نیم سیاسی مذہبی لیڈروں کوبھی ٹھکانے لگانے کاوہ کارنامہ انجام دیدیا ہے جو کانگریس 70برس میں نہیں کر سکی۔ اب آپ ’’ہائے تین طلاق، شریعت میں مداخلت‘‘ کا جتنا شوراٹھائیں گے اتنا ہی بھاجپا کے لئے ماحول سازگارہوگا ۔ اس کاسلسلہ تواسی وقت شروع ہوگیا تھاجب ہمارے قائدین نے ایک سیاسی تحریک چلائی تھی۔ اللہ اس ملت کی حفاظت فرمائے۔ جذباتیت سے بالاسیاسی شعور سے نوازے۔ یہ جواحتجاجی جلسوں اور ہربات کو میڈیا میں لے دوڑنے کی للک ہوگئی ہے،وہ موجودہ ماحول میں ہماری مددگارنہیں ، نقصان دہ ہے مگر خود نمائی کاشوق بری بلا ہے۔
موجودہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ تین طلاق کو فوجداری کا معاملہ بنا دینا کہاں تک ہمارے قانونی فلسفہ اوراس کی اساس سے ہم آہنگ ہے یانہیں۔ جمہوری ،آئینی نظام میں قانون سازی میں حکمراں کی مرضی نہیں چلتی بلکہ اس کو کچھ پیمانوں کے مطابق ڈھالناہوتا ہے۔مثال کے طوراگرملک سے بغاوت کی سزا تین سال ہے تو تین مرتبہ طلاق، طلاق کہہ دینے سے، جس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا، تین سال کی جیل کیسے مطابقت کرے گی۔ جرم کے سزاایک فریم ورک میں اس سے مثل جرم سے مطابقت کے بغیر جائز نہیں۔
ڈاکٹرفیضان مصطفٰی نے، جو نلساریونیورسٹی حیدرآباد کے وی سی ہیں اپنے ایک آرٹیکل “Why Criminalising Triple Talaq is Unnecessary Overkill” میں اس مسئلہ کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ذیل میں ہم اس کے ابتدائی نکات کے حوالے سے چندباتیں عرض کریں گے۔جیسا کہ اوپر ذکر آیا،شادی دوفریقوں کے درمیان ایک سول معاہدہ ہے اورسول معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت وہی معاوضہ دلاتی ہے جو معاہدہ میں(نکاح کی صورت میں نکاح نامے میں )مقرر ہو یا بصورت دیگر عدالت مناسب سمجھے۔ فوجداری معاملہ تب بنتا ہے جب جرم پورے معاشرے کے لئے مہلک ہوتا ہے۔ اسی لئے ریاست کو اس جرم کی سزا مقررکرنے اور عدالت سے اس کو نافذ کرانے کا اختیار ہے، تاکہ اس کی مجرمانہ ذہنیت سے کسی اورکو نقصان نہ پہنچے۔کس جرم کی کتنی سزادی جائے، اس کا تعین جرم کی نوعیت اورشد ت سے کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں اپنی سیاسی ضرورت کے تحت معمولی معاملہ میں سنگین سزادیدی جائے اورخطاکار کو تباہ کردیا جائے۔اس پہلو پر روشنی،زندگی بخیر توآئندہ ہفتہ ڈالی جائے گی۔
فوجداری اورسول کیس میں ایک بڑافرق یہ ہے کہ فوجداری میں ایک دن کی سزا یا ایک روپیہ جرمانہ بھی تباہ کن ہوتاہے۔ مجرم قرارپاتے ہی، ملازمت جاتی رہتی ہے۔ پاسپورٹ ضبط ہو جاتا ہے۔ لیکن سول معاملے میں ایک کروڑ کا جرمانہ بھی ایسا مہلک نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگرتین طلاق کو فوجداری معاملہ بنایاگیا،توگویا سزایافتہ توتباہ ہوگیا۔ (اور شاید سرکار کا یہی مقصد ہے۔ جس سرکارنے ہزاروں کے تعداد میں نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں ملوث کرکے تباہ کردیا۔اس سے کچھ بعید نہیں کہ کچھ بھی کرگزرے۔)
دوسرے یہ کہ قانون اسی فعل کو جرم قراردیتا ہے جواخلاقی طور سے غلط اور معاشرے کے لئے مضر ہو۔ کوئی حکومت آنافانا یہ طے نہیں کرسکتی کہ جو عمل صدیوں سے چلاآتا ہے ،وہ اب اچانک قابل سزا ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی یہ نہیں کہا کہ تین طلاق قابل دست اندزی پولیس ہوگی۔مودی سرکار سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے جس فیصلہ کے بہانے سے یہ بل لائی ہے ،اس کے پانچ میں سے دوججوں (چیف جسٹس جے ایس کیہیر اورجسٹس عبدالنظیر)کی رائے یہ تھی کہ تین طلاق مسلم قانون کے تحت جائز ہے۔ عدالت اسے نہیں روک سکتی۔البتہ پارلی منٹ چاہے توقانون بناکر اسے کالعدم کردے۔ فیصلے کو پڑھ لیجئے۔ اس میں کہیں تین طلاق کو جرم قرار دینے کی تجویز یا ذکر نہیں۔ اسی بنچ کے تین ججوں نے، جن کا فیصلہ اکثریتی اوربائنڈنگ (لازم) ٹھہرا، اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور طلاق ثلاثہ کوآئین کے دفعہ 141سے متصادم قرار دے کر غیرقانونی ٹھہرادیا۔ اس اکثریتی فیصلے سے وہ مقصد از خود پوراہوگیا جو اقلیتی فیصلے میں پارلیمنٹ پر چھوڑاجارہا تھا یا جو بات پرسنل لاء بورڈنے سپریم کورٹ میں کہی تھی۔اس لئے ازروئے فیصلہ ہذااب پارلیمنٹ کوقانون لانے کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ قانون کی روسے اب طلاق ثلاثہ بے اثرہوچکی ہے ۔نئے قانون کی ضرورت نہیں۔
حکومت کی یہ دلیل درست نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعددوماہ میں تین طلاق کے 67 (یا اب تک ایک سو)کیس ہوچکے ہیں،(گویا اوسطاً سالانہ 402)اس لئے قانون کی ضرورت ہے۔ فیصلہ صادر ہونے کے بعد صرف دوماہ کا وقت عوام کا شعور بیدار کرنے کے لئے کافی نہیں۔ چوری ، ڈکیتی اورزنا جیسے کتنے معاملوں میں سخت سزاکے قانون کو مدت گزرگئی مگرجرم رکنے کا نام نہیں لے رہے۔تازہ واقعہ ہے، عصمت دری کے خلاف سخت قانون کا ہے جواپریل 2013 میں نافذ ہوا۔ لیکن نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس قانون کے بعد بھی ہر سال اوسطاً 24,923 (فی گھنٹہ 26)کیس ہورہے ہیں۔ شکارہونے والی خواتین میں 7,200 نابالغ بھی ہیں۔ یہی معاملہ دیگرجرائم کا ہے۔( ہماری سرکار کو تین طلاق کے اوسطا 402کیس سالانہ کی توفکر ہوگئی ، جس میں ویسی ذلت، ذہنی کرب اور سماجی تباہی نہیں ہوتی جیسی عصمت دری میں ہوتی ہے لیکن سنگین جرائم کو روکنے کی کوئی فکر نہیں) ۔سرکار کروڑوں روپیہ اشتہارات پر خرچ کرتی ہے،لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے عوام کو باخبرکرنے کے لئے کیا کیا؟ جب کہ مسلمان خوداصلاح کے لئے سرگرم ہیں۔ جماعت اسلامی ہنداور جمعیۃ علماء ہندنے مسلسل بیداری مہم چلاررکھی ہے۔ اخباروں میں بھی لکھا جارہا ہے۔ اور یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں انکاپیغام بے اثررہے گا۔)
طوالت کی وجہ سے آج بس اتنا ہی۔ بعض دیگراہم نکات انشاء اللہ آئندہ ہفتہ ۔ اس وقت قارئین محترم کو یہ پیغام پہنچانا ہے کہ جو کام ایک طلاق سے ہو سکتا ہے اس کے لئے ایک سانس میں تین کی کیا درکار ہے اورکیوں اس کو برقراررکھنے پر اصرار ہے؟اگر مجبوری ہی ہے اور مفاہمت کے دروازے بند ہوچکے ہیں توپھر ایک طلاق دیکر علیحدہ ہوجائیے اور مطلقہ خاتون کے ساتھ ویسا ہی حسن سلوک کیجئے جس کی ہدایت اللہ کے رسولﷺ نے فرمائی ہے ۔ یہ سارا عتاب اس لئے آرہا ہے کہ ہم نے اپنی نادانی سے اسلامی تعلیمات کو پارہ پارہ کر دیا ۔ جتنے پر جی چاہا عمل کرلیا، جتنا چاہا چھوڑ دیا۔یہ رویہ غلط ہے۔ طلاق دینی ہی ہے تو طلاق احسن ہزار خرابیوں سے بچاتی ہے اورطلاق بدعت ہزارہا برائیوں میں مبتلا کرتی ہے ان میں ایک حلالہ بھی ہے۔





