خواتین کے ساتھ تشدد خلاف انسانیت عمل

شمس تبریز قاسمی
(ملٹ ٹائمز)
کائنات کی زیب وزینت کا سہرا عورت کے سر جاتا ہے ۔وہ معاشرے کی حقیقی معمار ہوتی ہے۔معاشرے میں نکھار پیدا کرنے اور اسے خوبصورت بنانے کا فن صرف عورت ہی جانتی ہے اوران ہی کے اچھے کردار کی وجہ سے ایک تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جیسے کہ اگر ایک مرد کو تعلیم یافتہ کر دیا جائے تو ممکن کہ اس کا فائدہ صرف اس کی ذات تک ہی محدود رہے لیکن ایک عورت کو تعلیم دینے سے مراد ایک پوری نسل کو تعلیم دینا ہے۔یوں اب عورت جس روپ یا رشتے میں ہو وہ اپنے کچھ حقوق رکھتی ہے۔کیونکہ عورت صرف جنس نہیں انسان ہے وہ بھی احساس و جذبات رکھتی ہے۔اپنی خواہشات رکھتی ہے۔لیکن افسوس کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں ہر مرد ہی عورت پر غالب آنا چاہتا ہے۔فرسودہ روایات کے مارے ہوئے اور پسماندہ ذہنیت رکھنے والے لوگ آج بھی عورت کو حقیر ہی جانتے ہیں ۔ان کے حقوق کو پامال کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔لیکن خود یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ عورت سے ہمیشہ اچھی توقع ہی رکھتا ہے اور مرد کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اس کی سوچ سے بھی زیادہ اچھا ملتا ہے۔اسے کانٹوں کے بدلے ہمیشہ پھول ہی ملتے ہیں۔کیونکہ عورت ذات میں صبر اور برداشت کی صلاحیت مردکی نسبت کئی گنا ذیادہ ہوتی ہے۔وہ خود میں اَنا اور انتقام کی آگ کو لگنے سے پہلے ہی بجھا دیتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق آج دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہے۔اور یہ شرح ایک لمحہء فکریہ ہے۔خواتین پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن ہر سال 25 نومبر کو منایا جاتا ہے۔اس دن کا اہم مقصد عوام میں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے بارے میں اور اس تشدد کی وجہ سے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ اور پچیس نومبر سے دس دسمبر( انسانی حقوق) کے عالمی دن تک عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے ایک سولہ روزہ مہم چلائی جاتی ہے۔ کیونکہ آج بھی عورتوں کو جنسی ،جسمانی یا نفسیاتی تشدد کے زریعے دبانے کی کوشیش کی جاتی ہے۔اور یہ المیہ نہ صرف ہمارے ملک تک محدود ہے حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک کی بہت سی خواتین کے ساتھ بھی تقریباً یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ عورت پر تشد د نہ صرف ایک ظلم ہے ایک جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ عالمی سطح پر ایک مشاہدہ کے مطابق تمام دنیا کی 35% خواتین یا لڑکیاں اپنی تمام ذندگی میں کسی جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔تمام دنیا کی خواتین میں سے250ملین ایسی ہیں جن کی 15 سال سے بھی کم عمرمیں شادی کر دی جاتی ہے۔ کم عمر میں شادی ہونے والی خواتین کی ایک تو تعلیم نامکمل رہ جاتی ہے۔اور دوسرا وہ ذہنی طور پر ذیادہ پختہ نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے انہیں عملی ذندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے بھی وہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ایک مرد کے عورت پر تشدد کی چند بنیادی وجوہات یہ دیکھنے میں آئی ہیں جن میں مرد کے انفرادی نفسیاتی مسائل، زندگی کا ناقابلِ برداشت دباؤ ، منشیات یا الکوحل کا استعمال ، شکی مزاج ہونا ، عورت کا مناسب کھانا وغیرہ نہ پکانا، اور کم جہیز لانے جیسے عوامل ایک عورت پر تشدد کی وجہ بنتے ہیں۔ خواتین پر تشدد یا انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا ان کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے ان کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ان سے بڑھ کر یہ کہ عورتوں میں فیصلہ سازی کے حوصلے کو کم کرتا ہے۔وہ قانون کے ہوتے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتی ہیں اور اپنے مستقبل بارے میں ایک غیر یقینی صورتِ حال میں جکڑ جاتی ہیں۔ایک طرف تو مرد عورت کو اپنی ذندگی کی ہیرؤین بھی کہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک ولن جیسا سلوک کیوں کرتا ہے۔
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوزودروں
اب اسلامی رو سے دیکھیں تو عورت کی ذات کو جس قدر عزت مذہب اسلام نے دی ہے دوسرے کسی بھی مذہب نے نہیں۔اسلام نے ہی ایک عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کئے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگروہ بیٹی ہے تورحمت،اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت۔لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے تو کہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے کہیں وہ غیرت کے نا م پر قتل ہو رہی ہے تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ وہ عورت کو کمزور جانتا ہے لیکن شائد مردکو ایک عورت کی طاقت کا اندازہ نہیں کیونکہ عورت اگر باغی ہو جائے تو پھر اس سے بڑا باغی کوئی نہیں اگر وہ فتنہ پر اتر آئے تو اس فتنے سے پھیلنے والی تباہی کی کوئی حد نہیں۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔کہ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ۔سورہ البقرہ۔) ایک اور جگہ ارشاد ہے کہاور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ ذندگی بسر کرو۔سورہ النساء )۔ مسلم معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات انحراف نظر آرہا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی اور اس کے حقوق کی خلاف ورزی زیادہ تر مسلم معاشرہ کا وہ طبقہ کرتا ہے جو علم سے نا بلد ہوتا ہے ۔ وہ یہی سمجھتاہے بیوی کی حیثیت ایک نوکرانی جیسی ہے ۔ اس سے جیسے چاہو کام لو۔
امریکن اور یورپین معاشرہ میں جہاں آزادی نسواں کی تحریک چلائی جاتی ہے ۔ اسلام پر دقیانوسیت کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ خواتین کی حقوق تلفی کے حوالے سے مذہب اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ وہاں سب سے زیادہ عورتوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ آج کی ایک تازہ ترین نیوزجو ہمارے سامنے ہیں اسے پڑھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے مغربی معاشرہ عورتوں کس قدر محفوظ ہیں ۔ امریکہ کی ایک جیل میں قیدی نے محافظ دستہ میں شامل چار عورتوں کا حاملہ کردیا ہے ۔ امریکی معاشرہ کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے وہاں یہ روزمرہ کا معمول ہے ۔ آزادی نسواں کے نام پر وہاں کی خواتین دنیا کے آغاز کے وقت جو معاشرہ تھا اسی کو اپنارہی ہے ۔جب انسان کا وجود ہوا تھا تو اس وقت انسان ننگا تھا ، پھر درخت کے پتوں سے جسم کے تحفظ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ مغربی تہذیب آج معاشرہ کی اسی قدیم روایت پر عمل کررہی ہے ۔ جو سب سے بڑی دقیانوسی ہے اور عورتوں پر ظلم بھی اسی معاشرہ میں سب سے زیادہ ہورہا ہے۔
(مصنف معروف کالم نویس اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )